سیاست میں وضعداری کی کچھ اور مثالیں
جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ نے ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ECL) سے مریم نواز کے اخراج اور ان کے پاسپورٹ کی واپسی کی درخواستوں کی سماعت کے لیے 18 فروری کی تاریخ مقرر کی ہے۔ یہ درخواستیں جسٹس طارق عباسی کی سربراہی میں دور کنی بنچ میں زیر سماعت تھیں۔ جناب چیف جسٹس نے ہفتہ (8 فروری کو) اس بنچ کو تحلیل کرکے، جسٹس نجفی کی سربراہی میں نیا بنچ تشکیل دیا تھا۔ سوموار کی شام ایک ٹاک شو میں وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کا کہنا تھا، کہ کچھ عرصہ پہلے کا بینہ کے اجلاس میں یہ (اٹل) فیصلہ ہو چکا کہ مریم کو باہر جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی… والد بیمار ہیں، تو ایک بیٹی اسما علی (اسحاق ڈار کی بہو) وہاں موجود ہے۔ دو ہٹے کٹے بیٹے موجود ہیں (”ہٹے کٹے‘‘ کے الفاظ کس ذہنی کیفیت کی غمازی کرتے ہیں) بہوویں موجود ہیں، بھائی صاحب موجود ہیں۔ نواز شریف سزا یافتہ تھے، عدالت نے علالت کی بنا پر ضمانت لے لی، پھر علاج کے لیے باہر بھیجنے کا فیصلہ بھی دے دیا، کابینہ نے جس کی توثیق کر دی۔ لیکن مریم کے معاملے پر پوری کابینہ کا موڈ ہے کہ اسے ECL سے نہیں نکالنا۔ لاہور ہائی کورٹ نے ECL سے نام نکالنے کا کہا تو ہم فوراً سپریم کورٹ چلے جائیں گے… یہ بجا کہ مریم ضمانت پر ہیں، لیکن عدالت تو دس قتل کئے ہوں پھر بھی ضمانت دے دیتی ہے، یہ اس کی ڈسکریشن ہے، لیکن نام ECL سے نکالنا، یا نہ نکالنا، کیبنٹ کی صوابدید ہے… (پھر ہنستے ہوئے کہا) کوئی ایک بندہ تو یہاں رہنے دیں، ہم نے ان سے حساب کتاب لینا ہے۔ احتساب کے لیے وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی شہزاد اکبر بھی سوموار کو اسحاق ڈار کے ہجویری ہائوس میں قائم ”پناہ گاہ‘‘ کے دورے پر، اخبار نویسوں سے گفتگو میں اسی عزم کا اظہار کر رہے تھے (اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہجویری ہائوس کی نیلامی کے خلاف حکم امتناعی جاری کیا تھا۔ گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے اسے ”پناہ گاہ‘‘ بنانے کے خلاف بھی حکم امتناعی جاری کر دیا)۔
مریم کے بیرون ملک جانے کے حوالے سے حکومت کا یہ موقف نیا نہیں۔ اس سے پہلے بھی وفاقی وزرا یہی بات کہتے رہے ہیں۔ ایک صاحب نے تو زیادہ واضح الفاظ میں کہہ دیا تھا: مریم نواز وہ طوطا ہے، جس میں مسلم لیگ (ن) کی سیاست کا جِن ہے۔ ہم اس طوطے کو ہاتھ سے کیسے جانے دیں؟
