سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس: ’بیان لینے کمیشن آئے اور طبیعت بھی دیکھ لے‘
سابق فوجی صدر پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ آئین شکنی اور سنگین غداری کے مقدمے میں ان کا بیان ریکارڈ کرنے کے لیے کمیشن ان کے پاس آئے اور یہ بھی دیکھ لے کہ ان کی طبیعت کیسی ہے۔
دبئی کے ایک ہسپتال سے جاری کیے گئے ایک ویڈیو بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ان کی طبیعت بہت خراب ہے اور یہ کہ انھیں اکثر ہسپتال میں داخل کروایا جاتا رہا ہے۔
اپنی خراب صحت کے متعلق بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ منگل کی صبح بھی غنودگی ہونے کے بعد بیہوشی کی حالت میں انھیں ہسپتال لایا گیا۔
پرویز مشرف کا آئین شکنی اور سنگین غداری سے متعلق مقدمے پر بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’یہ کیس میری نظر میں بالکل بے بنیاد ہے۔ غداری چھوڑیں، میں نے تو اس ملک کے لیے بہت خدمات انجام دی ہیں، جنگیں لڑی ہیں اور دس برس ملک کی خدمت کی ہے۔‘
واضح رہے کہ سابق فوجی صدر کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے 28 نومبر کو پرویز مشرف کو اپنا بیان ریکارڈ کروانے کے لیے پانچ دسمبر تک حتمی مہلت دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے بعد عدالت کوئی درخواست نہیں لے گی۔
پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ آئین شکنی کے مقدمے میں ان کی شنوائی نہیں ہو رہی۔
انھوں نے کہا کہ ‘میرے وکیل سلمان صفدر تک کو عدالت سن نہیں رہی۔ میری نظر میں یہ بہت زیادتی ہو رہی ہے اور انصاف کا تقاضہ پورا نہیں کیا جا رہا۔’
ان کا کہنا تھا کہ کمیشن بیان لینے ان کے پاس آئے اور ساتھ ہی ان کی صحت کی صورتحال بھی دیکھ لے اور پھر فیصلہ کیا جائے۔
انھوں نے مطالبہ کیا کہ اس کمیشن کو عدالت میں سنا جائے اور ان کے وکیل کو بھی سنا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں امید ہے کہ ان کے ساتھ انصاف کیا جائے گا۔
عدالت کے احکامات
اس سے قبل 28 نومبر کو خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس وقار سیٹھ نے پرویز مشرف کے وکیل کو بتایا تھا کہ عدالت نے ملزم کو ایک اور موقع دیا ہے اور پرویز مشرف اگلی سماعت سے قبل جب چاہیں آکر بیان ریکارڈ کرواسکتے ہیں۔
نامہ نگار اعظم خان کے مطابق ساتھ ہی ساتھ عدالت نے پراسیکویشن ٹیم کو پوری تیاری کے ساتھ پیش ہونے کی ہدایت بھی کی اور واضح کیا کہ 5 دسمبر سے اس مقدمے کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہو گی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کے ایک رکن کا کہنا تھا کہ ہم صرف سپریم کورٹ کے احکامات کے پابند ہیں، ہائی کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کے پابند نہیں ہیں۔
واضح رہے کہ خصوصی عدالت نے اس حوالے سے 28 نومبر (جمعرات) کو فیصلہ سنانا تھا لیکن 27 نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی وزارتِ داخلہ کی درخواست منظور کرتے ہوئے خصوصی عدالت کو ایسا کرنے سے روک دیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے روشنی میں خصوصی عدالت نے وفاقی حکومت کو پانچ دسمبر تک استغاثہ کی ٹیم کی تقرری کے لیے وقت دیا اور سابق صدر پرویز مشرف کو بھی پانچ دسمبر تک اپنا بیان ریکارڈ کرانے کی ہدایت کی۔
28 نومبر کو ہونے والی سماعت کے دوران خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے ریمارکس دیے کہ وہ ہائی کورٹ کے فیصلے پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔ تاہم خصوصی عدالت کے رکن جسٹس شاہد کریم نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر اپنی رائے کا اظہار کیا اور کہا کہ خصوصی عدالت صرف سپریم کورٹ کے احکامات کے پابند ہیں، ہائی کورٹ کے نہیں۔
جبکہ سماعت کے دوران سرکاری وکیل صفائی رضا بشیر خصوصی عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور ان کی جانب سے تحریری جواب جمع نہ کروائے جانے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔
یاد رہے کہ خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دیے جانے کی وجہ سے ان کے وکیل کو پیش ہونے سے روک دیا تھا تو پھر حکومت کو ان کے لیے سرکاری طور پر ایک وکیل مقرر کرنے کے احکامات دیے تھے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم
اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے خصوصی عدالت سے کہا گیا کہ وہ ابھی فیصلہ نہ سنائے اور فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے کرتے ہوئے فریقین کو سن کر فیصلہ دیا جائے۔
عدالت نے خصوصی عدالت سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ پرویزمشرف کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر کا موقف بھی سنے۔
خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کی عدالت سے مسلسل غیرحاضری اور بیان ریکارڈ نہ کروانے کی وجہ سے انھیں اشتہاری قرار دیا تھا اور ان کے وکیل کو عدالت میں اپنے موکل کی پیروی سے بھی روک دیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سنگین غداری کیس میں حکومت کو پانچ دسمبر تک پراسیکیوٹر تعینات کرنے کا حکم بھی دیا ہے جبکہ خصوصی عدالت سے کہا ہے وہ جلد از جلد اس معاملے کی سماعت مکمل کرے۔
خیال رہے کہ تحریکِ انصاف کی حکومت نے 24 اکتوبر کو سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے کی پیروی کرنے والی استغاثہ کی ٹیم کو تحلیل کر دیا تھا۔
’سابق صدر پرویز مشرف شدید علیل ہیں‘
بیرسٹر سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا تھا کہ سابق صدر پرویز مشرف اس وقت شدید علیل ہیں اور وہ خصوصی عدالت کی جانب سے دیے گئے آپشن کے باوجود ذہنی طور بھی اس قابل نہیں ہیں کہ وہ اپنا سکائپ پر بیان ریکارڈ کرا سکیں۔
سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ پرویز مشرف کے گھر والے بھی ان کی صحت کے بارے میں بہت پریشان ہیں۔ سابق صدر وکلا کو بھی نہیں بتا سکتے کہ اب وہ ٹرائل کا حصہ کیسے بن سکتے ہیں اور سکائپ پر بیان کیسے ریکارڈ کرائیں۔
سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف ایک درخواست گزار توفیق آصف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’توفیق صاحب آج جنرل پرویز مشرف اتنا کمزور ہے، جب وہ طاقت میں تھا تو (ہمارا) کچھ نہیں کرسکا، آپ پریشان نہ ہوں ہم فیئر ٹرائل کو یقینی بنائیں گے۔‘
خیال رہے کہ جب سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف وکلا تحریک شروع ہوئی تھی اس وقت جسٹس اطہر من اللہ بھی وکلا تحریک میں پیش پیش تھے اور وہ پاکستان کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ترجمان کے طور پر ٹی وی ٹاک شو میں شریک ہوتے تھے۔
’پرویز مشرف ٹرائل کا حصہ بننے کے قابل نہیں رہے‘
فیصلے کے بعد بیرسٹر سلمان صفدر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قانون میں یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ اگر کوئی وکیل عدالت میں موجود نہ ہو تو وفاقی حکومت یا عدالت وکیل مقرر کرتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ وکیل صفائی اس وقت مقرر کیا جاتا ہے جب ملزم اس قابل نہ ہو یا اسے کوئی مالی مشکلات ہوں۔
انھوں نے عدالت کو بتایا کہ پرویز مشرف صحت مند ہو کر ہی ٹرائل کا حصہ بن سکتے ہیں، ابھی وہ اس قابل نہیں ہیں۔
’یہاں ایسا نہیں تھا میں پہلے سے موجود تھا اور عدالت کی رہنمائی کر رہا تھا تو آج عدالت نے یہ متفقہ فیصلہ دیا ہے اور مجھے اختیار دیا گیا ہے کہ میں پانچ دسمبر کو عدالت میں پیش ہوں گا اور اپنے دلائل دوں گا۔‘
نامہ نگار کے مطابق جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن کیانی پر مشتمل بینچ نے 27 نومبر (بدھ) کو اس معاملے کی سماعت شروع کی تو جسٹس محسن کیانی کا کہنا تھا کہ کیا آج وفاقی حکومت پرویز مشرف کے خلاف ٹرائل نہیں کرنا چاہتی جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کل فیصلہ سنانے سے روکا جائے اور ہمیں نئی پراسیکیوشن ٹیم تقرر کرنے دی جائے۔
تقریباً دو گھنٹے کی سماعت میں عدالت کی جانب سے سوال اٹھایا گیا کہ اس معاملے میں درخواست گزار ہی یہ کہہ رہا ہے کہ ہم سے غلطیاں ہوئی ہیں، ہماری غلطیوں کی درستگی کی جائے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کیا خصوصی عدالت صرف اس لیے فیصلہ نہ سنائے کہ آپ (حکومت) سے غلطی ہوئی تھی۔
’عدلیہ نہیں حکومت کے لیے شرمندگی کا مقام‘
