’خوفزدہ ہوتی تھی کہ کپڑوں پر داغ لگ جائے گا‘
سمیرا علی برتن دھو رہی تھیں۔ وہ اپنے گھر کے بڑے سے صحن میں ایک چھوٹے سے سٹول پر نلکے کے پاس بیٹھی تھیں اور ان کے ہاتھ تیزی سے حرکت کر رہے تھے۔ وہ اپنے گھریلو کام جلد از جلد مکمل کرنا چاہتی تھیں تاکہ وہ گھر کے قریب مقامی خواتین کی ایک محفل میں جا سکیں۔
35 برس کی سمیرا کے دو بچے ہیں اور وہ کراچی کے مضافاتی علاقے موواچ گوٹھ میں رہتی ہیں۔ ان کے شوہر ایک فیکٹری میں یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں۔
اس محفل کا اہتمام دو بہنوں ثنا اور سمیرا لوکھنڈوالا کی جانب سے کیا گیا ہے۔ یہ لڑکیاں کراچی کی کچی آبادیوں میں تعلیم کے ذریعے ماہواری سے متعلق غربت ختم کرنے اور خفظان صحت پر آگاہی دینے کے ایک پروجیکٹ ’Her Pakistan‘ پر کام کر رہی ہیں۔
سمیرا پہلے بھی ایک سیشن میں شرکت کر چکی ہیں جو انھیں کافی فائدہ مند لگا تھا۔
سمیرا نے جلدی سے ایک پلیٹ دھوتے ہوئے بتایا ’میں خوفزدہ ہوتی تھی کہ میرے کپڑوں پر داغ لگ جائے گا، خاص طور پر فرش پر بیٹھتے ہوئے یا کچن میں کام کرتے ہوئے۔ اور میں (پیریڈز) کے دوران وزن اٹھانے میں خوف محسوس کرتی تھی۔‘
اپنے کام مکمل کرنے کے بعد سمیرا قریب ہی ایک گھر میں پہنچیں جہاں درجن بھر خواتین پہلے سے ہی موجود تھیں۔
ثنا اور سمیرا اپنے سیشن کی تیاری کر رہی تھیں۔ خواتین شرمائی ہوئی نظر آ رہی تھیں، زیادہ تر نے پردہ کیا ہوا تھا اور ایک دوسرے سے بہت آہستہ آواز میں بات کر رہی تھیں اور وقفے وقفے سے ہنس رہی تھیں۔
ثنا بتاتی ہیں کہ گذشتہ برس انھوں نے ماہوراری پر اس وقت کام کرنا شروع کیا جب انھیں احساس ہوا کہ اس کی وجہ سے لڑکیاں سکول چھوڑ رہی ہیں اور ان کی غیر حاضری بڑھنے لگی ہے۔
یا تو لڑکیاں پُراعتماد محسوس نہیں کرتیں یا ان کے گھر والے انھیں باہر جانے سے روک دیتے ہیں۔
لہٰذا مئی 2018 میں ثنا اور ان کی بہن سمیرا نے ’Her Pakistan‘ کی بنیاد رکھی جس کا مقصد ماہورای اور اس کے دوران حفظان صحت سے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے۔
ثنا نے بتایا ’پاکستان میں ماہواری پر بات کرنا اتنا برا سمجھا جاتا ہے کہ جب ہم کمیونٹیز میں جاتے ہیں تو ہم براہ راست اس پر بات نہیں کرتے۔ ہم عام طور پر جب ایک سیشن شروع کرتے ہیں تو خواتین کی تولیدی صحت سے متعلق عام مسائل پر بات کرتے ہیں اور پھر ماہواری کو سامنے لاتے ہیں۔‘
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے مطابق پاکستان میں تقریباً 50 فیصد خواتین کو اپنے پہلے پیریڈز سے قبل ماہواری سے متعلق کوئی معلومات ہی نہیں ہوتی ہیں اور تقریباً 80 فیصد خواتین اس دوران اپنا خیال رکھنے سے متعلق پُراعتماد نہیں ہوتی ہیں۔
ڈش صاف کرتے ہوئے انھوں نے بتایا ’تاہم اب میں پراعتماد محسوس کرتی ہوں کہ میں بغیر کسی پریشانی کے ہر کام باآسانی کر سکتی ہوں۔‘
’Her Pakistan‘ کی شریک بانی سمیرا کے مطابق ابتدائی طور پر ہمارا خیال یہ تھا کہ چندہ جمع کر کے کراچی کے آس پاس کی کچی آبادی والے علاقوں میں رہنے والی خواتین کو ایک ماہ کے سینیٹری پیڈز فراہم کیے جائیں گے۔
