Site icon DUNYA PAKISTAN

جیپ ریلی: صحرائے چولستان میں بھاگنے والی گاڑی میں خاص کیا ہے؟

Share

پاکستان میں کھیل، سیاحت اور تفریح ایک ساتھ ملنا اکثر مشکل ہوتا ہے لیکن چولستان جیپ ریلی وہ واحد تقریب ہے جہاں یہ تینوں چیزیں ایک ساتھ مل جاتی ہیں۔

ہر سال محکمہ سیاحت کی جانب سے انعقاد کی جانے والی پاکستان کی سب سے بڑی جیپ ریلی میں ملک بھر سے گاڑیوں اور ریسنگ کے شوقین افراد کی ایک بڑی تعداد شرکت کرتی ہے۔ جس کے لیے وہ کئی مہینوں پہلے ہی تیاریاں بھی شروع دیتے ہیں۔ رواں برس اس جیپ ریلی میں سو سے زائد ریسرز نے حصہ لیا ہے۔

اس بار جمعرات سے شروع ہونے والا یہ مقابلہ قدرے مزید سخت ہے کیونکہ ٹریک کی لمبائی پانچ سو کلو میٹر تک بڑھا دی گئی ہے۔ اس جیب ریلی کا ٹریک جنوبی پنجاب کے تین اضلاع بہاولپور، بہاولنگر اور رحیم یار خان سے ہو کر گزرتا ہے۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے قاسم سعیدی پچھلے بارہ سال سے چولستان ریلی میں شرکت کے لیے ہر سال اپنے دوستوں کے ہمراہ چولستان جاتے ہیں اور وہ 2013 میں سالانہ چولستان ریلی بھی جیت چکے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’موٹر سپورٹس‘ بنیادی طور پر ایک مہنگا کھیل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کھیل کے لیے ‘آپ کو شوق ہو، آپ کے پاس وقت ہو اور پیسہ ہو تو پھر ہی آپ اس میں حصہ لے سکتے ہیں’۔

میں لاہور کی ایک موٹر ورک شاپ پر پہنچی تو وہاں قاسم سعیدی اپنی گاڑی میں کچھ تبدلیاں کروا رہے تھے۔ ان سے بات چیت کی تو ایک کہاوت یاد آگئی، کہ شوق کا کوئی مول نہیں۔ پیشے کے اعتبار سے قاسم سعیدی ایک وکیل ہیں۔ میں ان سے پوچھا کہ یہ تو بہت مہنگا شوق ہے آپ اسے کیسے پورا کرتے ہیں؟ تو ہنس کر بولے کہ میری بیوی کو نہیں معلوم کہ گاڑی کے پارٹس کتنے کے آتے ہیں؟

انھوں نے بتایا کہ وہ ہمشہ ہی ہر سال ان دنوں میں ورکشاپ پر آتے ہیں تاکہ چولستان ریلی میں شرکت کے لیے اپنی گاڑی میں کام کروا سکیں۔

جس گاڑی کا وہ کام کروا رہے تھے وہ ایک عام گاڑی تھی جو دیکھتے ہی دیکھتے ایک ریسنگ کار میں تبدیل ہو گئی۔

انھوں نے بتایا کہ وہی نہیں بلکہ ہر ریسر چولستان ریلی سے قبل اپنی گاڑیوں میں چار اہم تبدیلیاں ضرور لے کر آتا ہے۔ ریسنگ کے لیے استعمال ہونے والے بیشتر پارٹس پاکستان میں مہیا نہیں ہیں اس لیے انھیں وہ دیگر ممالک سے منگوانے پڑتے ہیں۔

’ریس میں گاڑی کی سسپینشن سب سے اہم ہے‘

قاسم سعیدی نے اپنی گاڑی کے پہیوں کے پیچھے لگے پارٹس اور کمانی دیکھاتے ہوئے بتایا کہ ‘میں نے اس گاڑی کے اگلے پہیوں میں دوہرے شاک ڈالے ہوئے ہیں۔ یہ ریباؤنڈ کنٹرول اور کمپریشن والے شاک ہیں یعنی کہ کس رفتار سے انھوں نے دبنا ہے اور پھر واپس آنا ہے یہ میں خود سیٹ کر سکتا ہوں اور یہ سادہ سا سسٹم آٹھ سے نو لاکھ کا ہے’۔ ان کا کہنا ہے کہ آج کل پانچ لاکھ سے شروع ہو کر تیس لاکھ تک کے شاکس ڈالے جاتے ہیں۔

