فہیم اختر کے افسانوں میں ناسٹلجیا
ہر عہد کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے اوراپنی ترجیحات بھی ہوتی ہیں – ویسے تو ہر نسل کا ادیب اپنی ذات اور اپنے عہد کی عکاسی کرتا ہے- اپنے مخصوص انداز میں اس کا تخلیقی اظہار بھی کرتا ہے- آج کی نسلِ نو دل جمعی کے ساتھ اردو زبان وادب کی خدمت میں مصروف ہے- اس نے معاصر دنیا کو اپنی ادبی تخلیقات میں پیش کیا ہے- جس میں سیاسی، سماجی، معاشی، اخلاقی، تہذیبی اور اقتصادی معاملات کو ادبی شکل میں پیش کیا ہے-
بے شک ہر ادیب جس سماج میں زندگی گزارتا ہے- اس سماج کی روایات، اقدار اور تہذیب کو وہ شعوری اور لاشعوری طور پر قبول کرتا ہے- اور اپنی تخلیقات فنکارانہ طور پر پیش کی ہے- دوسری طرف زندگی کے بدلتے ہوئے حالات وواقعات اور حادثات کی ایسی منظر کشی کرتا ہے- جو اس کے داخلی جذبوں کی ترجمان بن جاتی ہیں – اس سلسلے میں بیرون ممالک میں مقیم اردو ادیبوں کے ادبی کام کواردو زبان وادب کے فروغ میں ادبی اور تحقیقی کاوشیں منظر عام پر آتی ہیں – وطن سے دور تخلیقی سرگرمیوں سے وابستہ افراد کی انفرادیت ادبی طور پر سامنے آتی ہے-
ہمارے عہد کی نسلِ نو اردو ادیبوں میں لندن میں مقیم ادیب فہیم اختر کا شمار ہوتا ہے- میں نے ان کے افسانوں کو تحقیق کا موضوع بنایا- جو (فہیم اختر کے افسانوں میں ناسٹلجیا) کے عنوان کے تحت ہے- اس لئے کہ ان کے افسانوں میں ناسٹلجیا کی جھلک بخوبی محسوس ہوتی ہے- دیارِ غیر میں جب مٹی کی خوشبو، تہذیب وثقافت اور اقدار، اپنوں سے دوری کا رنج، بچپن اور وطن کی یادیں، وطن میں نئے مسائل، نئی تکالیف، نئی آزمائشیں، ادبی پیکر میں ڈھل جاتی ہیں تو اس کا مطلب ناسٹلجیا ہے-
میں نے اپنے مقالے کے لئے ان افسانوں کو پرکھا جن میں ناسٹلجیا بنیادی سطح پر ابھر کر آتی ہے- مثلا (آخری سفر، دیوداسی، رکشہ والا، رشتوں کا درد، کتے کی موت، وغیرہ اہمیت کی حامل ہیں – اس ناسٹلجیا کو ظاہر کرنے کے لئے میں دیکھوں گی کہ ان افسانوں کی تخلیق کس طرح کی تہذیبی اور ثقافتی نظام کے زیر اثر ہو رہی ہے- اور اس کی قوت محرکہ کس نوعیت کی ہے-
فہیم اختر اپنے وطن سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں اور اپنے ملک کی زندگی اور حال کی کربناکی پیش کرتے ہیں – ہندوستان میں پسماندہ طبقے کی سماجی نابرابری، معاشی مجبوریاں، تہذیبی کشمکش، رشتوں کی پامالی، کسانوں اور مزدوروں کے مسائل کی عکاسی ان کے افسانوں سے ہوتی ہے- مثال کے طور پر فہیم اختر اپنے افسانے ”آخری سفر” میں گاؤں کے غریبوں کی مجبوری اور بے بسی کا اظہار کرتے ہیں – جو پیسے کی کمی اور غربت کی وجہ سے بڑے ہسپتال میں علاج حاصل نہیں کر سکتے ہیں – ان کے افسانہ ”آخری سفر” کیخاتمے کو سنیں:
