پاکستانہفتہ بھر کی مقبول ترین

پاکستان: سوشل میڈیا کے نئے قواعد پر عملدرآمد کتنا مشکل

Share

پاکستان کی وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن نے سوشل میڈیا کمپنیوں کے لیے پاکستان میں نئے قوانین وضع کیے ہیں جن کے تحت ان کمپنیوں کو ملک کے اندر اپنے مستقل دفاتر اور ڈیٹا بیس سرور قائم کرنا پڑیں گے۔

21 جنوری کی تاریخ سے جاری کردہ حکومتی نوٹیفیکیشن کے مطابق حکومتِ پاکستان ایک قومی رابطہ کار کا دفتر بھی قائم کرے گی جو کہ سوشل میڈیا کمپنیوں کے سے رابطے میں حکومت کی نمائندگی کرے گا۔

’شہریوں کو آن لائن نقصان سے بچاؤ کے قواعد’ پاکستانی پارلیمان کی جانب سے 2016 میں منظور کیے جانے والے پاکستان الیکٹرونک کرائم ایکٹ میں شامل کیے گئے ہیں۔

خیال رہے کہ یہ وہی قانون ہے جس کے تحت پاکستان میں سوشل میڈیا پر ایسے مواد کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے جو قومی سلامتی کے منافی ہو یا جس میں اداروں کی تضحیک کی گئی ہو۔

نئے قواعد کیا ہیں اور سوشل میڈیا کمپنیوں کو کیا کرنا ہو گا؟

ان قواعد میں سوشل میڈیا کمپنی کی تعریف میں کسی بھی ایسے مواصلاتی چینل کو شامل کیا گیا ہے جس میں کمیونٹی ان پُٹ، انٹرایکشن، اور مواد کو شیئر کرنے کا نظام ہو۔ نوٹیفیکیشن میں فیس بک، ٹوئٹر، گوگل پلس، یوٹیوب، ڈیلی موشن، انسٹاگرام، سنیپ چیٹ، پنٹرسٹ، لنکڈ ان، ریڈٹ، اور ٹک ٹاک بطور سوشل میڈیا کمپنیوں کی مثال پیش کیا گیا ہے۔

ان قوانین کے تحت حکومت نے سوشل میڈیا کمپنیوں پر جو ذمہ داریاں لاگو کی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:

1. کسی بھی آن لائن مواد کو اگر مجاذ حکام پاکستان کے قوانین کے مخالف پائیں تو سوشل میڈیا کمپنی پر لازمی ہوگا کہ وہ 24 گھنٹوں میں اس کو حذف کریں۔ ہنگامی صورتحال میں سوشل میڈیا کمپنی کو ایسا چھ گھنٹوں میں کرنا ہوگا۔ نیشنل کورڈینیٹر ہی اس بات کا تعین کرے گا کہ ہنگامی صورتحال ہے یا نہیں۔

2. کسی بھی آن لائن مواد کے حوالے سے قومی رابطہ کار کی ہدایات کو سوشل میڈیا کمپنی کے اپنے قواعد و ضوابط پر ترجیح حاصل ہو گی۔

3. سوشل میڈیا کمپنیاں پاکستان کی مذہبی، ثقافتی، نسلی، اور قومی سیکیورٹی کی حساسیت کو سمجھیں گی۔

4. سوشل میڈیا کمپنیاں ایسا نظام بنائیں گی جس کے ذریعے کسی بھی لائیو سٹریمنگ کے دوران کوئی ایسا مواد نشر نہ کر دیا جائے جو کہ پاکستان کے کسی قانون کے خلاف ہو۔

5. سوشل میڈیا کمپنیاں پاکستان میں اپنا دفتر بنائیں جس کا مستقل اندراج شدہ پتا ہو۔

6. سوشل میڈیا کمپنیاں ان قوانین کے اطلاق سے بارہ ماہ کے اندر اندر پاکستان میں اپنے سرورز بنائیں جو کہ پاکستانی حدود میں صارفین کی معلومات اور ڈیٹا سٹور کریں۔

7. سوشل میڈیا کمپنیاں پاکستانی شہریوں کا چاہے وہ بیرونِ ملک ہی کیوں نہ مقیم ہوں، ایسا تمام آن لائن مواد حذف یا آن لائن اکاؤنٹ کو معطل کر دیں گی جو کہ فیک نیوز ہو، اس میں ہتکِ عزت کی گئی ہو یا پاکستان کی مذہبی، ثقافتی، نسلی اور قومی سلامتی کی حساسیت کے خلاف کوئی بات ہو۔

8. پاکستان کے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کی شق 29 کے تحت بنائی گئی کسی بھی تفتیشی اتھارٹی کو سوشل میڈیا کمپنی تمام قسم کی معلومات ایک واضح فارمیٹ میں فراہم کریں گی۔

9. اگر سوشل میڈیا کمپنی ان قوانین کی پاسداری نہیں کرتی تو قومی رابطہ کار کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو ملک میں مکمل طور بند کر دیں۔

کیا ان قوانین پر عملدرآمد ممکن بھی ہے؟

تاحال پاکستان میں جن سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک عوام کو رسائی حاصل ہے، ان کی جانب سے ان قواعد و ضوابط پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے تاہم ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ‘ڈیجٹیل رائٹس فاؤنڈیشن’ کی ایگزيکٹِو ڈائریکٹر، نگہت داد کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کمپنیاں ان قوانین کو نہیں مانیں گی۔

