سائنس

کوڈ مشینیں جو امریکہ، جرمنی کے لیے ’انڈیا، پاکستان اور ایران کی خفیہ معلومات چراتی رہیں‘

Share

ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے امریکی اور جرمن انٹیلیجنس سروسز نے کئی دہائیوں تک دیگر حکومتوں کی خفیہ معلومات ایک انکریپشن کمپنی کے ذریعے حاصل کیں۔

سوئس کمپنی کرپٹو اے جی نے سرد جنگ سے لے کر 2000 کی دہائی تک 120 حکومتوں کو ان کوڈنگ ڈیوائسز (یعنی وہ آلات جو خفیہ پیغامات کو چھپانے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں) فراہم کی تھیں لیکن واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق ان ممالک کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کمپنی کی اصل خفیہ مالک سی آئی اے جس کا مغربی جرمنی کی خفیہ ایجنسی سے اشتراک تھا۔

تاہم اطلاعات کے مطابق ان دونوں اداروں کے جاسوسوں نے ان آلات میں ایک ایسا نظام رکھا جس کے ذریعے وہ ان حکومتوں کے خفیہ پیغامات چوری کر سکتے تھے۔

جن ممالک کے پیغامات چوری کیے گئے ان میں ایران، انڈیا اور پاکستان شامل ہیں۔

امریکی انٹیلیجنس ایجنسی سی آئی اے اور جرمن انٹیلیجنس بی این ڈی کے اشتراک سے معلومات چوری کرنے کے اس انتہائی حساس پروگرام کی تفصیلات امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ، جرمن براڈ کاسٹر ذی ڈی ایف، اور سوئس چینل ایس آر ایف نے شائع کی ہیں۔

ان خبر رساں اداروں کو سی آئی اے کی ایک تاریخی داخلی دستاویز ملی جس میں اس آپریشن کو گذشتہ صدی کے دوران انٹیلیجنس کی دنیا کی سب سے بڑی ’کارروائی‘ قرار دیا گیا۔

1980 کی دہائی میں امریکی حکام نے جن غیر ملکی پیغامات کا جائزہ لیا تھا، اس میں سے تقریباً 40 فیصد کرپٹو مشینز کے ذریعے حاصل کیے گئے تھے اور اس کمپنی نے جو لاکھوں ڈالر منافع کمایا وہ سی آئی اے اور بی این ڈی کو دیا جاتا تھا۔

سی آئی اے کی اس آپریشن کے بارے میں ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ ’غیر ملکی حکومتیں امریکہ اور جرمنی کو اچھی خاصی رقم ادا کر رہے تھے جبکہ ان کی خفیہ معلومات کم از کم دو (اور کچھ کیسز میں پانچ یا چھ) ممالک کو مل جاتی تھیں۔‘

واشنگٹن پوسٹ کے مطابق اس آپریشن کے ذریعے امریکہ نے 1979 میں ایران میں امریکی سفارتکاروں کے بحران کے دوران ایرانی حکام پر نظر رکھی اور فاک لینڈ جنگ کے دوران آرجنٹینا کی فوج کی معلومات برطانیہ کو دیں۔

روس اور چین نے کبھی ان مشینوں پر اعتبار نہیں کیا تھا اور اسی لیے انھیں استعمال نہیں کیا۔

جب 2018 میں ایک سرمایہ کار نے ابتدائی کریپٹو کمپنی کو خرید لیا تو سوئڈش کمپنی کریپٹو انٹرنیشنل وجود میں آئی۔ نئی کمپنی کا کہنا ہے کہ ان کا سی آئی اے اور بی این ڈی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ ان انکشافات سے سخت پریشان ہیں۔

سوئس حکام کا کہنا ہے کہ انھیں اس کیس کے بارے میں گذشتہ سال نومبر میں پتا چلا اور اس حوالے سے انھوں نے ایک ریٹائرڈ وفاقی جج کو تفتیش کے لیے تعینات کیا ہے۔