(ڈاکٹر پارتھوبوس اخبار پڑھنے میں مصروف تھے کہ ان کی نظر اس جلی حرفوں سے لکھی ہوئی خبر پر پڑی کہ حاجی پور اسٹیشن پر ایک غریب مفلوک الحال کسان کے لڑکے کی لاش پڑی ملی، جو اپنی علاج کی خاطر کلکتہ آنے والا تھا، مگر ٹرین پر سوار نہ ہو سکنے کی وجہ سے اس کی موت پلیٹ فارم پر ہی واقع ہو گئی-)
یہ غربت کبھی کبھار انسان کو کچھ کرنے پر مجبور کرتی ہے- ہم ان کے افسانہ (دیوداسی) میں یہ بات اچھی طرح دیکھ سکتے ہیں جو لندن کے پس منظر پر لکھا گیا تھا- اس کے علاوہ آج کا انسان جس ذہنی کرب واذیت میں مبتلا ہے اس کا اظہار فہیم اختر کے یہاں بھی پایا جاتا ہے- وہ زندگی کے حقائق کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں – افسانہ کا مرکزی کردار ”کرم” جاننا چاہتا تھا دوسرا مرکزی کردار ”کاما” کیوں دیوداسی بن گئی- اس کا جذبہ جستجو تشنہ تھا- بالآخر وہ ساری حقیقت سے روشناس ہو چکا ہے – ایک اقتباس ”کاما” کی زبانی ہے:
(میں بھی ایک عام بچی کی طرح جنمی تھی- مگر حالات اور غریبی نے مجھے دیوداسی بنا دیا- میری ماں بچپن ہی میں پرلوک سدھار گئی تھی- بہت دنوں تک پتا نے مزدوری کر کے گھر کا خرچ چلایا- مگر بھائی بہنوں کا خرچا اور باپ کی خراب صحت نے ہماری غریبی کو اوربھی سنگین کردیا- کچھ حد تک پڑھائی مکمل کرنے کے بعد مجھے لندن آنے کا موقع ملا- یہاں آنے کے بعد بہت دنوں تک کام کی تلاش میں بھٹکتی رہی- جب میں اور زیادہ برداشت نہ کر سکی تو میں نے فیصلہ کیا کہ اب دیوداسی بن کر جیوں گی-)
فہیم اختر کے یہاں مشرق اور مغرب کی تہذیب کے اثرات کا شعور ہے- ایک خاص تہذیبی اقدار کا نظام اپنے ساتھ لے کر چلتا ہے- اگر ہم بغور دیکھیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ ان کے افسانوں کا بنیادی خمیر ہندوستانی ثقافت سے والہانہ لگاؤ ہے- بعض افسانوں میں یوروپی ممالک میں بھی زیادہ تر انہیں فکری رویوں کا عکس ملتا ہے- مغرب کی مخصوص تمدنی، تہذیبی اور معاشی زندگی کے مرکزی ذہن کی عکاسی کی گئی ہے- اور اس کے مقابل ہندوستان سے ان کی ارضی وابستگی کو خصوصی طور پر نمایاں کیا گیا ہے-
مثال کے طور پر ان کا افسانہ ”کتے کی موت” جس میں انسان اور جانور کا موازنہ مغربی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے- جہاں ماں کی موت سے زیادہ کتے کی موت کا اثر فرد پر زیادہ گہرا اثر ہوتا ہے – دو اقتباسات پیش کرتی ہوں جن سے مغربی ذہنیت اور تہذیبی تصادم ظاہر ہوتی ہیں:
پہلا اقتباس:
(آفس کے مین دروازے کے پاس کچھ لوگوں کی بھیڑ جمع ہے- جیسے ہی میں اس بھیڑ میں تذبذب شامل ہونا چاہا، ڈیوڈ کو وہاں تصویرِ غم بنا کھڑا پایا- گویا اس کے کسی عزیز کی اچانک رحلت ہو، میں نے گھبرا کر دور سے آواز لگاتے ہوئے احوال معلوم کیا-
-”ڈیوڈ! آریو آل رائٹ؟”-
