حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ق) کے درمیان مطالبات تسلیم نہ ہونے پر پیدا ہونے والی سیاسی تلخی میں مذاکرات کے بعد معاملات طے پا گئے۔
پیر کو گورنر پنجاب چوہدری سرور، وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود پر مشتمل حکومتی مذاکراتی ٹیم نے لاہور میں پاکستان مسلم لیگ (ق) کے رہنما اور سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی کے گھر پر ان سے ملاقات کی جس کے بعد چوہدری پرویز الٰہی کا میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ملاقات میں مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا ’ہر حکومت کو مختلف چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو بھی مشکلات درپیش ہوں گی ہم اس کا مل کر سامنا کریں گے اور مشاورت کے ساتھ حل تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔‘
چوہدری پرویز الٰہی نے یہ بھی کہا کہ ’مسلم لیگ (ق)، وزیر اعظم عمران خان کے دور میں تبدیلی چاہتی ہے جس کے ثمرات نچلی سطح تک جانے چاہیے۔ ہمیں وزیر اعظم عمران خان کی کوششوں اور مثبت پالیسیوں پر کوئی شک نہیں ہے صرف جو طریقہ کار ہے جسے مشاورت سے مل کر حل کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارا اتحاد آئندہ انتخابات تک اسی طرح برقرار رہے۔‘
مطالبات واختیارات کی سیاسی رساکشی کی اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے سنئیر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ دونوں جماعتوں کے درمیان بنیادی مسئلہ اختیارات اور پاور شیئرنگ کا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’دونوں اتحادیوں میں 22 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز اور اختیارات کے معاملات حل کر کے صلح ہوئی ہے۔‘
سہیل وڑائچ نے تجزیہ دیتے ہوئے کہا کہ ’مسلم لیگ ق نے نہ تو وفاق پر نظر جمائی تھی نہ ہی وزارت اعلیٰ پنجاب پر، درحقیقت ان کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے تعلقات بہت اچھے ہیں اور وہ وفاق کی جانب سے تعینات کردہ بیوروکریسی کے خلاف اکٹھے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا ’آگے چل کر مسئلہ وہاں پیدا ہو گا جب بیوروکریسی کو دیے گئے زیادہ انتظامی اختیارات پر بات آئے گی جس پر شکایت مسلم لیگ ق اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو بھی ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ اتحاد میں شامل ہوتے وقت مسلم لیگ ق اور حکمراں جماعت کا تحریری معاہدہ ہوا تھا کہ جہاں جہاں سے مسلم لیگ ق کے رکن قومی و صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں وہاں انھیں ترقیاتی فنڈز جاری کیے جائیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ دونوں جماعتوں کے مذاکرات کامیاب ہونے کے اثرات مستقبل میں سامنے آئیں گے جب پی ٹی آئی کے مقابلے میں مسلم لیگ ق کے ارکان پارلیمان کو زیادہ ترقیاتی فنڈز ملیں گے۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا مسلم لیگ ق اصولوں کی سیاست کر رہی ہے یا حکومت کو اس مشکل وقت میں دباؤ میں لا رہی ہے، سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ اس کو دیکھنے کا سب کا اپنا نظریہ ہے، اگر ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو مسلم لیگ ق نے اصولوں کی سیاست کی ہے کیونکہ وہ منتخب ہو کر آئے تھے اور اپنے حلقوں اور ووٹرز کے لیے ترقیاتی کام کروانا چاہتے ہیں، اگر دوسرے نظریے سے دیکھا جائے تو بالکل وفاقی حکومت اس وقت پنجاب میں بہت کم مارجن میں کھڑی ہے، اگر مسلم لیگ ن اتحاد ختم کر دے تو ان کی صوبے میں حکومت گر جاتی ہے، تو ایسے وقت میں جب وفاقی حکومت مشکل میں ہیں یہ دباؤ بڑھا کر اپنے مطالبات منوا لیتے ہیں۔
انھوں نے بتایا ’جس وقت بھی پی ٹی آئی کے اسٹیبلشمنٹ یا مقتدر حلقوں سے تعلقات خراب ہوں گے تو یہ سب اتحادی ایک ایک کر کے اس حکومت کو چھوڑ جائیں گے، ابھی انھیں علم ہے کہ ابھی یہ حکومت نہیں جا رہی۔‘
سنئیر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ صرف مطالبات اور اختیارات کے حصول کی لڑائی تھی، کسی اقتدار پر قبضے کی خواہش نہیں تھی۔‘
انھوں نے کہا کہ دونوں جماعتوں میں مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد جو اطلاعات سامنے آ رہی ہیں اس میں مسلم لیگ ق نے ایک بہت اچھی ڈیل کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں اب پنجاب میں تین متوازی حکومتیں چلے گی، ایک عثمان بزدار کی، ایک بیورو کریسی کی اور ایک مسلم لیگ ق کے ارکان کی جو اب ضلعی اور تحصیل کی سطح پر فیصلوں میں خود مختار ہوں گے۔‘
انھوں نے تبصرہ کیا ’یہ صرف وزیراعظم عمران خان کے عثمان بزدار کو وزیراعلی لگانے کے غلط فیصلے کا خمیازہ ہے۔ عثمان بزدار پنجاب میں ایک کمزور حکومت کے سربراہ ہیں اور وہ اتحادیوں کے مرہون منت ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس سے پنجاب کی سیاست میں تبدیلی لانے اور جو ہدف تھا کہ مسلم لیگ ن کو صوبے میں سیاسی طور پر پچھاڑا جائے وہ مشکل ہو گا کیونکہ اس میں بیوروکریسی، پی ٹی آئی ارکان اور مسلم لیگ کے درمیان ابہام بنا رہے گا اور عوام کو ریلیف نہیں مل سکے گا۔
پاکستان میں اصولی سیاست کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ „بدقسمتی سے پاکستان میں سیاست اب اصولی نہیں بلکہ وصولی کی سیاست ہوتی ہے۔ خاص طور پر جب حکومت میں اتحادی شامل ہوتے ہیں تو وہ صرف وصول کرتے ہیں، اصول وغیرہ کچھ نہیں ہوتے۔‘
انھوں نے کہا ’اگر آج مسلم لیگ ق حکومت کے ساتھ ہے تو بھی اسی اصول پر ساتھ ہے، کل جب اتحاد سے علیحدہ ہو گی تو انھیں اصولوں کی بنیاد پر ہو گی۔‘
تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کے درمیان اختلافات کا پس منظر
تحریک انصاف کی پنجاب میں اہم اتحادی مسلم لیگ (ق) کے ساتھ تعلقات اس وقت خراب ہوئے تھے جب عمران خان نے پنجاب اور مرکز میں اتحادی جماعت کے انتظامی و ترقیاتی مسائل کے حل کے لیے جہانگیر ترین کی قیادت میں کمیٹی کو تبدیل کردیا تھا۔
مسلم لیگ (ق)، پنجاب کے چند اضلاع جہاں ان کا ووٹ بینک سمجھا جاتا ہے، میں انتظامی حصہ چاہتی تھی۔
نئی کمیٹی کے قیام کے بعد تحریک انصاف سے مذاکرات کرنے والے چوہدری پرویز الٰہی نے معاہدے پر عمل درآمد نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور حکومت کو اس پر عمل درآمد کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دی تھی۔
مسلم لیگ (ق) کے رہنما نے خبردار کیا تھا کہ اگر ان سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے گئے تو وہ حکومت سے اتحاد کے فیصلے پر نظر ثانی کریں گے۔