کچھ لوگ اس کا اظہار پھولوں سے کرتے ہیں تو کچھ چاکلیٹوں سے، مگر لگتا ہے کہ اب زیادہ تر لوگ پاؤنڈ لینڈ سے خریدی گئی انگوٹھیاں اپنی محبت کے اظہار کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
پاؤنڈ لینڈ ایسا برطانوی سٹور ہے جہاں زیادہ تر اشیا صرف ایک پاؤنڈ کی قیمت پر دستیاب ہوتی ہیں۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ ایک پاؤنڈ قیمت کی ’بلنگ رنگز‘ اور ’مین بینڈز‘ کا مقصد یہ ہے کہ انھیں باقاعدہ انگوٹھیوں کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جائے۔
اس ڈسکاؤنٹ سٹور نے بی بی سی کو بتایا کہ اس نے رواں سال ویلنٹائنز ڈے سے قبل منگنی کی تقریباً 40 ہزار انگوٹھیاں فروخت کی ہیں جو کہ گذشتہ سال کی تعداد سے دو گنا زیادہ ہے۔
تحقیقی فرم سیوی کے مطابق گذشتہ سال ویلنٹائنز ڈے پر لوگوں نے 85 کروڑ 30 لاکھ پاؤنڈ تک صرف کیے جو کہ سال 2018 کے مقابلے میں 7.8 فیصد زیادہ ہے، چنانچہ حیرانگی کی بات نہیں کہ رواں سال بھی دکانیں اس موقع سے بھرپور نفع اٹھانے کی کوشش میں ہیں۔
پاؤنڈ لینڈ کا کہنا ہے کہ اس کی ویلنٹائنز ڈے پروڈکٹس کی رینج اب تک کی سب سے بڑی رینج ہے جس میں خوشبوؤں سے لے کر ’بالغان کے‘ گفٹ کارڈ تک 80 سے زائد اشیا شامل ہیں۔
اور مارکس اینڈ سپینسر نے بھی دل کی شکل کی ’لوو ساسیج‘ کی ترکیب دوبارہ متعارف کروائی ہے جب کہ ایسا کھیرا بھی متعارف کروایا ہے جسے دل کی شکل کے ٹکڑوں میں کاٹا جا سکتا ہے۔
ریٹیل تجزیہ کار کیٹ ہارڈکیسل نے کہا کہ ریٹیلرز کے لیے ویلنٹائنز ڈے جیسے مواقع نہایت اہم ہوتے ہیں کیونکہ اس دوران گاہک دکانوں کی طرف راغب ہوتے ہیں جہاں وہ اکثر بلا سوچے سمجھے چیزیں خرید لیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ رواں سال کے ویلنٹائنز ڈے سے وہ معاشی سست روی بھی ختم ہوگی جس سے نکلنے کے لیے کئی کاروبار جدوجہد کر رہے ہیں۔
ریستوران، پھول فروش اور گفٹ کارڈ بنانے والی کمپنیوں کو اس سے خاص طور پر فائدہ ہوگا کیونکہ 14 فروری ان کے لیے سال کا مصروف ترین دن ہوسکتا ہے۔
آن لائن پھول فروش کمپنی انٹرفلورا نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ عام دنوں کے مقابلے میں ویلنٹائنز ڈے پر 15 گنا زیادہ گلدستے ڈیلیور کریں گے۔ ان کے لیے یہ فی سیکنڈ تین گلدستوں کے برابر ہے۔
اس کے علاوہ آن لائن ٹیبل بکنگ پلیٹ فارم کوانڈو ہے جس پر کسی عام جمعے کے مقابلے میں ویلنٹائنز ڈے کے لیے بکنگز میں رواں سال 160 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
مگر اسے عام دنوں کے مقابلے میں زیادہ منسوخیوں کی بھی امید ہے۔
تجزیہ کار رچرڈ ہیمن کہتے ہیں کہ ریٹیلرز نے ایک طویل عرصے تک ویلنٹائنز ڈے کے لیے خصوصی کوششیں کی ہیں لیکن اب اس دن کی اہمیت بلیک فرائیڈے کے قریب تر بھی نہیں ہے۔
انھیں یہ بھی لگتا ہے کہ اب کمپنیاں ویلنٹائنز ڈے پر گاہکوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے پہلے سے زیادہ ’بے تاب اقدامات‘ کر رہی ہیں۔
’مجھے لگتا ہے کہ جب بھی فروخت میں سست روی آتی ہے تو بے چینی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اور ایسے وقتوں میں صنعت کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ایونٹس تلاش کیے جائیں جن کو بنیاد بنا کر پروموشن کی جا سکے۔‘
مگر تمام تحفظات کے باوجود ریٹیلرز کی کوشش ہے کہ اس دن سے زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے کے لیے نت نئے طریقے ڈھونڈے جائیں۔
مثال کے طور پر کارڈ کمپنی مون پِگ نے بی بی سی کو بتایا کہ اپنے پسندیدہ پالتو جانوروں کے لیے بنائے گئے اس کے کارڈز کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔
جبکہ اس کی حریف کمپنی کارڈ فیکٹری نے بتایا کہ پہلے سے کہیں زیادہ لوگ صرف اپنے شریکِ حیات کے بجائے اپنے دوستوں اور خاندان کے افراد کے ساتھ ویلنٹائنز ڈے منا رہے ہیں۔
اس دوران پاؤنڈ لینڈ کی کوشش ہے کہ گھر سے باہر نکلنے میں لوگوں کی ہچکچاہٹ سے فائدہ اٹھایا جائے۔ یہ ہچکچاہٹ گذشتہ چند سالوں میں ریسٹورینٹس اور شراب خانوں میں فروخت میں کمی سے عیاں ہے۔
کمپنی نے بتایا کہ وہ اس سال بھی رومانوی ڈیکوریشن فروخت کریں گے تاکہ جوڑے اپنے گھر کا ماحول بھی دل فریب بنا سکیں۔
کمپنی کی ایک ترجمان نے بتایا کہ ’کئی برطانوی شہری ویلنٹائنز ڈے پر پرہجوم اور مہنگے ریسٹورینٹس میں اپنی کمائی ضائع کرنے کے بجائے گھر پر آرامدہ اور رومانوی راتیں گزارنا پسند کرتے ہیں۔‘