لندن جانے کے لیے مریم کی خواہش (یا اصرار) اس بنا پر نہیں کہ وہاں اس کے علیل والد کی تیمار داری کرنے والا کوئی نہیں۔ اس کے لیے خیر سے سارا خاندان وہاں موجود ہے، مسئلہ اس جذباتی کیفیت کا ہے جو ایک بیٹی، اپنے شدید علیل والد کے لیے رکھتی ہے۔ دوسری طرف بھی یہی معاملہ ہے۔ یہ میاں نواز شریف کی ضد نہیں، فطری خواہش ہے کہ ایسے موقع پر، جب وہ زندگی کے خطرناک ترین مرحلے سے دوچار ہوں گے، دیگر اہلِ خانہ کے ساتھ، ان کی چہیتی بیٹی بھی موجود ہو۔ ان کے دل میں چھ، سات سٹنٹ پہلے سے موجود ہیں۔ دو بار سرجری کے نازک مرحلے سے گزر چکے (دوسری سرجری صرف اڑھائی سال قبل ہوئی تھی) اب تیسری سرجری اس عالم میں ہو گی کہ ان کے پلیٹ لیٹس کے استحکام کا معاملہ بھی ہے، گردے کا مرض بھی تیسرے درجے کو پہنچ چکا، شوگر اور بلڈ پریشر کے عوارض الگ۔ مشرق کی اپنی خاندانی (اور جذباتی) اقدار ہیں۔ یہ جو والدین (یا بہن بھائیوں) میں سے کسی کی سنگین بیماری کی اطلاع پاتے ہی لوگ سات سمندر پار سے بھاگے چلے آتے ہیں، تو اس لیے نہیں کہ یہاں بیمار کی عیادت کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اپنے ہاں تو میت کی تدفین بھی دور پار سے آنے والے پیاروں کی آمد تک ملتوی رکھی جاتی ہے کہ انہیں آخری دیدار کی حسرت نہ رہے۔
شامی صاحب نے بھی اس اتوار کو اپنے کالم (مریم نواز کی آزادی) میں اسی کو موضوع بنایا۔ انہوں نے جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے میاں نواز شریف کو حسن نواز کے علاج کے لیے، جدہ سے لندن جانے کی ”اجازت‘‘ دینے کے (جنرل مشرف کے) فیصلے کا حوالہ دیا۔ ایک اور مثال جاوید ہاشمی کی پیرول پر رہائی کی تھی کہ وہ ملتان جا کر اپنی صاحبزادی (بشریٰ) کو اپنے ہاتھوں جیون ساتھی کے ہمراہ روانہ کر سکیں (یہ جنرل مشرف کا دور تھا، جاوید ہاشمی کوٹ لکھپت جیل میں ”غداری‘‘ کی سزا بھگت رہے تھے کہ بشریٰ کی رخصتی سے ایک رات قبل وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے اپنے ”باس‘‘ سے ہاشمی کی پیرول پر رہائی کی منظوری لے لی۔
سوموار کی صبح ہاشمی صاحب سے فون پر بات ہو رہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ شامی صاحب بھی بشریٰ کی رخصتی کی تقریب میں موجود تھے لیکن انہوں نے اس کا ذکر تک نہ کیا کہ اس کار خیر کی طرف گجرات کے چھوٹے چودھری کی توجہ انہوں نے مبذول کروائی تھی۔ برسوں بعد یہ راز تب کھلا جب خود شامی صاحب اس کا ذکر کر گزرے۔
ہمیں یاد آیا، لاڈلی بھانجی کنول کی حادثاتی موت کے وقت بھی ہاشمی جیل میں تھے اور وہ پیرول پر آخری رسوم میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ ہاشمی صاحب نے کہا، ہاں! کنول کی دو دن قبل ہی شادی ہوئی تھی، وہ اپنے میاں (سلیم) کے ساتھ، عمرے پر روانہ ہوئی… ملتان سے یہ فوکر فلائٹ تھی (جس پر اسے لاہور آنا تھا) فوکر اڑان بھرتے ہی حادثے کا شکار ہو گیا اور کنول اپنے جیون ساتھی کے ساتھ آخرت کے سفر پر روانہ ہو گئی۔
