امریکا نے پاکستان کی جانب سے جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید اور ان کے ساتھی ملک ظفر اقبال کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کے جرم میں دی گئی سزا کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے اہم اقدام قرار دیا ہے۔
گزشتہ روز لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے کالعدم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کے دو مقدمات میں مجموعی طور پر 11 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
حافظ سعید اور ان کے ساتھی ملک ظفر اقبال کو دونوں مقدمات میں ساڑھے5سال، ساڑھے5سال قید اور 15، 15ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی۔
یہ فیصلہ ایک ایسے موقع پر سنایا گیا ہے جب فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی جانب سے آئندہ چند روز میں پاکستان کی گرے لسٹ میں موجودگی کے حوالے سے اہم فیصلہ متوقع ہے۔
امریکا کے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے بیورو نے جمعرات کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اس اقدام کا خیر مقدم کیا۔
بیورو نے سزا کو پاکستان کے مستقبل کی جانب اہم قدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ کالعدم لشکر طیبہ کی جانب سے کیے گئے جرائم پر ان کا احتساب اور عالمی برادری سے کیے گئے وعدوں کے مطابق پاکستان کی جانب سے دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والوں کے خلاف کارروائی جیسے دونوں اقدامات آگے کی جانب ایک قدم ہے۔
بیورو نے ایک اور ٹوئٹ میں کہا کہ وزیر اعظم خان خود یہ کہہ چکے ہیں کہ یہ پاکستان کے بہترین مفاد ہے کہ وہ غیرریاستی عناصر کو اپنی سرزمین استعمال نہ کرنے دے۔
دہشت گردوں کی مالی معاونت کے جرم میں سزا
لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج ارشد حسین بھٹہ نے کالعدم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید اور ان کے ساتھی کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کے دو مقدمات میں 11 سال قید کی سزا سنا دی۔
انہیں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات کے تحت سزا سنائی گئی، جس میں ساڑھے پانچ، ساڑھے پانچ سال قید اور 15، 15 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔
عدالت نے کرمنل پراسیجر کوڈ کی دفعہ 382-بی کے تحت انہیں فائدہ دیا(سزا کی مدت میں کمی) اور ان کے ساتھ ساتھ الانفال ٹرسٹ کے سیکریٹری ملک ظفر اقبال کو بھی اسی جرم میں یکساں سزا سنائی گئی۔
انہیں کالعدم تنظیم کی رکنت، معاونت اور اس سے ملاقاتوں کے جرم میں انسداد دہشت گردی کی دفعہ 11-ایف(2) اور 11-این(جس میں 11-ایچ سے 11-کے تک قابل سزا جرم ہیں)۔
دفعہ 11ایچ کا تعلق دہشت گردی کی غرض سے چندہ اکٹھا کرنے سے ہے، 11-آئی کا تعلق دہشت گردی کے لیے رقم یا دیگر وسائل کے استعمال سے ہے، 11-جے کا تعلق دہشت گردی کے لیے رقم کی دستیابی یقینی بنانے سے جبکہ 11کے منی لانڈرنگ کے حوالے سے ہے۔
حافظ سعید کے خلاف یہ مقدمات پنجاب پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی جانب سے لاہور اور گوجرانوالہ میں درج کیے گئے تھے۔
گوجرانوالہ میں درج کرائے گئے مقدمے کی ابتدائی سماعت گوجرانوالہ کی انسداد دہشت گردی عدالت میں ہوئی تاہم بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ کی ہدایت پر کیس کو لاہور منتقل کردیا گیا۔
دونوں کیسز کے ٹرائل کے دوران عدالت میں 23 گواہان کے بیانات قلمبند کیے گئے۔
یاد رہے کہ 1997 کے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت دہشت گردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کے الزام میں جولائی 2019 میں جماعت الدعوۃ کے صف اول کے 13 رہنماؤں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے تھے۔