سوئٹزرلینڈ میں بےچینی

اموجن فوکس، بی بی سی جنیوا

سوئٹزرلینڈ بھر میں چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں۔

ایک سیاسی نامہ نگار کا کہنا ہے کہ ’ہماری ساکھ کی دھجیاں اڑ گئی ہیں۔‘ ایک اور کا کہنا ہے کہ ہماری غیر جانبداری ایک منافقت ہے۔

اصل میں کریپٹو اے جی کی مشکوک ڈیلنگز کے بارے میں کئی سال سے باتیں کی جا رہی ہیں۔ کریپٹو کے سوئس ملازمین کو شک تھا کہ معاملے میں کچھ گڑبڑ ہے۔

سوئس حکومت کو سارا وقت اس آپریشن کا پتا تھا۔ سوئس حکومت ان چند حکومتوں میں سے ایک ہے جس کو ایک ایسی کریپٹو مشین دی گئی جس تک سی آئی اے کی رسائی نہیں تھی۔ مگر اس ساری کہانی کو عالمی میڈیا میں نشر کیا جانا تکلیف دہ ہے۔

یہ سوئس لوگوں کی اپنے بارے میں اس رائے کو بدلنے نہیں دے رہا کہ اچھی قیمت ملے تو وہ کچھ بھی کر لیتے ہیں۔

ایک وقت تھا جب ان کے بینک آمروں کے لوٹے ہوئے اربوں ڈالر رکھتے تھے بغیر یہ دیکھے کہ اس دولت کے حوالے سے بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری کی گئی ہے۔

مگر یہ سب تو ماضی کی کہانی تھی۔ اب سوئس معیشت کا ایک اور سیکٹر پریسیژن انجنیئرنگ بھی متنازع ہوگیا ہے۔

سی آئی اے نے اس کام کے لیے کریپٹو اے جی کا استعمال بھی اس لیے کیا کیونکہ سوئٹزرلینڈ کی غیر جانبداری کا دنیا بھر میں چرچہ تھا اور بہت سی حکومتیں اسی لیے ان کے پاس آتی تھیں۔

سوئٹزرلینڈ نے پیسے لیے اور خراب مشینیں بیچیں۔ اب یہ بات ساری دنیا کو پتا ہے۔

کرپٹو کمپنی کی کہانی

ایک روسی موجد بورس ہیگلن نے ایک پورٹیبل انکرپشن مشین اس وقت تیار کی تھی جب 1940 کی دہائی میں وہ ناروے پر نازی قبضے کے دوران امریکہ فرار ہوئے تھے۔

یہ مشین اس قدر چھوٹی تھی کہ اسے میدانِ جنگ میں فوجیوں کے حوالے کیا جا سکتا تھا۔ 140000 امریکی فوجیوں کو یہ مشینیں دی گئیں۔

Boris Hagelin and his wife fled to the US during World War Two
جب دوسری جنگِ عظیم اختتام پزیر ہوئی تو ہیگلن سوئٹزرلینڈ منتقل ہوگئے۔

مگر جب دوسری جنگِ عظیم اختتام پذیر ہوئی تو ہیگلن سوئٹزرلینڈ منتقل ہوگئے۔

ان کی ٹیکنالوجی اس قدر پیچیدہ ہوگئی کہ امریکی حکومت کو یہ پریشانی لگ گئی کہ وہ دیگر حکومتوں کی خفیہ معلومات چوری نہیں کر سکیں گی۔ تاہم پھر بہترین امریکی کوڈ بریکر ولیم فریڈمن نے ہیگلن کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ جدید ترین مشینیں صرف ان ممالک کو فروخت کریں جن کی امریکہ اجازت دے۔

جو پرانی مشینیں تھیں، جن تک رسائی حاصل کرنا سی آئی اے کو آتا تھا، وہ دیگر حکومتوں کو بیچی گئیں۔

1970 کی دہائی میں امریکہ اور جرمنی نے کریپٹو خرید لی اور اس آپریشن کے تمام تر عناصر بشمول ملازموں کی تقرری، ٹیکنالوجی کا ڈیزائن اور فروخت کی سمت، سبھی کچھ کنٹرول کرنے لگے۔

ماضی میں اس حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کئی بار کیا جا چکا ہے تاہم اس کا ثبوت پہلی مرتبہ سامنے آیا ہے۔