لیکن وہ کچھ نہیں کہہ سکا جیسے اس کی قوتِ گویائی چلی گئی ہو- وہاں کھڑے ایک شناسا تماش بین نے انکشاف کیا کہ ڈیوڈ نہایت غمگین ہے کہ اس کا کتّا دنیا سے چل بسا ہے- میں نے تیزی سے نزدیک آ کر ڈیوڈ سے مخاطب ہونے کی کوشش، لیکن وہ اپنے اطراف کے ذی روح ماحول سے بے نیاز ہو کر ایک مردہ جانور کے سانحہء مرگ پر بے بس کھڑا خاموش آنسو بہا رہا تھا-)
دوسرا اقتباس:
(- ”ڈیوڈ، آئی ایم سوری، مجھے کل ہی تمہاری ماں کی موت کی خبر معلوم ہوئی-”
- ”اوہ ہاں، مائی مدر…”
- ”تم، تم ٹھیک تو ہو؟”
- ”اوہ، یس وہ بوڑھی تھی یار، donot worry ”
ڈیوڈ یہ کہہ کر ہنستے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گیا-)
اور ان کا افسانہ ”رشتوں کا د رد” جس میں مرکزی کردار ”منوج” ایک ماں اور اس کی بیٹی دونوں سے ایک پیار کا رشتہ قائم کرتا ہے- کیونکہ مغرب میں اکثر خاندان ایک ہی گھر میں نہیں رہتے- اس لیئے بیٹی کو نہ پہچانتا ہوا، وہ بیٹی سے شادی کرنا چاہتا تھا- وہاں سب سے بڑا نقصان بلاشبہ رشتہ ٹوٹ جانا ہے- وہاں بھی جیسا کہ ہم جانتے ہیں کاروباری سوچ اور کاروباری اقدار غالب ہونا ہے-
جس خطے کو اپنا وطن بنایا وہاں کی تہذیب وتمدن اور سماج ومعاشرہ ان کے اپنے معاشرے سے یکسر مختلف ہے- انہوں نے برطانیہ کو اپنا وطن ثانی بنا لیا ہے لیکن ان کے یہاں ان کیسماج اردو تہذیب وثقافت کا معاشرے پر زور اچھا خاصہ ہے- بقول فہیم اختر:
(میں مشرقی اقدارِ تہذیب کا معمولی آدمی مغرب کے انسانی حقوق کے علمبرداروں کے شاندار تہذیبی اور اخلاقی اقدار کو سمجھنے اور اپنانے میں شاید ہمیشہ قاصر رہوں -”
ان کا داخلی احساسات اور خارجی عوامل جب ایک دوسرے سے متصادم ہوتے ہیں تو اس کا لا شعور اس کے شعور پر غالب ہوتا نظر آتا ہے جس میں وطن کی محبت، مٹی کی خوشبو اور تہذیب وثقافت اور اس کی یادیں اس کے شعور کاحصہ بن جاتی ہیں – فکر وشعور اور جذبہ ایک ساتھ ہم آہنگ کرتے ہیں اور ایک تخلیق میں ابھر کر آتے ہیں –
بالآخر ہم کہہ سکتے ہیں کہ فہیم اختر کے افسانوں میں ناسٹلجیا کا شعور ملتا ہے- وہ اپنے علاقے سے نکل کر دوسرے علاقے میں گئے تو وہ اپنی مٹی کی خوشبو اور اپنی تہذیبی وراثت بھی اپنے ساتھ لے کر گئے – وہ اپنے اقدار اور ثقافت سے دور ایک اکیلا شخص ہوتا ہیتو ان کو تہذیبی کشمکش، تنہائی، افسردگی ذہنی الجھن کا شکار بنا دیتی ہے- وہ وطن کی یادوں کو اپنے حافظے میں محفوظ کر لیتا ہے- اپنی یادوں کو اپنا رہبر بنا لیتا ہے- وہ ان علاقے میں رہ رہے ہیں جہاں ان کا اپنا بچپن گزارا تھا اور وہ جوان ہوئے تھے، ماضی کی انہیں یادوں کو وہ عصری حقائق سے مربوط کر کے زبان وادب میں ایک بیش قیمت اضافہ کرتے نظر آتے ہیں – اپنے سماجی اور تہذیبی رشتوں کا د رد بھی رکھتا ہے- وہ سماج، معاشرہ اور تہذیب وثقافت سے دور ہیں مگر اس کا ر نج وغم مشترکہ ہوتا ہے- وہ لندن کی زندگی گزارتیہیں لیکن اپنوں کے درمیان سانس لیتے ہیں – وطن سے دور رہنا اور بیرونی دنیا کے مخصوص ثقافتی ماحول میں وطن کا سایہ ہی ان کا رفیقِ کار ہے-