پاکستان پولیس کے سینئر افسر سپرنٹینڈنٹ پولیس مفخر عدیل بدھ کے روز لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن سے ’لاپتہ‘ ہو گئے ہیں۔
لاہور پولیس کے سربراہ نے کہا ہے کہ پولیس افسر مفخر عدیل اغوا نہیں ہوئے ہیں بلکہ وہ ’لاپتہ‘ ہیں۔ تاہم ابھی تک (ایس ایس پی) مفخر عدیل کے لاپتہ ہونے کا مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔
پولیس افسر کے لاپتہ ہونے سے متعلق جب بی بی سی نے سی سی پی او لاہور ذوالفقار حمید سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ وہ فی الحال اس کیس پر کوئی رائے نہیں دینا چاہتے۔
جب بی بی سی نے اس کیس کے حوالے سے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ایس ایس پی مفخر عدیل نے چند روز قبل فیصل ٹاون کے علاقے میں ایک گھر کرائے پر لیا۔ اہل علاقہ کے مطابق ان کی سرکاری گاڑی اکثر آتی جاتی دکھائی دیتی تھی۔
ایس ایس پی مفخر عدیل لاہور میں پنجاب کانسٹیبلری بٹالین کے کمانڈر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے تھے۔
ماضی میں وہ دیگر عہدوں پر بھی کام کر چکے ہیں جن میں لاہور میں ایس پی سول لائنز ڈویژن، ایس پی سکیورٹی (لاہور ہائی کورٹ) اور ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے کے عہدے شامل ہیں۔
مفخر عدیل کے لاپتہ ہونے سے دو دن قبل ان کے قریبی دوست اور سابق اسسٹنٹ اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ شہباز احمد تتلا کے اغوا کا مقدمہ درج ہوا تھا جو گذشتہ 6 روز سے لاپتہ تھے۔
سابق اسسٹنٹ اٹارنی جنرل شہباز احمد کے بھائی نے10 فروری کو لاہور کے نصیر آباد پولیس اسٹیشن میں میں درج کرایا تھا۔ شہبار احمد کے اغوا کے کیس میں پولیس کو ایس ایس پی مفخرعدیل کی معاونت درکار تھی لیکن وہ خود ہی ’لاپتہ‘ ہو گئے۔
فیصل ٹاؤن کے اس گھر کے سامنے ایک پارک ہے جہاں کچھ لوگ کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ بی بی سی نے جب ان افراد سے گفتگو کی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے کی وجہ سے خاصے پریشان ہیں۔
ایک شخص نے بتایا کہ وہ پچھلے 25 سال سے اس علاقے میں رہائش پذیر ہیں اور جو گھر مفخر عدیل نے کرائے پر لیا وہ کسی ڈاکٹر کا تھا۔ جبکہ کچھ عرصہ پہلے ان کی وفات ہوئی جس کے بعد ان کے بھائی نے یہ مکان کرائے پر دینا شروع کر دیا۔
معاملے کی ابتدائی تحقیقات
علاقے کے ایک اور شخص نے بتایا کہ یہ مکان آٹھ دن پہلے کرائے پر لیا گیا، تاہم یہاں سرکاری نمبر کی گاڑی دن میں کافی مرتبہ چکر لگاتی تھی۔
جس گاڑی کا نمبر انھوں نے بتایا وہ گاڑی ایس ایس پی مفخر عدیل کو ہی الاٹ کی گئی ہے۔
اہل محلہ کے مطابق 8 فروری کو کچھ لوگ آئے تھے اور 10 فروری کو اس گھر سے عجیب سی بدبو آنے لگی۔ جب اہل علاقہ نے ان کے ایک ملازم سے اس ’بدبو‘ کے بارے میں پوچھا تو جواب ملا کہ ’یہاں باربی کیو کیا گیا تھا۔‘
علاقے کے ایک اور مکین نے بی بی سی کی نامہ نگار کو بتایا کہ تعفن پھیلنے کے بعد اس گھر سے ایک شخص ان کے پاس آیا اور پوچھا کہ سرکاری پانی کس وقت آتا ہے؟ جب انھیں بتایا گیا کہ سرکاری پانی دن بارہ بجے آتا ہے تو وہ شخص چلا گیا اور تھوڑی ہی دیر بعد واسا کی ایک گاڑی پانی لے کر آئی اور اس پانی سے گھر کی دھلائی کی گئی۔ اگلے روز اہل محلہ نے پولیس کو اطلاع دی کہ اس گھر میں کوئی مشکوک افراد آتے جاتے ہیں۔
پولیس کا مؤقف
کچھ دیر بعد پولیس اور فرانزِک ٹیمیں اس گھر پر پہنچ گئیں اور شواہد اکھٹے کرنے شروع کر دیے۔
پولیس ذرائع کے مطابق ایس ایس پی مفخر عدیل اور شہباز احمد تتلا گہرے دوست تھے اور دونوں کا تعلق نارووال سے ہے۔
سی سی پی او لاہور ذوالفقار حمید نے بی بی سی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’ایس ایس پی مفخر عدیل کے دوست شہباز احمد پہلے سے ہی لاپتہ تھے۔ ان کے گھر والوں نے اغوا کا پرچہ درج کروایا تھا۔ اس کیس کی تحقیقات جاری تھیں تو اسی دوران ایس ایس پی بھی لاپتہ ہو گئے۔‘
لاہور کے فیصل ٹاون میں کرائے پر گھر لیے جانے سے متعلق سوال پر سی سی پی او لاہور نے کہا کہ وہ اس بارے میں کوئی رائے نہیں دینا چاہتے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا ’مفخر عدیل کی گاڑی لاہور کے ایک علاقے سے مل گئی ہے۔ تاہم ابتدائی تحقیقات کے مطابق ایسے کوئی شواہد نہیں ملے جس سے یہ کہا جا سکے کہ ایس ایس پی مفخر کو اغوا کیا گیا ہے جبکہ وہ لاپتہ ہیں اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ شخص اپنی مرضی سے بھی کہیں جا سکتا ہے۔ تاہم ہم قانون کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں اور مختلف پہلوؤں سے اس کیس پر غور کر رہے ہیں۔`