ہاشمی کے پاس خاصا وقت تھا (اور ہم بھی یو سی پی میں میڈیا سٹڈیز کے پہلے سمیسٹر کا آخری پرچہ لے کر فارغ تھے) چنانچہ فون کال طویل ہوتی گئی، ہاشمی یاد دلا رہے تھے کہ اپنے ہاں سیاست میں وضعداری کی خاص روایات رہی ہیں۔ بھٹو صاحب کا عہد جیلوں میں سیاسی مخالفین کے ساتھ سلوک کے حوالے سے خاصا بدنام رہا ہے۔ اس عہدِ ستم کا نشانہ بننے والوں میں جاوید ہاشمی بھی تھے۔ لاہور کی چونا منڈی اور شاہی قلعے کی اذیتیں، کڑکڑاتے جاڑے میں برف کا بستر۔ بنگلہ دیش نامنظور مہم کے دوران زیر حراست ہاشمی کو برف کی سلوں پر لٹانے کی خبر پر سید مودودیؒ کا اضطراب دیدنی تھا۔ 5 اے ذیلدار پارک کی شام کی نشست میں فرما رہے تھے، میں نے کبھی کسی کو بد دعا نہیں دی (ہر ایک کے لیے ہدایت ہی کی دعا کی) لیکن ہاشمی کے ساتھ اس سلوک پر میں موجودہ حکمرانوں کے لیے بد دعا پر مجبور ہوں) پنجاب میں یہ غلام مصطفیٰ کی گورنری کا دور تھا۔ شاہی قلعے سے جاوید ہاشمی (اور ان کے رفقا) کو کوٹ لکھپت جیل منتقل کر دیا گیا‘ یہاں بھی وہی ناروا سلوک تھا جس پر جاوید ہاشمی اور احمد بلال محبوب تادم مرگ بھوک ہڑتال پر چلے گئے (پلڈاٹ والے احمد بلال ان دنوں انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کی سٹوڈنٹس یونین کے صدر تھے) یہ حقیقی معنوں میں بھوک ہڑتال تھی، دونوں کی حالت نازک ہوتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ جان کے لالے پڑ گئے۔ بھٹو صاحب کے علم میں یہ بات آئی تو مضطرب ہو گئے۔ مولانا ظفر احمد انصاری رابطہ عالم اسلام کے اجلاس کے لیے قاہرہ میں تھے، جہاں سے انہیں عمرہ پر جانا تھا۔ بھٹو صاحب نے مولانا سے رابطہ کیا، اور عمرہ ملتوی کر کے فوراً وطن واپسی کے لیے درخواست کی کہ وہ ہاشمی (اور احمد بلال) کو بھوک ہڑتال ختم کرنے پر آمادہ کر سکیں۔ مولانا انصاری لاہور پہنچے، مولانا مودودی کو اپنے ”مشن‘‘ کے متعلق بتایا اور ان کی اشیرباد کے ساتھ کوٹ لکھپت جیل کا رخ کیا۔ ہاشمی نے کال کوٹھڑی کی سلاخوں سے مولانا کو دیکھا، تو سمجھ گئے کہ حضرت کی آمد بلا سبب نہیں۔ احمد بلال کو بھی ساتھ والی کوٹھڑی سے اِدھر ہی بلا لیا گیا۔ مولانا انصاری نے ہاشمی سے کہا کہ وہ بھوک ہڑتال ختم کرنے کے لیے، مولانا مودودی کا حکم بھی ساتھ لائے ہیں… ظاہر ہے، سرتابی کی مجال نہ تھی، ہاشمی اور احمد بلال نے بھوک ہڑتال ختم کر دی۔ اسیری کے باقی ماندہ ایام ہاشمی، احمد بلال (اور ان کے دیگر رفقا) نے خاصی سہولت کے ساتھ گزارے۔
ایک اور مثال مشرف کے عہد کی، جو نواز شریف کو اپنا دشمن نمبر ایک قرار دیتے (انہیں اخبار نویسوں کے ساتھ میٹنگ میں بھی یہ بات کہنے میں عار نہ ہوتی) جلا وطنی سے پہلے میاں صاحب طیارہ ہائی جیکنگ کیس کے دیگر ملزمان کے ساتھ کراچی کی لانڈھی جیل میں تھے کہ لاہور میں بیگم کلثوم نواز صاحبہ کے والد محترم ڈاکٹر حفیظ صاحب انتقال کر گئے۔ میاں صاحب اور شہباز شریف کو آخری رسوم میں شرکت کی خصوصی اجازت مل گئی۔