منتخب تحریریں

کیا کیا نہ دیکھا

Share

محقق، صحافی، ادیب اور انٹرویو نگار منیر احمد منیرؔ برصغیر کی تاریخ کا پہلا اور اس وقت تک شاید واحد انٹرویو نگار ہے جس کے طویل ترین انٹرویوز کا ریکارڈ کوئی نہیں توڑ سکا، آخرکار اُس نے حاجی حبیب الرحمٰن (سابق آئی جی پنجاب) کے 992صفحات پر مشتمل انٹرویو ’’کیا کیا نہ دیکھا‘‘ کے عنوان سے خود ہی اپنا ریکارڈ توڑ دیا، امید ہے نہیں مستقبل قریب یا بعید میں یہ ریکارڈ بھی توڑا جا سکے، اگر ان 992صفحات میں حوالہ جات کے صفحات بھی شامل کر لئے جائیں تو یہ انٹرویو 1047صفحات تک پہنچ جاتا ہے، فی الحال جو رائے خاکسار نے پیش کی ہے یہ اس کی مزید تصدیق دکھائی دیتی ہے۔

’’کیا کیا نہ دیکھا‘‘ کے کتابی عنوان سے سابق آئی جی پنجاب حاجی حبیب الرحمٰن کا یہ انٹرویو محض مطالعہ کے قابل ہی نہیں بلکہ ’’چتھ‘‘ کر مطالعہ کیا جانا چاہئے، جس کا ہر صفحہ آپ کے ذہنی اور جسمانی مساموں تک میں سنسنی خیزی کے تھرتھری آمیز طوفان بلا خیز برپا کر سکتا ہے۔

محض مثال کی خاطر اس کی ایک دو مثالیں پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔

’’اس طرح ایک افسر نے کہا، میر مرتضیٰ بھٹو کا جو ہوا ہے۔ میں نے کہا تم نے کیوں نہیں اس کے گھر جا کے کہا، اس کیس کے متعلق میں بہت کچھ جانتا ہوں لیکن شاید جب فیصلہ ہو جائے۔ اب ہے (Sub judiceزیر سماعت) میں اس کے متعلق کوئی کمنٹ نہیں کر سکتا لیکن مجھے بہت کچھ پتہ ہے۔ اتنا میں کہہ سکتا ہوں کہ میں ’’جنگ‘‘ اخبار میں بیٹھا ہوا تھا جب یہ خبر آئی۔ میں نے کہا قلم کاغذ اٹھائو، ملزموں کے نام ابھی لکھا دیتا ہوں۔

س:اچھا جی

ج:ابھی لکھا دیتا ہوں کیونکہ مجھے پتہ چل گیا تھا کہ میر مرتضیٰ بھٹو کے جو گولیاں لگی ہیں وہ چھ فٹ کے فاصلے سے لگی ہیں۔ چھ فٹ کا فاصلہ یہی ہے جہاں آپ بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ کرسی چھ فٹ کے فاصلے پر ہے۔ اس فاصلے سے کون فائر کر سکتا ہے۔ وہ غیر مانوس آدمی کو، یا وردی والے آدمی کو اتنا نزدیک نہیں آنے دے گا، اس کے ساتھ تو اس کے چھ سات اس کے ساتھی تھے ہر ایک کے پاس ہتھیار تھا، وہ غیر مانوس آدمی کو، یا وردی والے آدمی کو اتنا نزدیک نہیں آنے دے گا، اس فاصلے سے کون فائر کر سکتا ہے کون گولی چلا سکتا ہے اس کا اپنا ساتھی، اس نے بلٹ پروف جو پہنی ہے جیکٹ، گولیاں اس کے نیچے لگی ہیں، ایک گولی گردن پر لگی ہے، اس کا مطلب ہے اس کو پتا تھا کہ گولی کہاں لگانی ہے۔ جس نے فائرنگ کی ہے اس کو بھی اُدھر ہی مار دیا گیا۔ ٹھیک ہے یہ پوسٹ مارٹم رپورٹ۔ یہ چونکہ پبلک ہے اس لئے آپ اندازہ لگائیں کہ کون

