یہ سنہ 2008 کی بات ہے جب پاکستان میں بنک صارفین کو اچانک پتا چلا کہ بنک کی اے ٹی ایم مشین سے کیش نکلوانے پر بنک کے سروس چارجز بہت بڑھ گئے ہیں۔ یہ معاملہ صرف ایک یا دو بنکس تک محدود نہیں تھا بلکہ ملک کے تمام بنکوں نے اپنے اے ٹی ایم چارجز میں اچانک اور ایک جتنا اضافہ کر دیا۔
کسی صارف نے مسابقتی کمیشن کے پاس شکایت درج کروائی کہ یہ بنک ’کارٹلائزیشن‘ یا غیر قانونی گروہ بندی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اس کمشین نے شکایت پر سماعت کی اور ان تمام بنکوں کو ’غیر قانونی گٹھ جوڑ‘ کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے 77 کروڑ روپے جرمانہ عائد کر دیا۔
کاروباری گٹھ جوڑ کرکے زیادہ منافع کمانے پر اس کے بعد بھی متعدد صنعتی اداروں کو جرمانے ہوئے۔
آج کل بھی پاکستان میں اسی گٹھ جوڑ یا کارٹلائزیشن کی بازگشت سنائی دے رہی ہے اور اس کی وجہ ہے ملک میں جاری مہنگائی، خاص طور پر آٹے اور چینی کی قیمت میں اچانک اضافہ۔
بعض سرکاری عہدیداروں نے گذشتہ چند ہفتوں میں آٹے اور چینی کی قیمت میں اضافے کی ذمہ داری انھی کارٹلز پر عائد کرنے کی کوشش کی ہے جنھیں خود وزیراعظم عمران خان اور ان کی کابینہ کے بعض ارکان مافیا قرار دیتے ہیں۔
دنیا بھر میں کاروباری گٹھ جوڑ یا اجارہ داری قائم کرنا خاصی پرانی روایت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے خلاف ریاستی ادارے بھی سرگرم رہتے ہیں۔ پاکستان میں بھی صورتحال زیادہ مختلف نہیں ہے۔
کارٹلائزیشن کیا ہے؟
جب کسی بھی شعبے یا صنعت میں کچھ مخصوص افراد یا کمپنیاں ضرورت سے زیادہ منافع یا اجارہ داری قائم کرنے کے لیے گٹھ جوڑ کرلیتی ہیں تو اسے کارٹلائزیشن کہتے ہیں۔
کارٹل بنانے کا مقصد زائد منافع حاصل کرنا اور قیمتوں کو ایک سطح سے نیچے آنے سے روکنا ہوتا ہے۔ اس کو کاروبار میں غیر مسابقتی رجحان تصور کیا جاتا ہے۔
مختلف ملکوں نے اس رجحان کے خلاف مختلف قسم کے قواعد و ضوابط اور قوانین بنا رکھے ہیں۔ گٹھ جوڑ کر کے یا کاروبار پر اجارہ داری قائم کرکے زائد منافع کمانا جرم ہے لیکن اس کو ثابت کرنا بہت مشکل ہے۔
پاکستان میں اس گٹھ جوڑ کے خلاف قانون کیا کہتا ہے؟
پاکستان میں کاروباری گٹھ جوڑ کے ذریعے جو بھی کاروبار کیا جاتا ہے اس پر نظر رکھنے کے لیے حکومت نے مسابقتی کمیشن کا ادارہ قائم کیا ہے۔
مسابقتی کمیشن صدارتی آرڈیننس کے ذریعے 13 سال پہلے وجود میں آیا تھا اور پھر 2010 میں پارلیمان سے اس کی منظوری لی گئی تھی۔
اس ادارے کا مقصد سازگار اور منصفانہ کاروباری ماحول کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرنا ہے۔
مسابقتی کمیشن کی ذمہ داریوں میں زائد منافع کے لیے کاروبار میں گٹھ جوڑ کرکے مصنوعی قلت پیدا کرنے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرنا شامل ہے۔
اس کے علاوہ مسابقتی کمیشن گمراہ کن اشتہاری طریقوں سے مصنوعات بیچنے میں ملوث افراد اور کمپنیوں کے خلاف کارروائی کرنے اور ان پر جرمانے عائد کرنے کا بھی مجاز ہے۔
اس کے علاوہ اداروں کے انضمام کی منظوری کے لیے مسابقتی کمیشن کی منظوری چاہیے ہوتی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ اس انضمام سے کسی ادارے کی کسی کاروبار پر اجارہ داری تو قائم نہیں ہو گی۔
مسابقتی کمیشن سے پہلے ملک میں مانیٹری کنٹرول اتھارٹی قائم تھی جو محدود اختیارات ہونے کی وجہ سے کاروباری ماحول کو منصفانہ اور سازگار بنانے میں ناکام ہو گئی تھی۔
مسابقتی کمیشن نے اب تک کس کس مافیا کے خلاف کارروائی کی ہے؟