ایڈیشنل اٹارنی جنرل الیاس بھٹی نے عدالت کو بتایا کہ حکومت چاہتی ہے کہ غلطی سدھار لی جائے تاکہ کل عدلیہ کے لیے شرمندگی کا باعث نہ ہو جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ یہ عدلیہ کے لیے نہیں وفاقی حکومت کے لیے شرمندگی کا باعث ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا حکومت کو ٹرائل اور خصوصی عدالت کے خلاف سات سال بعد ہمارے پاس آئے ہیں۔
عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت اپنی غلطیاں خود کیوں درست نہیں کرتی اور اگر اس معاملے میں غلطیاں ہیں تو حکومت اس مقدمے کو واپس کیوں نہیں لے لیتی، کیونکہ وفاقی کابینہ کو اختیار ہے کہ وہ اپنی غلطیاں خود درست کر سکتی ہے۔
چیف جسٹس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہمارے سامنے ایسے شخص کا کیس ہے جس نے عدلیہ پر وار کیا تھا اور جو اشتہاری بھی ہو چکا ہے‘ تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ہم سب کے لیے ایک مشکل کیس ہے، پیچیدگی یہ ہے کہ اس سب کے باوجود فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے کرنے ہیں۔‘
’عدلیہ کی تاریخ کے مضحکہ خیز لمحات‘
جسٹس عامر فاروق نے حکومتی وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’یہ عدلیہ کی تاریخ کے مضحکہ خیز لمحات ہیں۔‘
پرویز مشرف کے وکیل کی حیثیت سے خصوصی عدالت میں پیش ہونے والے بیرسٹر سلمان صفدر نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا کہ انھیں خصوصی عدالت کے سامنے اپنے موکل کا موقف پیش کرنے نہیں دیا گیا اور یہ کہا گیا تھا کہ پرویز مشرف اشتہاری ہیں اس لیے ان کا موقف نہیں سنا جا سکتا۔
اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ اس بارے میں اپنا فیصلہ دے چکی ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے سلمان صفدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ویسے وزارت داخلہ کے وکیل نے پرویز مشرف کا کیس پیش کر دیا ہے۔‘
اس سے قبل 26 نومبر کو سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ہی کہا تھا کہ چونکہ پرویز مشرف ایک اشتہاری ملزم ہیں اس لیے عدالت انھیں متاثرہ فریق نہیں سمجھتی اور قانون کے مطابق مشرف کے وکیل کے دلائل نہیں سنے جا سکتے۔
پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کا پس منظر
سنہ2013 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد پاکستان مسلم لیگ نواز نے حکومت میں آنے کے بعد سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ درج کیا تھا۔
سابق فوجی صدر کے خلاف سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کے چار سربراہان تبدیل ہوچکے ہیں لیکن یہ مقدمہ اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچا۔
ملزم پرویز مشرف صرف ایک مرتبہ ہی خصوصی عدالت کے سامنے پیش ہوئے ہیں جب ان پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ اس کے بعد سابق فوجی آج تک عدالت پیش نہیں ہوئے ہیں۔
سابق صدر پرویز مشرف مارچ 2016 کو طبی بنیادوں پر بیرون ملک چلے گئے تھے۔ ان کا نام اس وقت کی حکمراں جماعت مسلم لیگ ن نے ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے خارج کرنے کے بعد ملک سے جانے کی اجازت دی تھی۔
پرویز مشرف پر فرد جرم عائد
اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے 31 مارچ 2014 کو غداری کے مقدمے میں پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف پر فردِ جرم عائد کی تھی۔
واضح رہے وہ پاکستان کی تاریخ میں پہلے شخص ہیں جن کے خلاف آئین شکنی پر مقدمہ چل رہا ہے۔
سابق وزیرِ اعظم، چیف جسٹس غداری کے مقدمے میں شریکِ جرم
سابق فوجی صدر کے خلاف سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے ملزم پرویز مشرف کی طرف سے تین نومبر 2007 میں ملک میں ایمرجنسی لگانے سے متعلق اس وقت کی وفاقی حکومت اور اعلیٰ عسکری اور سول قیادت کو شریک جرم کرنے سے متعلق درخواست کو جزوی طور پر منظور کیا۔
21 نومبر 2014 کو خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس فیصل عرب نے اپنے فیصلے میں اُس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز، وفاقی وزیر قانون زاہد حامد اور سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو بھی مقدمے میں شامل کرنے کا حکم دیا۔