محکمہ انسداد دہشت گردی نے پنجاب کے 5 شہروں میں مقدمات درج کرتے ہوئے مؤقف اپنایا تھا کہ الانفال ٹرسٹ، دعوت الارشاد ٹرسٹ، معاذ بن جبل ٹرسٹ وغیرہ جیسی فلاحی تنظیموں اور ٹرسٹ سے اکٹھا ہونے والی رقم اور فنڈز کو جماعت الدعوۃ نے دہشت گردوں کی مالی معاونت کے لیے استعمال کیا۔
محکمہ انسداد دہشت گردی نے ان تنظیموں پر اپریل میں پابندی عائد کردی تھی جہاں تفصیلی تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوئی تھی کہ ان تنظیموں کے جماعت الدعوۃ اور ان کی قیادت سے روابط ہیں۔
اس کے بعد 17 جولائی کو حافظ سعید کو سی ٹی ڈی پنجاب نے دہشت گردی کی مالی معاونت کے الزام میں گوجرانوالہ سے گرفتار کیا تھا اور انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا تھا۔
11 دسمبر 2019 کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزام میں کالعدم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید اور ان کے 4 ساتھیوں پر فرد جرم عائد کی تھی اور رواں سال 6 فروری کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
ایف اے ٹی ایف کا انتباہ
2008 کے ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کے الزام میں اقوام متحدہ اور امریکا نے حافظ سعید کو عالمی دہشت گرد قرار دیا تھا۔
گزشتہ سال فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے پاکستان کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنے وعدوں کے مطابق دہشت گردی کے لیے مالی معاونت اور منی لانڈرنگ جیسے اقدامات کے خلاف کارروائی کرے۔
ملک کے مالیاتی نظام کو لاحق خطرے کے بعد پوری حکومتی مشینری یکدم حرکت میں آ گئی تھی تاکہ اس انتباہ کے دو ماہ کے اندر اندر قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ کیا جا سکے۔
اس دوران بھارت کی جانب سے الزامات عائد کیے گئے کہ پاکستان جماعت الدعوۃ اور اس جیسی 6 دیگر تنظیموں کی معاونت یا انہیں کم خطرہ سمجھتا ہے اور اس الزام کے بعد پاکستان نے پڑوسی ملک کے خدشات کے پیش نظر جماعت الدعوۃ اور اس کی ذیلی تنظیم فلاح انسانیت فاؤنڈیشن پر پابندی عائد کردی تھی۔
اس کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جماعت الدعوۃ، فلاح انسانیت فاؤنڈیشن اور دیگر کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائیاں تیز تر کرتے ہوئے ان کے 100 سے زائد کارکنوں کو گرفتار کر لیا تھا۔
اس دوران ان کالعدم جماعتوں کے 200 سے زائد مدرسوں سمیت دیگر عمارتوں اور اثاثوں کو حکومت نے ضبط کر لیا تھا۔
اس تمام عرصے کے دوران فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی جانب سے پاکستان کی کارکردگی کا سہ ماہی جائزہ لیا جاتا رہا۔
حال ہی میں اکتوبر 2019 میں ایف اے ٹی ایف کی جانب سے لیے گئے جائزے میں کہا گیا تھا کہ پاکستان نے بہت پیشرفت کی ہے اور دہشت گردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کے مکمل خاتمے کے لیے انہیں کچھ اضافی اقدامات کرنے ہوں گے۔
پاکستان اس وقت ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ پر موجود ہے اور اسے کارکردگی بہتر دکھانے کے لیے فروری تک کا وقت دیا گیا تھا۔
2012 میں پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا اور اس کے بعد 3سال تک پاکستان اس گرے لسٹ کا حصہ رہا تھا۔
اس کے بعد پاکستان کو گرے لسٹ سے ہٹا کر ایک 27نکاتی ایکشن پلان پر عملدرآمد کی ہدایت دیتے ہوئے متنبہ کیا گیا تھا کہ اس پر عمل کرنے میں ناکامی کی صورت میں پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈال دیا جائے گا جس میں وہ ممالک شامل ہیں جو اس سلسلے میں تعاون نہ کرتے ہوئے دہشت گردوں کی مالی معاونت کا گڑھ تصور کیے جاتے ہیں۔