دنیابھرسے

کورونا وائرس سے ہلاکتیں 1100 سے تجاوز کر گئیں

Share

چین میں کورونا وائرس سے ہلاکتیں 1100 سے تجاوز کر گئی ہیں اور عالمی ادارہ صحت کی جانب سے اس خطرے سے نمٹنے کے لیے دنیا بھر کے ممالک سے اتحاد کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

وائرس سے بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے باوجود خوش آئند امر یہ ہے کہ لگاتار دوسرے دن وائرس میں مبتلا ہونے والے نئے افراد کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔

چین میں وائرس سے مزید 97افراد جان کی بازی ہار گئے جس سے ملک میں ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار 113 ہو چکی ہے اور نئے نام COVID-19 کے حامل اس وائرس سے اب تک 44ہزار سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں۔تحریر جاری ہے‎

عالمی ادارہ صحت نے اس وائرس کو COVID-19 کا نام دینے کا اعلان کیا ہے تاکہ اپنے ضابطہ اخلاق کی روشنی میں مرض کو کسی جانور یا کسی خطے سے منسوب نہ کیا جائے۔

منگل کو جنیوا میں وائرس سے مقابلے کے لیے منعقدہ کانفرنس میں سائنسدانوں سے خطاب کرتے ہوئے عالمی ادارہ صحت کی سربراہ تیدروس ادہانوم گیبریسس نے خبردار کیا کہ یہ وائرس ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے پاس اس وائرس سے نمٹنے کے لیے متحد ہو کر مقابلہ کرنے کا موقع میسر ہے ، ہمارا دفاع ختم نہیں ہوا اور اگر ہم آج سرمایہ کریں تو ہمارے پاس اسے پھیلاؤ سے روکنے کا موقع موجود ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر وائرس سے نمٹنے کے لیے موثر اقدامات نہ کیے جائیں تو اس کے نتائج کسی خطرناک دہشت گرد حملے سے بھی زیادہ بدتر ہو سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ اس وائرس کا آغاز صوبہ ہوبے اور اس کے دارالحکومت ووہان سے ہوا تھا اور چینی حکومت نے وہاں ساڑھے 5کروڑ سے زائد لوگوں کو محصور رکھا ہوا ہے تاکہ اس وائرس کو مزید علاقوں، خطوں اور ملکوں میں پھیلاؤ سے روکا جا سکے۔

متعدد حکومتوں نے چین سے مسافروں کی آمد پر پابندی عائد کر دی ہے اور دنیا کی متعدد نامور ایئرلائنز نے وائرس کے خطرے کے سبب چین کے لیے پروازیں بند کر دی ہیں۔

اس انسانی المیے سے سب سے زیادہ ہلاکتیں بھی صوبہ ہوبے اور ووہان میں ہوئی ہیں لیکن مثبت پیشرفت یہ ہے کہ صوبہ ہوبے میں لگاتار دوسرے دن نئے رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد مں واضح کمی واقع ہوئی ہے۔

صوبہ ہوبے کے علاوہ دیگر صوبوں کی بات کی جائے تو حفاظتی اقدامات کی بدولت ایک ہفتہ قبل ہی وائرس کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد میں کمی آنا شروع ہو گئی تھی۔

چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن کے نامور سائنسدان زونگ نینشن نے ووہان میں طبی عملے سے ویڈیو کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وائرس کا شکار ہونے والے نئے کیسز میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے، یہ کب ممکن ہونا شروع ہوا، یہ کہنا تو مشکل ہے لیکن یہ وائرس فروری کے وسط میں اپنی انتہا پر تھا اور اب بتدریج ختم ہو رہا ہے۔

ادھر چین سے باہر وائرس سے متاثرہ افراد کی سب سے بڑی تعداد ایک جاپانی کروز شپ پر موجود ہے جسے بالکل الگ تھلگ ساحلی علاقے میں بھیج دیا گیا ہے۔

کروزشپ پر موجود 174افراد وائرس کا شکار ہیں اور یہ چین سے باہر کسی بھی ایک مقام پر وائرس کا شکار افراد کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

دوسری جانب اس وائرس کے پھیلاؤ کا نیا خطرہ پیدا ہو گیا ہے کیونکہ وائرس سے ہلاک ہونے والے برطانوی شہری نے کبھی چین کا سفر نہیں کیا تھا اور اس سے 11 افراد متاثر ہوئے اور اس خبر سے عالمی ادارہ صحت سمیت دنیا بھر کے اہم ممالک میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

بیرون ملک وائرس کا شکار ہونے والے اکثر افراد چین کے صوبہ ہوبے کے شہر ووہان سے تعلق رکھتے تھے یا پھر وہ ووہان میں رہنے والے افراد کی وجہ سے اس وائرس کی زد میں آئے۔

برطانوی شہری کا نام ظاہر نہیں کیا گیا لیکن وہ ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے سنگاپور گئے تھے اور وہاں وہ وائرس کا شکار ہوئے اور فرانس میں چھٹیوں کے دوران یہ وائرس ان سے دیگر افراد میں منتقل ہوا جس کے بعد برطانیہ واپسی پر ان میں اس وائرس کی تصدیق ہوئی۔

اس شخص سے وائرس کی زد میں آنے والے پانچ افراد فرانس، پانچ برطانیہ اور ایک اسپین میں زیر علاج ہیں تاہم اس نئے خطرے پر عالمی ادارہ صحت نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