’عالمی سطح پر ایسے قوانین کے بارے میں ان کا رویہ دیکھتے ہوئے میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ میرا نہیں خیال کہ وہ ان قوانین سے اتفاق کریں گے۔ میرا نہیں خیال کہ وہ کبھی اس بات پر مانیں گے کہ وہ پاکستان میں اپنے سرور رکھیں، تمام پاکستانی صارفین کا ڈیٹا ان پر موجود ہو اور وہ حکام کو ان تک رسائی دیں گے۔ یہ سب ان کے اپنے معیار کے خلاف ہے اور وہ ایسا نہیں کریں گے۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’پاکستان میں قانون کی بالادستی کی جو صورتحال ہے اور خاص طور پر انٹرنیٹ کو ریگولیٹ کرنے کی جو کوششیں ہوتی رہتی ہیں اس کے تحت اس طرح کے قوانین بنانا اور جن کا آپ جواز ہیکا اور پی ٹی اے کے تحت پیش کر رہے ہیں، ایسے میں یہ ایک ناممکن سی بات لگتی ہے کہ سوشل میڈیا کمپنیاں یہاں پر اپنے دفاتر کھولیں گی۔‘

نگہت داد نے یہ بھی کہا کہ سوشل میڈیا کمپنیاں دنیا بھر میں کہیں بھی حکومتوں کو صارفین کے بارے میں معلومات نہیں دیتیں۔

’آپ ان سے کہہ رہے ہیں کہ آپ ہمیں رسائی دیں گے اس تمام مواد تک جو پاکستان کے کسی بھی قانون کے تحت غیر قانونی گردانا جائے گا اور آپ کو ہمیں وہ تفصیلات دینی پڑیں گی۔ وہ صارفین کی معلومات بھی ہو سکتی ہیں اور وہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ عام طور پر سوشل میڈیا کمپنیاں ایسی معلومات پوری دنیا میں حکومتوں کو نہیں دیتیں۔‘

اس سوال پر کہ اگر سوشل میڈیا کمپنیاں یہ مطالبات نہیں مانتیں تو پاکستان میں ان کمپنیوں کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے، نگہت داد کا کہنا تھا کہ ’ان نئے قوانین کو غور سے پڑھیں تو وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر کمپنیاں ہماری بات نہیں مانیں گی تو ہم اس پلیٹ فارم کو پاکستان میں بند کر دیں گے۔ تو پھر جب کمپنیاں ان کی بات نہیں مانیں گی تو وہ ایسا ہی کریں گے جیسے انھوں نے یوٹیوب کتنے سال پاکستان میں بند رکھی۔‘

ان قواعد و ضوابط میں مسئلہ کیا ہے؟

ڈیجیٹل حقوق پر کام کرنے والے کارکن اسد بیگ کہتے ہیں کہ ڈیجیٹل پالیسیوں کے حوالے سے پی ٹی آئی کی حکومت ناقابلِ عمل پالیسیاں بنا رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اسی طرح کی ایک پالیسی چند روز پہلے بھی او ٹی ٹی اور ویب ٹی وی کے حوالے سے ایک پالیسی آئی جسے سینیٹ کی ہیومن رائٹس کمیٹی نے روکا اور اس پالیسی میں بھی کوئی منطق نہیں ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ان قوانین میں اس قسم کی چیزیں ہیں کہ سوشل میڈیا کمپنیز اس بات کو یقینی بنائیں کہ لائیو سٹریم کے دوران بھی کوئی فیک نیوز نہ ہو یا کوئی ایسی بات ہو جو قومی سلامتی کے خلاف ہو۔ آپ سوشل میڈیا کمپنیوں پر لازم کر رہے ہیں کہ وہ لائیو سٹریم کو چیک کریں۔ ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ تکنیکی طور پر ناممکن ہے۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستانی قواعد کی پاسداری نہ کرنے کی صورت میں اگر حکام سوشل میڈیا کمپنیوں کی پاکستان میں رسائی بند کر دیتے ہیں تو یہ ملک کی ڈیجیٹل معیشت کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

’اگر ٹوئٹر یا فیس بک پاکستان میں اپنے آپریشنز ختم کر دے تو سوچیں کہ ہماری ڈیجیٹل معیشت کو کتنا نقصان ہوگا۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ان کے دماغ میں چل کیا رہا ہے۔ ایک طرف ڈیجیٹل پاکستان کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف یہ۔

’پی ٹی آئی تو وہ واحد پارٹی تھی جس نے انتخابات جیتنے سے پہلے ہی ایک آئی ٹی پالیسی دی تھی مگر مجھے لگتا ہے کہ اب ان کی سوچ یہ چل رہی ہے کہ ٹیکس لگا کر یا آن لائن مواد کو ریگولیٹ کر کے قلیل المدتی تناظر میں جتنے پیسے کھینچ سکتے ہیں، کھینچ لیں۔

’مگر کیا وہ جانتے بھی ہیں کہ طویل المدتی تناظر میں انھوں نے پاکستان میں ٹیکنالوجی اور انوویشن کے حوالے سے کتنا بڑا نقصان کر دیا ہے۔ بالکل واضح ہے کہ یہ لوگ غیر پیشہ وارانہ طرز کی پالیسی سازی کرتے ہیں۔‘