ریس کے راستے کے حساب سے ٹائروں اور رم (پہیے کا بیرونی حصہ) تبدیل کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جہاں ہم جا رہے ہیں وہاں ریت ہے اور اس کے لیے عام ٹائر استعمال نہیں ہوتے ہیں۔ اسی طرح اگر ہم کسی پتھروں والے علاقے جائیں گے تو وہاں مختلف ٹائر ہوں گے۔ اس لیے ہمیں سب سے پہلے سسپینشن بدلنی پڑتی ہے۔‘

سسپینشن کے بعد ریسنگ کے لیے خاص قسم کے ٹائر استعمال کیے جاتے ہیں۔

ڈرائیور ہمیشہ راستے کا تعین کرنے کے بعد ٹائر کو تبدیل کرتا ہے۔ قاسم سعیدی کے مطابق عام گاڑیوں میں ہائی وے پر چلنے والے ٹائروں کا استعمال کیا جاتا ہے جبکہ وہ چولستان ریلی میں خصوصی ٹائر استعمال کر رہے ہیں جو ہائی وے اور برف پر چلنے والے ٹائروں کا ملاپ ہے۔

ان میں خاص بات یہ ہے کہ ان ٹائروں میں لہردار لائنیں ہوتی ہیں جس سے اس ٹائر کی گرفت آف روڈ پر اچھی ہوتی ہے۔ لہر دار لائینوں کے علاوہ ان ٹائروں میں پانچ سیدھی لائنیں بھی بنی ہوتی ہیں جو ریت پر رفتار برقرار رکھنے میں مدد دیتی ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ایک ٹائر تقریبا 28 کلو کا ہوتا ہے اور ریس کے دوران ہمیں خود ہی تبدیل بھی کرنا پڑتا ہے۔ تاہم پہلے انھیں ٹائر تبدیل کرنے میں تیرہ منٹ لگتے تھے جس کا مطلب ہے چار سے چانچ گاڑیاں ان کی گاڑی سے آگے نکل گئی ہیں۔

ان کا کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے اس تیرہ منٹ کے وقت کو مشق کر کرکے سات منٹ کر لیا جس کا مطلب ہے کہ اب صرف دو گاڑیاں ہی ہم سے آگے نکل سکیں گی۔ اپنی تیاری کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں ان ٹائروں کے ساتھ کیچڑ میں استعمال ہونے والے ٹائر بھی ساتھ لے کر جارہا ہوں کیونکہ ریلی کے دنوں میں بارش کی بھی پیشینگوئی ہے۔

انجن میں تبدیلی سے کیا مراد ہے؟

چولستان ریلی میں گاڑی کے انجن کے سی سی کے حساب سے گروپ بنایا جاتا ہے۔ گروپ اے میں ریسنگ کرنے والی گاڑیوں کا انجن زیادہ طاقتور ہوتا ہے یعنی اگر آپ گروپ اے میں حصہ لینا چاہتے ہیں تو آپ کی گاڑی کا انجن کم از کم 3500 سی سی یا اس سے اوپر ہونا چاہے۔ اسی طرح گروپ بی اور سی میں بھی گاڑیوں کے انجن کا تعین کرنے کے بعد ہی ریسنگ کی اجازت دی جاتی ہے۔

انجن سے متعلق قاسم سعیدی نے بتایا کہ یہ جو گاڑیاں مارکیٹ سے ملتی ہیں ان میں اتنی سکت نہیں ہوتی کہ وہ ریسنگ کی سختی برداشت کر سکیں۔ اس لیے ہم انجن میں اضافی چیزیں نصب کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گاڑی کا ریڈی ایٹر انجن کو ریس کے دوران زیادہ ٹھنڈا نہیں رکھ سکتا کیونکہ وہ بہت سخت ماحول ہوتا ہے۔ اس لیے انجن گرم ہو جاتا ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہم گاڑی کے اندر بڑا ریڈی ایٹر لگاتے ہیں جس میں پانی زیادہ ڈالا جاتا ہے تاکہ وہ انجن کو ریلی کے دوران ٹھنڈا رکھے۔

اس کے علاوہ ہم نے ٹرانسمیشن کولر بھی لگائے ہوئے ہیں جو گاڑی کی ٹرانسمیشن، جس میں تیل چلتا ہے اسے ٹھنڈا کرنے کے کام آتا ہے۔ ’میں نے اپنی گاڑی میں ایسے ائر فلٹر لگائے ہوئے ہیں جو انجن کو گرد سے بچاتے ہیں۔ تاہم ہم ریس سے پہلے گاڑی کی اصل چیزیں اتار دیتے ہیں کیونکہ ریلی کے دوران کچھ نہیں پتا ہوتا کہ کون سی چیز سلامت واپس آئے گی۔‘

