بنا کسی بحث کے مراد سعید صاحب کی کہی تمام باتیں مان لیتے ہیں۔منگل کے روز قومی اسمبلی میں ایک دھواں دھار خطاب کے ذریعے جواں سال وزیر مواصلات نے ہمیں یہ بتایا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین درحقیقت ’’جانشینِ زرداری‘‘ ہیں۔ ’’حادثاتی سیاست دان ‘‘ہیں۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ایک ’’وصیت‘‘ دریافت کرلی گئی تھی۔ اس کی بدولت وہ اپنے نانا کی بنائی جماعت کے سربراہ بنادئیے گئے۔ بلاول بھٹو زرداری نے مراد سعید جیسے سیاسی کارکنوں کی طرح عوام سے مسلسل رابطے اور بھرپور محنت کے ذریعے سیاست میں نام ومقام حاصل نہیں کیا۔اُردو زبان وہ بول نہیں سکتے۔انگریزی میں ’’(کسی کی) لکھی ہوئی تقریر پڑھتے ہیں۔برجستہ خطاب کرنہیں سکتے۔ لاڑکانہ سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔وہاں کی صوبائی حکومت پیپلز پارٹی ہی کی ہے۔سندھ کے اس قدیمی اور کئی قدآور سیاست دانوں کے آبائی شہر پر لیکن ان دنوں ’’آوارہ کتوںکا راج‘‘ ہے۔منگل کی شام مراد سعید اپنی دانست میں اس لئے بھی ’’بازی‘‘ لے گئے کیونکہ ان کا خطاب شروع ہوتے ہی بلاول بھٹو زرداری ایوان سے باہر چلے گئے تھے۔’’سچ‘‘ سننے کا حوصلہ نہ دکھاپائے۔
ایک تندوتیز تقریر کے ذریعے بلاول بھٹو زرداری کی نفرت وحقارت سے بھداُڑاتے ہوئے مراد سعید نے اپنی جماعت کے اراکین سے بہت دادسمیٹی۔ ان کالہجہ اور ادا کردہ کئی الفاظ ہر لحاظ سے غیر پارلیمانی تھے۔ سپیکر نے مگر انہیں ایک باربھی نہیں ٹوکا۔مسلسل پچاس منٹوں تک ان کے لئے میدان کو کھلارکھا۔
مراد سعید صاحب نے تحریک انصاف کے مداحین کے لئے یقینا رونق لگادی ہوگی۔ایک بدنصیب دیہاڑی دار ہوتے ہوئے مجھے لیکن لاکھوں پاکستانیوں کی طرح مراد سعید صاحب کی طولانی تقریر سے اس سوال کا جواب ہرگز نہیں ملا کہ ہمارے ملک میں مہنگائی کی شرح ناقابلِ برداشت حدوں تک چھلانگیں کیوں لگارہی ہے۔
تحریک انصاف کا اس ضمن میں بندھا ٹکا جواب یہ ہے کہ 2008سے 2018تک مسلط رہی ’’چوروں اور لٹیروں‘‘کی حکومتوں نے قومی خزانہ خالی کردیا۔تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا۔اسے اب ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کی جانب سے لئے قرضوں کے سود کی ادائیگی میں بھاری بھر کم رقوم ادا کرنا پڑرہی ہیں۔ معیشت کو کرپشن سے پاک کرنے کے بعد اب مستحکم بنایا جارہا ہے۔چند دنوں کی اذیت ہے۔اس کے بعد معاملات بہتری کی طرف بڑھنا شروع ہوجائیں گے۔عوام مہنگائی سے یقینا پریشان ہیں۔’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کو مگر اس پریشانی کے اظہار کا حق حاصل نہیں۔وہ کسی اور کو ’’چور چور‘‘ پکارنے کا حق نہیں رکھتے۔
