پاکستان

سینیٹ سے انسدادِ منی لانڈرنگ سمیت دو بل منظور

Share

اسلام آباد: سینیٹ نے ترمیم کے بعد اینٹی منی لانڈرنگ (اے ایم ایل) اور غیر ملکی زر مبادلہ کی ریگولیشن بلز کو منظور کرلیا۔

واضح رہے کہ یہ دونوں بلز قومی اسمبلی سے پہلے ہی منظور کیے جاچکے ہیں۔

 رپورٹ کے مطابق ان دونوں بلز کا مقصد فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی شرائط پر پورا اترنا ہے اور انہیں اب ایوان بالا کی تجویز کردہ ترمیم پر روشنی ڈالنے کے لیے واپس قومی اسمبلی بھیجا جائے گا۔

جون 2018 سے ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈال رکھا ہے، یہ کیٹیگری ان ممالک کے لیے ہے جن کا میکانزم منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کو روکنے سے قاصر ہے۔تحریر جاری ہے‎

16 فروری کو ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں پاکستان کے حوالے سے نظر ثانی کی جائے گی جبکہ امکان یہی ہے کہ پاکستان کو فی الحال آئندہ چند ماہ تک گرے لسٹ پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا۔

قومی اسمبلی سے منظور شدہ اینٹی منی لانڈرنگ بل تحقیقاتی افسروں کو منی لانڈرنگ کے مشتبہ افراد کو بغیر کسی وارنٹ کے گرفتار کرنے کا اختیار دیتا تھا تاہم سینیٹ کی جانب سے اس پیشکش کو مسترد کردیا گیا۔

ایک اور ترمیم کے تحت منی لانڈرنگ کو قابل ادراک جرم قرار دینے کی پیشکش کی شق کو نکالنے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔

سینیٹ نے جرمانے میں اضافے کی منظوری دی اور قید کی حد میں تبدیلیوں کی بھی منظوری دی۔

اس بل کے ایکٹ بننے کے بعد منی لانڈرنگ کے مرتکب افراد کو ایک سے 10سال تک قید کی سزا ہوگی جبکہ جرمانہ بھی 10 لاکھ روپے سے 50 لاکھ روپے تک بڑھ جائے گا۔

ایک اور ترمیم کے تحت اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا فنانشل مینجمنٹ یونٹ (ایف ایم یو) فوری طور پر منی لانڈرنگ کے بارے میں معلومات کو ‘ضروری انتظامی عمل’ کا انتظار کرنے کے بجائے دائرہ کار میں آنے والے غیر ملکی اداروں کو فراہم کرنے کا پابند ہوگا، اسی طرح بینک 7دن کے اندر مشکوک لین دین کی فوری طور پر اطلاع دینے کے پابند ہوں گے۔

اس ترمیمی بل میں تفتیشی افسران کو یہ اختیار دینے کی بھی کوشش کی گئی ہے کہ وہ منی لانڈرنگ میں ملوث املاک کو موجودہ 3ماہ کی مدت کے مقابلے میں چھ ماہ کے لئے منسلک کرے۔

بینک مشکوک لین دین کی رپورٹس درج کرنے کے پابند ہوں گے اور ایسا نہ کرنے پر متعلقہ افراد کو 5 سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔

سینیٹ نے فی فرد غیر ملکی کرنسی کی اندرون ملک نقل و حرکت کو صرف 10ہزار ڈالر تک محدود رکھنے کی تجویز کو چھوڑ کر حکومت کی جانب سے غیر ملکی زرمبادلہ ریگولیشنز ایکٹ 1947 میں پیش کردہ بیشتر ترامیم کی منظوری دی۔