Site icon DUNYA PAKISTAN

مسئلہ کشمیر‘ بھارت اور ملتان کی مغویہ

Share

پانچ فروری آیا اور گزر گیا۔ کشمیریوں کی ابتلا کا موسم ختم نہ ہوا۔ اب‘ اس پانچ فروری پر یہ عاجز کیا لکھے؟ برادر عزیز اظہار الحق نے جو لکھ دیا ہے‘ بھلا اس کے بعد اس موضوع پر اور اس دن کی لا حاصلی پر کچھ اور لکھا جا سکتا ہے؟ کچھ لکھنے کو باقی رہ گیا ہے؟ ظلم و جبر کے طویل تہتر سال۔ یہ تووہ عرصہ ہے‘ جو کشمیریوں نے بھارت کے تسلط تلے بسر کیا۔ اس سے قبل مہاراجہ ہری سنگھ اور اس کے آبائو اجداد کے خون آشام دور تلے گزارے گئے‘ کامل ایک سو ایک سال۔ گلاب سنگھ‘ رنبیر سنگھ‘ پرتاپ سنگھ اور ہری سنگھ کے ظلم و جبر تلے گزاری ایک صدی۔ ابھی خدا جانے یہ ظلم کی سیاہ رات کب تک چلے گی۔ گزری پانچ فروری کو کرفیو‘ لاک ڈائون اور پولیس گردی کے نئے حربے کو پورے چھ ماہ ہو گئے۔ پانچ اگست 2019ء سے پانچ فروری 2020ء تک۔ اس دوران ہم نے زبانی جمع خرچ کے علاوہ عملی طور پر کچھ بھی نہیں کیا۔ پہلے دو تین ہفتے ہر جمعے کو ایک گھنٹے کا احتجاج‘ پھر اس سے بھی تنگ آ گئے تو پانچ فروری تک کا انتظار کیا کہ اس روز چھٹی منا کر کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کریں گے۔سو‘ ہم نے کر لیا۔ اب‘ جمعہ والا احتجاج بھی ختم ہو گیا ہے۔ کون ہر ہفتے یہ بھگتان بھگتے۔ بقول انجم سلیمی ؎
اٹھائے پھرتا رہا میں بہت محبت کو
پھر ایک دن یونہی سوچا یہ کیا مصیبت ہے
ہم نے بہتر برس قبل ایک ایف آئی آر درج کروائی۔ اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں۔ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلانے کی غرض سے۔ ان کی مرضی اور منشا کے مطابق‘ ان کے پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ الحاق کا حق دلانے کی غرض سے۔ وہ ایف آئی آر‘ اقوام عالم کی بے حسی اور ہماری نالائقی کے ملبے تلے دبی ہوئی ہے۔ ہم عملی طور پر اس سارے عرصے میں کشمیریوں کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکے۔ کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کے سپرد کر کے ہم بری الذمہ ہو گئے۔ مدعی سو جائے تو بھلا مدعا علیہ سے زیادہ خوشی اور کسے ہوگی؟ پولیس اور عدالت سے زیادہ سہولت اور کسے ملے گی؟ مدعی سو گیا۔ عدلیہ کے مزے ہو گئے اور مدعا علیہ شاد کام ہوا اور کشمیریوں کا کام تمام ہوا۔
کیا اچھا ہوتا‘ کہ ہم کشمیریوں کو کسی آسرے کا لارا لگانے کے بجائے پہلے دن صاف کہہ دیتے کہ بھائی! آپ جانو اور حق ِخودارادیت جانے۔ آزادی کے طلبگار ہو تو جو کرنا ہے‘ خود کرو۔ہم صرف زبانی جمع خرچ کے قابل ہیں۔ اس سے بڑھ کر اگر ہم سے توقع رکھتے ہو تو تمہاری مرضی‘ تاہم ہماری طرف سے صاف انکار ہے۔ اگر کشمیریوں کو روزِ اول ہم اپنی اوقات سے آگاہ کر دیتے تو شاید اب تک حالات مختلف ہوتے۔ دنیا میں اور بہت سی اقوام نے آزادی کی جنگ کسی ہمسائے کے آسرے پر نہیں‘ اپنے زورِ بازو سے جیتی ہے۔ ہم نے نہ خود کچھ کیا اور نہ ہی کشمیریوں کو خود سے کچھ کرنے دیا۔ ہر روز نیا دلاسہ دیا اور ہر روز اپنے موقف سے ایک قدم پیچھے ہٹے۔