تحریک انصاف کا جو بیانیہ ہے اسے مزید شدت سے فروغ دینے کے لئے سوشل میڈیا پر عمران خان صاحب کے مداحین کا ایک لشکر بھی چھایا ہوا ہے۔اب اس جماعت کو باصفا ’’یوٹیوبرز‘‘ کی ایک بریگیڈ بھی عطا ہوگئی ہے۔گفتار کے ان غازیوں کو لوگوں کی ایک متاثر کن تعداد اپنے سمارٹ فونز کی بدولت بہت اشتیاق سے سنتی ہے۔
ریگولر میڈیا کو عرصہ ہوا تحریک انصاف ’’بکائو‘‘ ثابت کرچکی۔ ٹی وی سکرینوں کو بھی ’’تخریب کاروں‘‘ سے پاک کردیا گیا ہے۔ ’’ٹاک شوز‘‘ کی Ratingsاگرچہ ہر روز گررہی ہے۔ ناظرین نے ’’میرے پاس تم ہو‘‘ جیسے ڈراموں سے رجوع کرنا شروع کردیا ہے۔
تحریک انصاف کے پراپیگنڈہ بریگیڈ کا اصرار ہے کہ چونکہ عمران حکومت نے میڈیا ہائوسز اور مقبول اینکروں کو ’’لفافے‘‘ دینے کا سلسلہ بند کردیا ہے۔اس لئے وہ یکسوہوکر حکومت کو بدنام کرنے کیلئے ’’منفی خبریں‘‘ پھیلارہے ہیں۔ربّ کا مگر صد شکر۔ پاکستان کے باشعور عوام ’’لفافوں‘‘ کی حقیقت جان کر ان کی جانب سے پھیلائی باتوں سے گمراہ ہونے کو تیار نہیں۔
پراپیگنڈہ بریگیڈ کے غازیوں کو ابھی تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ فرض کریں تمام ٹی وی چینلوں پر پابندی لگاکر صرف PTVسے خبریں اور حالاتِ حاضرہ کے پروگرام چلیں تب بھی مہنگائی اور بے روزگاری کے باعث نازل ہوئے عذاب کو چھپایا نہیں جاسکتا۔ ہر تنخواہ دار یا نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے شخص کے گھر میں ’’سیاپا‘‘ تو بجلی اور گیس کے بل وصول ہونے کے ساتھ ہی شروع ہوجاتا ہے۔گھروں کی عورتیں سودا سلف لینے جاتی ہیں تو گھر پہنچتے ہی واویلا مچانا شروع ہوجاتی ہیں۔ان خواتین کے پاس موبائل فونز تو ہیں مگر یوٹیوب دیکھنے کا وقت نہیں۔ وہ ’’دو دونی چار‘‘ کرتے ہوئے عمران حکومت ہی کو اپنی مصیبتوں کا ذمہ دار ٹھہرارہی ہیں۔
مہنگائی بنیادی طورپر طلب اور رسد کا کھیل ہے۔حکومتی اعدادوشمار بتارہے ہیں کہ موسم اور ماحول میں تبدیلی کے علاوہ بھی کئی ٹھوس وجوہات کی بنا پر ہمارے ملک میں زرعی شعبہ بدحال ہوگیا ہے۔اس کالم میں بار ہا عرض کیا ہے کہ گزشتہ برس کے مارچ /اپریل میں گندم کی فصل کٹنے کے بعد فیصل آباد جیسے شہروں میں موجود تھوک فروشوں نے اس جنس کی ذخیرہ اندوزی شروع کردی تھی۔
مذکورہ ذخیرہ اندوزی کا ’’قومی خزانے کی لوٹ مار‘‘ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔بنیادی طورپر یہ انتظامی معاملہ تھا۔سرکاری افسروں نے بروقت اسے روکنے کی کوشش نہ کی۔ بالآخربقول حکومت گندم کا ’’مصنوعی بحران‘‘پیدا ہوگیا۔اس بحران کے ذمہ داروں کی نشاندہی کے لئے شہرئہ آفاق واجد ضیاء کی سربراہی میں کام کرنے والی ایف آئی اے کی ایک کمیٹی بنی۔اس کمیٹی نے جو رپورٹ تیار کی ہے اسے پبلک کے سامنے ہی رکھ دیا جائے تو شاید ہمیں کچھ تسلی ہوجائے۔ذمہ داروں کو ’’عبرت کا نشان‘‘ بنانا تو بہت دور کی بات ہے۔
