پاکستان

فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ 230 مجرموں کی درخواستوں پر تحریری دلائل طلب

Share

پشاور ہائی کورٹ نے فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ مجرمان کے وکیل، وفاقی اور خیبرپختونخوا حکومت کو سزاؤں کے خلاف230 کے قریب درخواستوں پر 20فروری تک تحریری دلائل جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس عبدالشکور پر مشتمل عدالتی بینچ نے ریمارکس دیے کہ اگر درخواست گزار یا فریقین تحریری طور پر دلائل نہیں دیتے تو درخواستوں کا فیصلہ کردیا جائے گا۔

عدالتی بینچ نے مزید کہا کہ ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے اور متعدد عدالتی احکامات کے باوجود وفاقی حکومت نے ان مقدمات کا ریکارڈ پیش نہیں کیا۔

بینچ نے درخواستوں کی اگلی سماعت 20 فروری کو مقرر کی جن میں سے اکثر میں فوجی عدالتوں کی جانب سے درخواست گزاروں یا ان کے قریبی رشتہ داروں کو سنائی گئی سزائے موت کو چیلنج کیا گیا ہے۔تحریر جاری ہے‎

عدالت کی جانب سے فوجی عدالتوں کی جانب سے سزاؤں سے متعلق درخواستوں کی اِن کیمرا سماعت کی جارہی ہے۔

مذکورہ درخواستیں دہشت گردی سے متعلق درجنوں مقدمات میں وقتاً فوقتاً دائر کی گئیں۔

خیال رہے کہ عدالت نے مجرموں کی پھانسی کے خلاف حکم امتناع جاری کرکے انہیں عبوری ریلیف فراہم کیا ہوا ہے۔

گزشتہ برس نومبر میں عدالت نے وفاقی حکومت کی جانب سے ان درخواستوں کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دینے کی اپیل مسترد کردی تھی۔

دورانِ سماعت عدالت میں صوبائی حکومت کی جانب سے صوبائی ایڈووکیٹ جنرل شمائل بٹ پیش ہوئے جبکہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاضی بابر ارشاد اور عامر جاوید نے وفاقی حکومت وزارت قانون و انصاف اور دفاع کی نمائندگی کی۔

دوسری جانب وکلا شبیر حسین گگیانی، ضیاالرحمٰن تاجک، عارف جان، دانیال اسد چمکانی، بیرسٹر امیر اللہ چمکانی، نووید اختر، سجید آفریدی اور دیگر نے درخواست گزاروں کی نمائندگی کی۔

حکومت کے وکلا نے عدالتی بینچ کو درخواست پر سماعت ملتوی کرنے کی درخواست کی تھی۔

عدالت نے مشاہدہ کیاکہ مقدمات پہلے ہی کسی نہ کسی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوچکے ہیں اور مزید ریمارکس دیے کہ حکومت ان مقدمات میں ریکارڈز پیش نہیں کررہی۔

اکثر درخواست گزاروں نے دعویٰ کیا کہ سیکیورٹی فورسز نے مجرموں کو کئی سالوں تک قیدِ تنہائی میں رکھا اور انہیں فوجی عدالتوں کی جانب سے اپنی سزاؤں کا علم میڈیا رپورٹس سے ہوا۔

کچھ درخواست گزاروں نے زور دیا کہ انہیں حراستی مراکز میں اپنے رشتے داروں کی موجودگی کا علم ان کے لاپتہ ہونے کے سالوں بعد ہوا اور بعدازاں انہیں فوجی عدالتوں کی جانب سے سزائے موت سنائے جانے کی اطلاع اخباری رپورٹس سے ملی۔

انہوں نے موقف اپنایا کہ سزا شواہد کے بغیر اور نام نہاد اعترافی بیانات کی بنیاد پر دی گئی جو قانونی دفعات کے خلاف ریکارڈ کیے گئے تھے۔

درخواست گزاروں کے وکلا نے کہا کہ مجرمان سیکیورٹی فورسز کی تحویل میں تھے، ان کے نام نہاد اعترافات حراست کے کئی سال بعد ریکارڈ کیے گئے تھے۔

گزشتہ برس 18 اکتوبر کو چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں ہائی کورٹ بینچ نے فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ مجرمان کی جانب سے دائر کی گئی دیگر 75 درخواستوں کو منظور کرلیا تھا اور ان کی سزاؤں سمیت اکثر سزائے موت کو روک دیا تھا۔

تاہم سپریم کورٹ نے حکومت کی جانب سے دائر کی گئی اپیلوں پر اس فیصلے کو معطل کردیا تھا جبکہ اس حوالے سے حکومت کی مرکزی اپیلیں تاحال عدالتِ عظمیٰ میں زیرِ التوا ہیں۔

ان مقدمات میں ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ سزائیں شواہد کے بجائے بدنیتی پر مبنی حقائق میں مشتمل تھیں۔

تفصیلی فیصلے میں عدالت نے تمام مجرموں کے اعترافی بیانات پر موجود خامیوں پر بحث کے بعد انہیں مسترد کردیا تھا۔