سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کو 3 ماہ میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کا فیصلہ کرنے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کی مختلف درخواستوں پر سماعت کی۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن سے متعلق تشکیل دی گئی نئی جے آئی ٹی کی بحالی سے متعلق درخواست پر سماعت کرتے ہوئے عدالتی بینچ میں شامل جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ نئی جے آئی ٹی کے لیے لواحقین کی طرف سے درخواست دی گئی تھی، درخواست گزار کو بھی نوٹس دیا گیا تھاجو اس وقت پیش نہیں ہوئے۔
اپنے ریمارکس میں جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید کہا کہ پنجاب حکومت نے نئی جے آئی ٹی بنانے پر خود رضامندی ظاہر کی تھی جس کے بعد پنجاب حکومت نے جے آئی ٹی تشکیل دی۔تحریر جاری ہے
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کے حکم کو غیر موثرکرنے کے لیے درخواست گزار ہائی کورٹ میں گئے لیکن ہائی کورٹ سپریم کورٹ کا حکم کیسے غیر موثر کرسکتی ہے؟
اس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے نئی جے آئی ٹی بنانے کا کوئی حکم نہیں دیاتھا، پنجاب حکومت نے جو جے آئی ٹی تشکیل دی اس کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے عبوری فیصلے کے خلاف درخواست مسترد کردی اور نئی جے آئی ٹی کو روکنے سے متعلق ہائی کورٹ کا عبوری حکم برقرار رکھا۔
سپریم کورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے فیصلے سے متعلق متاثرین کی اپیلیں نمٹاتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کو کیس کا فیصلہ 3 ماہ میں سنانے کا حکم دے دیا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں کئی زندگیاں چلی گئیں، لوگ زخمی بھی ہوئے، جلد از جلد فیصلہ ہونا چاہیے۔
ساتھ ہی عدالت نے حکم دیا کہ رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ، سپریم کورٹ کا حکم ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے سامنے رکھیں تاکہ مقدمے کے لیے نیا بینچ تشکیل دیا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہائی کورٹ اس کا فیصلہ جلد کرے تاکہ ماڈل ٹاؤن سانحہ منطقی انجام کو پہنچے۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس مارچ میں لاہور ہائی کورٹ کے فُل بینچ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی نئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے خلاف درخواستیں قابل سماعت قرار دیتے ہوئے ٹیم کو کام کرنے سے روک دیا تھا۔
واضح رہے کہ 5 دسمبر 2018 کو پنجاب حکومت نے ماڈل ٹاؤن کیس میں ازسرِنو تحقیقات کے لیے نئی جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کیا تھا، جس کے بعد سپریم کورٹ میں اس سے متعلق درخواست نمٹا دی گئی تھی۔
پنجاب حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں آئی جی موٹروے اے ڈی خواجہ کی سربراہی میں نئی جے آئی ٹی تشکیل دی تھی۔
کمیٹی کے دیگر اراکین میں آئی ایس آئی کے نمائندے لیفٹیننٹ کرنل محمد عتیق الزمان، ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کے لیفٹیننٹ کرنل عرفان مرزا، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) محمد احمد کمال اور ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹرز پولیس گلگت بلتستان قمر رضا شامل ہیں۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے وقت کے وزیر اعظم نواز شریف سے تحقیقات کا فیصلہ کیا تھا اور احتساب عدالت کی اجازت کے بعد لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں ان سے دو گھنٹے تفتیش کی تھی جبکہ سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا بھی بیان ریکارڈ کیا تھا۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن
یاد رہے کہ 17 جون 2014 کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاون میں تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکریٹریٹ اور پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے سامنے قائم تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کیا گیا تھا۔
آپریشن کے دوران پی اے ٹی کے کارکنوں نے مزاحمت کی تھی اور ان کی پولیس کے ساتھ جھڑپ ہوئی تھی جس کے نتیجے میں 14 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ 90 کے قریب زخمی بھی ہوئے تھے۔
درخواست گزار بسمہ امجد نے اپنی والدہ کے قتل کے خلاف سپریم کورٹ کے انسانی حقوق سیل میں درخواست دائر کی تھی اور واقعے کی تحقیقات کے لیے نئی جے آئی ٹی بنانے کی استدعا کی تھی۔
عدالت عظمیٰ کی جانب سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لیے 5 رکنی لارجر بینچ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار، جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس فیصل عرب اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل پر مشتمل تھا۔
یہ بھی یاد رہے کہ 2014 میں ہونے والے ماڈل ٹاؤن سانحے کی تحقیقات کے لیے قائم کمیشن نے انکوائری رپورٹ مکمل کرکے پنجاب حکومت کے حوالے کردی تھی، جسے منظرعام پر نہیں لایا گیا۔
تاہم بعد ازاں عدالت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ منظر عام پر لانے کا حکم دیا تھا، جس کے بعد حکومت جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو منظر عام پر لے آئی تھی۔