س:حق نواز کو بھی تو مار دیا گیا

ج:ایک سب انسپکٹر تھا

س:ہاں

ج:بالکل

س:رات دو بجے وہ کیا چکر تھا

ج:میں نے کہا نا کہ میں کمنٹ نہیں کر سکتا اور اتنا کمنٹ کرتا ہوں کہ جو لیاقت علی خان کا قاتل تھا وہ بھی ادھر یہ مارا گیا، جس نے کینیڈی کو قتل کیا وہ قاتل اگر زندہ رہتا، ایف بی آئی کے آدمی کو، کیا نام تھا، اُس کا، یاد آ جائے گا، اس کو ٹرائل کے بعد باہر لا رہے ہیں۔ دونوں طرف ایف بی آئی کے آدمی ہیں۔ دونوں محافظوں کے درمیان گولی مار دی گئی۔ یہی قصہ یہاں رپیٹ ہوا ہے۔ یہ تو پلان تھی۔

س:زرداری ہے ویسے انوالو اس میں، آپ کی معلومات کے مطابق

ج:جی

س:زرداری انوالو ہے؟

ج:میں اس پر فی الحال کیونکہ (Subjudice زیر سماعت) ہے بتا دوں گا آپ کو…ابھی چونکہ Subjudiceہے کیس لیکن میں نے یہ بتا دیا تھا کہ ساری عمر۔

س:ٹربیونل نے کہہ دیا کہ زرداری نہیں انوالو۔

ج:ہو سکتا ہے، اب عدالت جو فیصلہ کرے گی وہ تو ایوی ڈینس (شہادت) پر کرے گی۔

س:یا پھر جو ہدایت ہو گی اوپر سے۔ نواز شریف دور میں یہ بھی ایک تاثر تھا عوام میں جو اگرچہ ہے افسوسناک۔

ج:میں اس پر بھی چپ ہوں لیکن جو بات میں کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا، تم نے اس کو 70کلفٹن میں اندر کیوں نہیں جانے دیا کہ جب وہ اپنے گھر چلا جائے تو جا کے گھر کو آپ محاصرے میں لے لیں اور صبح سویرے اس کو گرفتار کر لیں۔ انہوں نےکہا کہ پرائم منسٹر کے یہ آرڈر تھے۔ Sanctity of 70 Clifton should not be violated

’’سیونٹی کلفٹن کا تقدس پامال نہیں ہونا چاہئے‘‘

س:یہ شعیب سڈل نے کہا؟

ج:کیونکہ وہ بھی بے چارہ اس میں ہے۔ آپ نے خود نام لے لیا (Sanctity)تقدس جو ہے۔ میں نے کہا تم تجربہ کار افسر ہو۔ بہت اچھے افسر ہو۔ میرا تو فیورٹ افسر ہے۔ میرا اے ایس پی انڈر ٹریننگ رہا ہے گوجرانوالہ میں۔ واحد افسر ہے جس نے پی ایچ ڈی کی ہے اور بطور ڈی آئی جی کراچی اچھی شہرت رہی۔ تم اسے گھر جانے دیتے۔ اس نے کہا کہ جی ہمیں آرڈر تھے کہ 70کلفٹن کے اندر نہیں، باہر جو کرنا ہے کر لو، بہرحال

س:آپ کی گفتگو سے تو اس وقت کی حکومت کی اس قتل میں انوالومینٹ نظر آ رہی ہے۔

ج:اس کو اگر کسی نے سوال پوچھا ہو گا تو وہ جواب دے گا۔ پتا نہیں کیا دے گا، اس لئے اس حد تک!‘‘

دوسری مثال:آپ اندازہ لگائیں منیر صاحب کہ شاہ خالد ریکولیٹ کرتے ہیں، ابوظہبی والے (شیخ زائد النہیان) کرتے ہیں، ساری دنیا کرتی ہے کیونکہ دنیا بھر میں بہت سارے ایسے ممالک ہیں جہاں عمر قید کی ہے۔ کئی ایسے کیس ہیں جن میں بعد میں پتہ چلتا ہے کہ یہ آدمی بے گناہ تھا۔ لیکن پھانسی کے بعد تو اس کا ازالہ نہیں کیا جا سکتا۔ بھٹو کو سزا ہوئی ہے۔ (جاری )