تین رکنی خصوصی عدالت میں شامل جسٹس یاور علی نے اس فیصلے کے خلاف اختلافی نوٹ لکھا جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ابھی تک ایسے شواہد نہیں ملے جن سے ظاہر ہوتا ہو کہ شوکت عزیز، عبدالحمید ڈوگر اور زاہد حامد کا ایمرجنسی لگانے کے فیصلے میں کوئی کردار رہا ہو۔
مشرف کے سہولت کاروں کے خلاف تحقیقات
ستمبر 2015 میں پاکستانی حکومت کی جانب سے یہ کہا گیا کہ وہ پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے میں اُن کے سہولت کاروں کے خلاف تفتیش کرنے کو تیار ہے۔
سابق فوجی صدر کے خلاف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے تین نومبر سنہ 2007 میں ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ میں معاونت کرنے پر اُس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز، وزیر قانون زاہد حامد اور پاکستان کے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے خلاف بھی کارروائی کا حکم دیا تھا۔
مشرف کی بیرون ملک روانگی
18 مارچ 2016 کو سابق فوجی صدر پرویز مشرف علاج کی غرض سے دبئی چلے گئے تھے۔ دبئی روانگی کے وقت انھوں نے کہا تھا کہ وہ کمر کی تکلیف میں ممبتلا ہیں اور اس کے علاج کے لیے جا رہے ہیں اور وہ جلد پاکستان واپس آکر اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کریں گے۔
مارچ 2016 میں خصوصی عدالت نے وفاقی حکومت سے تحریری وضاحت طلب کی تھی کہ عدالت سے پوچھے بغیر ملزم کو بیرون ملک کیوں جانے دیا گیا؟
عدالت نے سیکرٹری داخلہ کو حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس بارے میں تحریری جواب جمع کروائیں۔ جبکہ اس وقت کے حکومتی وکیل اکرم شیخ نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر ملزم کا نام ای سی ایل سے نکالا گیا۔
یاد رہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کا نام سنگین غداری کیس میں 5 اپریل 2013 کو ای سی ایل پر ڈالا گیا تھا۔
پرویز مشرف کا بیان سکائپ پر ریکارڈ کرنے کا حکم
رواں برس سات مارچ کو سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے میں بطور ملزم ان کا بیان ویڈیولنک کے ذریعے ریکارڈ کرنے کا حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے خصوصی عدالت میں زیر سماعت اس مقدمے کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے میں ہونے والی تاخیر اور ملزم کی وطن واپسی کے لیے حکومتی اقدامات سے متعلق اٹارنی جنرل سے رپورٹ بھی طلب کی ۔
وطن واپسی کے لیے پرویز مشرف کی شرط
رواں برس 11 جون کو پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے نادرا کے حکام کو حکم دیا تھا کہ وہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کو بحال کر دیں۔
جبکہ سابق فوجی صدر نے سپریم کورٹ کی جانب سے ان کے خلاف درج ہونے والے تمام مقدمات میں انھیں ضمانت دینے کی شرط پر وطن واپس آنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
پرویز مشرف کا حقِ دفاع مسلسل غیر حاضری پر ختم
رواں برس 12 جون کو خصوصی عدالت نے سابق فوجی صدر کا دفاع کا حق ختم کرتے ہوئے اُن کے وکیل سے کہا تھا کہ اب وہ ان کا دفاع نہیں کر سکتے۔
عدالت نے مشرف کے مسلسل غیر حاضر رہنے پر ان کا حق دفاع ختم کیا تھا۔ پرویز مشرف تقریباً گزشتہ تین برس سے دبئی میں رہ رہے ہیں۔
چیف جسٹس کا ٹرائل مشرف تک محدود رکھنے کا حکم
سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں سب سے اہم موڑ اس وقت آیا تھا جب پاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس مقدمے کے لیے قائم کی گئی خصوصی عدالت کو وفاقی حکومت کی شکایت کے عین مطابق ٹرائل صرف سابق آرمی چیف تک ہی محدود رکھنے کا حکم دیا تھا۔
استغاثہ کی پوری ٹیم فارغ
گذشتہ ماہ سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں وفاقی حکومت نے استغاثہ کی پوری ٹیم فارغ کر دی جبکہ خصوصی عدالت نے حکومت سے اس اقدام کی وجوہات مانگ لی تھیں۔
یاد رہے کہ سابق وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم اور اٹارنی جنرل انور منصور خان سنگین غداری کے مقدمے میں سابق فوجی حکمران کے وکیل بھی رہے ہیں۔