سمیرا کہتی ہیں لیکن انھیں جلد ہی احساس ہو گیا کہ یہ کافی نہیں، زیادہ تر خواتین ماہواری سے متعلق معلومات نہیں رکھتی اور یہ بھی نہیں جانتی کہ اس دوران کیسے اپنا خیال رکھنا ہے۔
وہ بتاتی ہیں ’اس طرح انھوں نے خواتین کو آگاہی دینے سے متعلق سیشنز کا آغاز کیا۔‘
جنوری میں ان دونوں بہنوں نے سکولوں میں بھی یہ پروجیکٹ شروع کیا جہاں وہ لڑکیوں اور ان کے والدین کے ساتھ بلوغت پر سیشنز کا انتظام کرتی ہیں۔
وہ سکولز کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں، اساتذہ کو اس کا حصہ بناتی ہیں اور مستقبل میں بھی یہ بات چیت جاری رکھنے کے لیے تربیت دیتی ہیں۔
ٹیچر ندا امام بخش نے بھی اپنی طالبات کے ساتھ ’Her Pakistan‘ کے زیر اہتمام ایک سیشن میں شرکت کی جس میں والدین کو بھی بلایا گیا تھا۔ لڑکیوں اور والدین کو ماہواری کے بارے میں کھل کر بات کرنے کی اہمیت سےمتعلق آگاہ کیا گیا۔
’والدین کا خیال تھا کہ لڑکیوں سے اس بارے میں اس وقت تک بات نہیں کرنی چاہیے جب تک وہ اس سے گزر نہیں جاتیں۔ لیکن سیشن کے بعد اس بارے میں ان کی رائے بالکل مختلف ہو چکی تھی۔‘
ندا نے بتایا کہ والدین کو بلوغت اور حیض سے متعلق بچیوں کے ساتھ کھل کر گفتگو کرنے کی اہمیت کے بارے میں بتایا گیا۔ وہ کہتی ہیں ’ان کا ردعمل بہترین تھا۔‘
ثنا کا کہنا ہے کہ وہ اپنے پروجیکٹ کے اثرات کا اندازہ تعداد سے نہیں بلکہ ردعمل اور ان سیشنز کے ذریعے رویوں میں آنے والی تبدیلی سے جاننے کی کوشش کرتی ہیں۔
یہ بہنیں اب تک گیارہ کمیونٹیز اور گیارہ سکولوں میں اس بارے میں تعلیم دے چکی ہیں لیکن ان کا یہ سفر آسان نہیں تھا۔
ثنا کہتی ہیں ’پاکستان میں خواتین کے لیے نامعلوم علاقوں میں کام کرنا ہمیشہ ہی مشکل ہوتا ہے، چاہے وہ کتنے ہی محفوظ کیوں نہ ہوں۔‘
’ہم مختلف کمیونٹیز میں اکیلے سفر کرتی ہیں۔ یہ ہمارے لیے بہت مشکل ہے۔ کبھی کبھی ہم بھی خوفزدہ محسوس کرتے ہیں۔‘
چونکہ یہ ایک ممنوع موضوع سمجھا جاتا ہے اس لیے ثنا اور سمیرا سیشنز کے دوران اپنے مرد کولیگز کو ساتھ لے کر نہیں جا سکتیں۔ خواتین مردوں کے سامنے اس بارے میں کھل کر بات کرنے سے کتراتی ہیں۔
یہ بہنیں بتاتی ہیں کہ جب وہ لوگوں سے اس بارے میں بات کرتی ہیں تو بہت بار ان کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا اور کبھی کبھی لوگ ان کے کام کی وجہ سے ان کے بارے میں رائے بھی قائم کر لیتے ہیں۔
’Her Pakistan‘ کی بانیوں کو آن لائن تنگ بھی کیا جاتا ہے جبکہ دھمکیاں بھی ملتی ہیں تاہم ان کی پروجیکٹ کی کامیابی انھیں رکنے نہیں دیتی۔ وہ ماہواری سے متعلق رکاوٹوں کو توڑنے اور خواتین کو معلومات کے ذریعے ان کے جسم پر کنٹرول دینے کے لیے پرعزم ہیں۔ ان کے کام کے اعتراف میں فلاحی ادارے آکسفیم نے انھیں اس سال ایوارڈ سے بھی نوازا ہے۔
موواچ گوٹھ میں سمیرا علی بہت خوش ہیں کہ وہ لوکھنڈوالا بہنوں کے زیر اہتمام اس سیشن میں شریک ہوئیں۔
وہ کہتی ہیں ’اگر ایک ماں جانتی ہو کہ کس طرح (ماہواری کے دوران) اپنا خیال رکھنا ہے تو وہ اپنی بیٹیوں کو بھی یہ معلومات فراہم کرے گی کہ وہ اپنے آپ کو کس طرح صاف رکھ سکتی ہیں۔‘