گاڑی کی طاقت کو بہتر کرنا جیتنے کے لیے ضروری ہے

قاسم نے چولستان ریلی سے قبل مسلسل کئی دن چکر لگائے تاکہ وہ اپنی گاڑی کی رفتار اور انجن کی طاقت کو بڑھا سکیں۔ جب میں ورکشاپ پہنچی تو گاڑی ایک مخصوص جگہ پر کھڑی تھی اور اس کے پہیے تیزی سے گھوم رہے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا یہ کیا ہو رہا ہے تو انھوں نے بتایا کہ ہم نے ڈائنو (سوفٹ وئیر) لگایا ہوا ہے جس سے ہم گاڑی کے پہیوں سے نکلنے والی سپیڈ کا جائزہ لے رہے ہیں۔

یہ سن کر مزید حیرت ہوئی جب انھوں نے بتایا کہ ہماری گاڑی کا ٹیونر تھائی لینڈ میں بیٹھا ہوا ہے وہ انڑنیٹ پر بیٹھ کر ہمیں بتا رہا ہے گاڑی میں تیل اور ہوا کی مقدار کتنی ہونی چاہیے جس سے اس گاڑی کے انجن کی طاقت میں مزید اضافہ ہوگا۔

قاسم سعیدی نے مزید بتایا کہ ان کی گاڑی کے انجن کی طاقت 160 ہارس پاور ہے جو ریس میں حصہ لینے کے لیے ناکافی ہے تو اس کے لیے ہم گاڑی کے انجن کی طاقت کو بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں ضروری تبدیلیاں لے کر آتے ہیں۔

گاڑی اور ڈرائیور کے لیے حفاظتی انتظامات

ورکشاپ سے قاسم سعیدی کے گھر پہنچے تو دیکھا کہ انھوں نے اپنے گھر میں ایک سٹور بنا رکھا ہے جہاں وہ اپنی گاڑی کا سارا سامان رکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنے ڈرائیور سے کہا کہ گاڑی کی سیٹیں تبدیل کر دو اور رول کیج بھی لگا دو۔ رول کیج حفاظتی سٹیل کا پائپ ہوتا ہے جو مضبوطی کے ساتھ پوری گاڑی کے اندر نصب کیا جاتا ہے تا کہ اگر تیزرفتاری کے باعث گاڑی اُلٹ جائے تو گاڑی کی چھت اندر نہ دھنس جائے۔

’اس ک علاوہ ہم ایک تہہ پوری گاڑی کے اندر پر آگ نہ پکڑنے والے فوم کی بھی لگاتے ہیں۔ آگ سے بچانے کے علاوہ اس کا یہ فائدہ ہے کہ ریس کے دوران اس سے گاڑی میں دھول اور آواز نہیں آتی۔‘

انھوں نے سیٹ کے سامنے لگا سرخ رنگ کا چھوٹا سا سوئچ دکھاتے ہوئے بتایا کہ یہ کِل سوئچ ہے کہ اگر گاڑی اُلٹ جائے اور آگ پکڑ لے تو پورا الیکٹریکل نظام ایک بٹن دبانے سے بند ہو جاتا ہے۔

اس کے بعد ڈرائیور کے حفاظتی انتظامات سے متعلق بتایا کہ ریس کے دوران عام سیٹ استعمال نہیں ہوتی۔ اس کے لیے خاص سیٹ تیار کی جاتی جو ڈرائیور کے سر سے انچی ہوتی ہے اور سخت ہوتی ہے تاکہ کسی بھی حادثے کی صورت میں ڈرائیور کی گردن کو نقصان نہ پہنچے۔ ’ہم ہیلمٹ کا استعمال کرتے ہیں اور تین پوائنٹس پر سیٹ بیلٹ لگی ہوتی ہے جو آپ کے کندھوں کمر اور ٹانگوں کو مظبوطی سے پکڑے ہوئی ہوتی ہے۔‘

کیا اب یہ گاڑی ریس کے لیے تیار ہے؟

میرے اس سوال پر قاسم سعیدی نے بتایا کہ یہ گاڑی انہوں نے 67 لاکھ روپے کی خریدی تھی اور یہ تمام تبدیلیاں کروا کر اب یہ 90 لاکھ روپے کی گاڑی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس گاڑی کے جیتنے کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ میں نے جو پارٹ استعمال کیے ہیں وہ ریسنگ کے لیے بہترین نہیں اور جبکہ اچھے پارٹس بہت مہنگے ہیں۔ اگر آپ ریس جیتنا چاہتے ہیں تو کم از کم از کم دو کروڑ کی گاڑی تیاری کرنی ہو گی۔

Exit mobile version