بھارت کے پہلے والے حکمران تو خوامخواہ ہی ہم سے گھبراتے رہے۔ مودی نے اندازہ لگا لیا کہ ہم صرف اور صرف زبانی جمع خرچ والے لوگ ہیں اور ہر تھپڑ کھانے کے بعد ”اب کے مار‘‘ والی صورتحال سے بڑھ کر کچھ کرنے کے قابل نہیں۔ پہلے اس نے بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 اور اس کے ساتھ منسلک 35A کو ختم کیا۔ ہم زبانی کلامی اور محض ”مقامی‘‘ جمع تفریق سے آگے نہ جا سکے‘ پھر اس نے پانچ اگست کو کشمیر میں کرفیو نافذ کر کے اسی لاکھ کشمیریوں کو قید اور پورے کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کر دیا۔ ہم زبانی جمع خرچ سے آگے نہ جا سکے۔ دنیا کی تاریخ میں اس بدترین لاک ڈائون اور شہری علاقے میں مسلسل اتنے طویل کرفیو کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ بھارت کو دنیا کی رائے عامہ کا نہ کوئی خوف ہے اور نہ کوئی ڈر۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ دنیا تجارتی منڈی ہے اور بھارت ایک بہت بڑی منڈی بھی ہے اور معیشت بھی۔ کاروبار کی محبت اصولوں سے بڑھ کر ہے اور ایک دو ممالک کو چھوڑ کر باقی دنیا بھارت سے تعلقات اور معاملات تجارتی حوالوں سے دیکھتی ہے‘ نہ کہ انسانی ہمدردی اور اصولوں کی بنیاد پر۔ باقی چھوڑیں‘ ہمارے اکثر ”مسلمان برادر‘‘ ممالک اور ”مسلم امہ‘‘ کے چوہدری ہمارے بجائے بھارت کے ساتھ ہیں۔ اور اس کی واحد وجہ کاروباری مفادات ہیں۔ بائیس کروڑ کی وہ مارکیٹ جو اقتصادی طور پر خود کسمپرسی کا شکار ہے‘ بھلا ایک ارب سینتیس کروڑ کی نسبتاً مستحکم معیشت والی مارکیٹ کا مقابلہ کیسے کر سکتی ہے؟ کشمیر کے مسئلے پر دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک عملی طور پر اڑھائی ممالک چھوڑ کر کوئی ہمارے ساتھ نہیں اور ہم عملی طور پر خود کشمیریوں کے ساتھ نہیں۔
ملتان میں ایک عجیب و غریب کہانی سامنے آئی ہے۔ ایک خاتون گزشتہ ایک ڈیڑھ سال میں تقریباً ساٹھ بار اغوا ہوئی ہے۔ جی ہاں! ساٹھ بار‘ بلکہ اگر زیادہ درست کیا جائے تو اکسٹھ بار اغوا ہوئی ہے۔ اس کے اغوا کی اکسٹھ ایف آئی آر درج بھی ہوئی ہیں۔ یہ ساری ایف آرز صرف چھ تھانوں میں درج ہوئی ہیں‘ یعنی اوسطاً دس ایف آئی آر فی تھانہ۔ ایک ڈیڑھ دو سال کے اندر ایک ہی تھانے میں اوسطاً دس ایف آئی آر ہوئی ہیں اور اغوا کا طریقہ واردات اور مغویہ وہی ایک ہے۔ تقریباً تقریباً گواہان جو اس اغوا کے وقت موقعہ واردات پر موجود ہوتے تھے‘ وہی ایک سے ہیں۔ جس گاڑی میں مغویہ کو اٹھایا جاتا ہے‘ وہ ہر بار بغیر نمبر پلیٹ والی ان رجسٹرڈ ہوتی ہے۔ اور سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ مغویہ کی ہر بار‘ یعنی اکسٹھ بار اغوا کنندگان سے صلح ہوئی ہے۔ اغوا کنندگان بھی تقریباً ایک جیسے ہیں۔ کسی کی چار چھ دن بعد شادی ہے‘ کوئی مختصر سے عرصے کے لیے بیرون ملک سے آیا ہے اور اس نے ہفتے دو ہفتے بعد واپس بیرون ملک جانا ہے۔ کوئی کھاتے پیتے گھر کا چشم و چراغ ہے۔ ان سب کی نظر کرم اسی ایک ذکیہ نامی خاتون پر ہے اور یہ سب لوگ اسی کو اغوا کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ اس اغوا کا پرچہ بھی درج ہو جاتا ہے۔
پولیس اغوا کنندگان کو گرفتار کرنے کے لیے چھاپے بھی مارتی ہے اور انہیں پکڑ کر تھانے بھی لاتی ہے۔ پھر پولیس کی زیر سرپرستی صلح بھی ہو جاتی ہے۔ اڑتی چڑیا کے پر گن لینے والی پولیس پر مشتمل ملتان کے یہ چھ تھانے مغویہ سے کبھی یہ نہیں پوچھتے کہ آخر تم میں ایسی کیا خوبی ہے کہ تم اس علاقے کی سب سے ”ہاٹ فیورٹ‘‘ مغویہ ہو؟ تم گھر کیوں نہیں بیٹھتی کہ بغیر نمبر پلیٹ والی گاڑی پر سوار تمہارے اغوا کے در پے ان چھ تھانوں کی حدود میں رہنے والے کھاتے پیتے گھروں کے چشم و چراغ‘ بیرون ملک سے پاکستان آئے ہوئے پردیسی اور چند دن بعد شادی کے منتظر دولہے تمہیں اغوا نہ کر سکیں‘ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ وجہ؟ وجہ یہ ہے کہ ان چھ تھانوں کے کئی اہلکار اس سارے ڈرامے میں شامل ہیں۔ موقعہ واردات کے سارے گواہ اس گینگ کا حصہ ہیں۔ لڑکی از خود اس جعلی اغوا کا مرکزی کردار ہے۔ ایک آدھ تھانیدار بھی اس فلم کا اہم کردار ہے۔ بھلا پرچہ کیوں نہ ہو؟ ہر بار مجبور قسم کے اغوا کنندگان سے صلح کے نام پر لاکھوں روپے کا بھتہ کیونکر وصول نہ ہو؟ مغویہ اور اس کا گروہ موج میلہ کیسے نہ کر ے؟
قارئین! آپ سوچتے ہوں گے کہ مجھے اچانک کشمیر پر لکھتے لکھتے ملتان کی یہ پیشہ ور مغویہ کیوں یاد آ گئی ہے؟ یہ مغویہ اور اس کی اکسٹھ عدد ایف آئی آرز اس لیے یاد آئی ہیں کہ چھ تھانے اس کے ساتھ ہیں۔ جیسے کشمیر کے مسئلے پر اقوام متحدہ بھارت کے ساتھ ہے۔ جیسے سلامتی کونسل بھارت کے ساتھ ہے۔ جیسے ایمنسٹی انٹرنیشنل اس کے ساتھ ہے۔ جیسے یورپ اس کے ساتھ ہے۔ جیسے امریکہ اس کے ساتھ ہے اور تو اور جیسے او آئی سی اس کے ساتھ ہے۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے‘ ایسے ہی ہم کشمیریوں کے ساتھ ہیں۔ اس میں اور بھی بہت سے نام ہیں‘ لیکن احتیاطاً میں نے کئی نام خود ایڈیٹ کر لیے ہیں۔ احتیاط علاج سے بہتر ہے۔

Exit mobile version