مسابقتی کمیشن نے مختلف سیکٹرز پر پچھلے بارہ برسوں میں کاروبار میں گٹھ جوڑ، ذخیرہ اندوزی اجارہ داری کے غلط استعمال اور گمراہ کن اشتہاری اور مارکیٹنگ طریقوں سے مصنوعات بیچنے میں ملوث افراد اور کمپنیوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے 2399 آرڈر جاری کیے اور مختلف سیکٹرز پر 27 ارب روپے کے قریب جرمانے عائد کیے۔
ان میں ٹیلی کام سیکٹر پر نو ارب روپے، فرٹیلائزر سیکٹر پر 8 ارب 64 کروڑ روپے اور سیمنٹ سیکٹر پر6 ارب 40 کروڑ روپے کے جرمانے عائد کیے گئے۔
مسابقتی کمیشن نے اس کے علاوہ تیل و گیس، ہیلتھ کئیر، پورٹ اینڈ شیپنگ، پولٹری، آٹو سیکٹر وغیرہ پر بھی جرمانے عائد کیے لیکن ان جرمانوں کی وصولی اب تک نہ ہونے کے برابر ہے۔
’کارٹلز اور مافیاز بہت طاقتور ہیں‘
مسابقتی کمیشن کے حکام کے مطابق ملک میں کارٹلز اور مافیاز بہت طاقتور ہیں اور انھوں نے ملک کی مختلف عدالتوں میں کمیشن کے فیصلوں کو چیلنج کر رکھا ہے۔
ان زیرا لتوا کیسز کی مجموعی تعداد 127 ہے جس میں شوگر ملز کے خلاف کیس بھی شامل ہے جو سنہ 2009 سے سندھ ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔ صرف یہی نہیں لاہور ہائی کورٹ میں مسابقتی کمیشن کی قانونی حیثیت کو بھی چیلنج کیا ہوا ہے۔
حکام کا کہنا اٹارنی جنرل اور وزارت قانون کی کوششوں کے باعث اس کیس کی شنوائی 12 مئی 2017 کو روزانہ کی بنیاد پر شروع ہوئی اور پھر فیصلہ 22 جون 2017 کو محفوظ کر لیا گیا۔ لیکن جسٹس منصور علی شاہ کے سپریم کورٹ ٹرانسفر ہونے کی وجہ سے یہ فیصلہ سنایا نہیں جا سکا ہے، اب اس کیس کو جسٹس عائشہ ملک سن رہی ہیں۔
مسابقتی کمیشن نے گذشتہ سال دسمبر میں ہی آٹے کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹس لیتے ہوئے آل پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن کے خلاف کاروائی کی تھی اور ان کے ریکارڈ سے کاروباری گٹھ جوڑ کے شواہد ملنے پر ان پر ساڑھے سات کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کیا تھا۔
وہ جرمانہ کمپٹیشن ایپیلیٹ ٹرائبیونل میں چلینج کر دیا گیا۔ لیکن یہ ٹرائبیونل جس کا کام سی سی پی کی جانب سے جاری کردہ آرڈرز کے خلاف اپیلیں سننا ہے، پچھلے ایک سال سے زائد عرصہ سے غیر فعال ہے۔
اس کی وجہ حکومت کی جانب سے ٹرائبیونل کے ایک ممبر کی خالی اسامی کو پر نہ کرنا ہے، جو ایک ممبر جسٹس ریٹائرڈ مفتاح الدین کی کی ٹرم پوری ہونے پر جنوری 2019 میں خالی ہوئی تھی۔
ٹرائبیونل کے باقی دو ممبران اویس پیرزادہ (ممبر ٹیکنیکل) اور جسٹس ریٹائرڈ فصیح الملک (چئرپرسن) اپنے عہدوں پر کام کر رہے ہیں لیکن کورم کے پورا نہ ہونے کے باعث فیصلے نہیں کر پا رہے، جو سی سی پی کے آرڈرز کے نفاذ میں تاخیر کا باعث بن رہے ہیں۔
’مہنگائی کے ذمہ داری صرف کارٹلز نہیں ہیں‘
ماہر اقتصادیات قیصر بنگالی کے مطابق مسابقتی کمیشن کی کارکردگی نہیں بلکہ شرح سود کا زیادہ ہونا، روپے کی قدر میں گراوٹ اور سب سے بڑھ کر حکومت کی بد انتظامی مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
انھوں نے کہا پہلے گندم اور چینی برآمد کر کے کچھ من پسند افراد نے منافع بنایا اب کچھ یہی اشیا درآمد کرکے منافع بنائیں گے۔
انھوں نے کہا جنوری کے اعداد و شمار کے مطابق کھانی پینے کی اشیا کی قیمتوں میں بیس فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ جو حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہوا ہے اور اس سے عوام کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