گندم کے بعد چینی کا ’’بحران‘‘ بھی اُٹھنے لگا۔ چینی پیدا کرنے کے دھندے پر جن لوگوں کا اجارہ ہے ان کا نام لکھنے کی مجھے ضرورت نہیں۔ان میں سے کم از کم تین تحریک انصاف کی صفوں میں نمایاں ترین ہیں۔ان کے جہازعمران حکومت کو ’’استحکام‘‘ بخشنے کے لئے مسلسل استعمال ہوتے رہے ہیں۔ہم لوگوں کو مگر صبر کا حکم ہے۔ ’’لفافہ‘‘ صحافی مارے شرم کے خاموش ہیں۔ 2018کے صاف شفاف انتخاب کے ذریعے لیکن عوام کے جو نمائندے منتخب ہوکر قومی اسمبلی میں آئے ہیں بنیادی فریضہ ان کا مہنگائی کے عذاب کی بابت ایوان میں دہائی مچانا تھا۔
یہ فریضہ دکھاوے کی حد تک نبھانے کے لئے مسلم لیگ (نون) کے خواجہ آصف صاحب نے حکومت کو مجبور کیا کہ وہ منگل کی نشست فقط مہنگائی کے اسباب جاننے کے لئے مختص کرے۔ حکومت فراخ دلی سے آمادہ ہوگئی۔منگل کے روز قومی اسمبلی میں ہوئی تقاریر میں نے تو پریس گیلری میں بیٹھ کر سنیں۔مجھے یقین ہے کہ آپ میں سے اکثر لوگوں نے بہت اشتیاق سے ان تقاریر کو اپنے ٹیلی وژن کی سکرینوں پر Liveدیکھا ہوگا۔
اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر ایمانداری سے بتائیں کہ تین گھنٹے سے زیادہ عرصے تک جاری رہی ان تقاریر کی بدولت آپ واقعتا یہ جان پائے ہیں کہ ہمارے ہاں پھوٹی مہنگائی کی حالیہ لہر کے اصل اسباب کیا ہیں۔ 1985سے پریس گیلری میں بیٹھ کر قومی اسمبلی میں ہوئی تقاریر سن رہا ہوں۔ بخدا مجھے منگل کے روز ہوئی تقاریر کو بہت غور سے سننے کے بعد کوئی ایک وجہ بھی واضح انداز میں سمجھ میں نہیں آئی۔
بلاول بھٹو زرداری نے یہ کوشش کی کہ پاکستانی معیشت کی موجودہ زبوں حالی کو آئی ایم ایف کے ساتھ ہوئے معاہدے کے تناظر میں دیکھا جائے۔یہ پہلو سنجیدگی سے اجاگر ہوجاتاتو مدلل بحث کا عنوان ہوسکتا تھا۔تحریک انصاف کے وزیر مگر چراغ پا ہوگئے کیونکہ ’’بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘‘ کو ’’احساس‘‘ پروگرام کے نام پرختم کرنے کی کوششوں کو پیپلزپارٹی کے چیئرمین نے عمران خان صاحب کے ’’چھوٹے پن‘‘ سے منسوب کیا۔
’’توہین عمران‘‘ کا جواب مراد سعید نے ’’پرچی والے حادثاتی‘‘سیاستد۔بلاول بھٹو زرداری۔کے خلاف ایک دھواں دھار تقریر کرکے دیا۔مراد سعید کا جواب دینے پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل کھڑے ہوگئے۔موصوف بہت ’’کاریگر‘‘ ہیں۔ دھیمے انداز میں گفتگو کرتے ہوئے بے ساختہ ایسے جملے کہہ جاتے ہیں جن کی کاٹ لاہور کے ’’جگتوں‘‘ والے تھیٹر میں ادا ہوئے فقروں سے بھی زیادہ کاری ہوتی ہے۔ان کی تقریر سے ’’رونق‘‘ لگ گئی۔مراد سعید صاحب بھی اس کی تاب نہ لاتے ہوئے ایوان سے غائب ہوگئے۔
عبدالقادر پٹیل صاحب نے ’’توہین بلاول‘‘ کا بدلہ لے لیا۔ مراد سعید صاحب نے اس سے قبل بلاول بھٹو زرداری کی بھداڑادی تھی۔میراسوال مگر اپنی جگہ موجود ہے۔ہم دیہاڑی داروں،تنخواہ داروں اور بیروزگاری کے خوف سے پریشان ہوئے بدنصیبوں کو یہ کون بتائے گا کہ ہمارے دُکھوں کے اصل اسباب کیا ہیں اور ان کے ممکنہ مداوے کی کیا صورتیں ہوسکتی ہیں۔