دنیا بھر کے سائنسدان تقریباً نصف صدی سے مردوں کے استعمال کے لیے مانع حمل گولیوں کی تیاری پر کام کر رہے ہیں اور اس کے متعلق بہت ساری رپورٹس بھی نظر آتی ہیں لیکن ابھی تک یہ گولیاں میڈیکل سٹورز تک نہیں پہنچی ہیں۔
لیکن انڈین محققین نے حال ہی میں دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے دنیا کا پہلا مردوں کے لیے بنایا گیا مانع حمل انجکشن تیار کر لیا ہے جو مردوں کو باپ بننے سے روک سکے گا۔
اس انجکشن کو انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) نے تیار کیا ہے۔ آئی سی ایم آر میں تحقیق کرنے والے ڈاکٹر آر ایس شرما کا کہنا ہے کہ یہ انجکشن صرف ایک بار دیا جائے گا اور وہ 13 سال تک مانع حمل کا کام کرے گا۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ سائنسدانوں نے ایسا دعویٰ کیا ہو۔ اس سے قبل چند امریکی محققین نے کلینکل انڈوکرائنولوجی اینڈ میٹابولزم نامی جریدے میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں ہارمونز پر مشتمل ایک ایسا انجکشن تیار کرنے کا دعوی کیا تھا جو 96 فیصد تک موثر ہو سکتا تھا۔
یہ انجکشن کس طرح کام کرے گا اور اس کا طریقہ استعمال کیا ہوگا؟ یہ جاننے کے لیے بی بی سی کی نامہ نگار سوشیلا سنگھ نے آئی سی ایم آر کے محقق ڈاکٹر آر ایس شرما سے بات چیت کی۔
سائنس دان ڈاکٹر آر ایس شرما کا کہنا ہے کہ اس انجکشن کے لیے پانچ ریاستوں دہلی، ہماچل پردیش، جموں، پنجاب اور راجستھان میں لوگوں پر کلینیکل ٹرائلز (طبی تجربے) کیے گئے اور اس کے لیے ایسے مردوں کو منتخب کیا گیا تھا جن کے پہلے سے دو بچے تھے۔
ڈاکٹر شرما نے بتایا کہ اس کے لیے انھوں نے ’اپنے مختلف مرد فیملی پلاننگ مراکز میں نس بندی کی خواہش لے کر آنے والے 300 سے زیادہ ایسے افراد کو منتخب کیا جو صحت مند ہوں، باپ بننے کے لائق ہوں، ان کی اہلیہ بھی صحت مند ہوں کیونکہ یہ یکطرفہ عمل نہیں ہے۔ ہم جو ٹیسٹ مردوں کے لیے کرتے تھے وہی سارے ٹیسٹ ان کی پارٹنر میں بھی کرتے تھے۔‘
انھوں نے بتایا کہ 700 سے زیادہ افراد سے اس میں شرکت کے لیے رجوع کیا گیا تھا لیکن ان کے پیمانے پر صرف 315 افراد اترے جنھوں نے رضاکارانہ طور پر اس میں شرکت کی حامی بھری۔
ڈاکٹر شرما نے یہ انکشاف بھی کیا کہ آئی سی ایم آر سنہ 1984 سے ہی اس انجکشن پر کام کر رہا تھا اس میں استعمال ہونے والے پولیمر کی نشوونما آئی آئی ٹی کے پروفیسر ایس کے گوہا نے کی تھی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ کیسے کام کرتا ہے تو انھوں نے کمپیوٹر پر گرافکس کی مدد سے دکھایا کہ مردوں کے سکروٹم کے واس کو نکال کر ٹیسٹیکل ٹیوب کے اندر پروفیسر گوہا کے تیار کردہ پولیمر کو سوئی کے ذریعے داخل کیا جاتا ہے۔
انھوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ چونکہ ’یہ پولیمر بایو ایکٹو ہے اس لیے جب مادہ منویہ اخراج کے لیے نکلتا ہے تو یہ سرگرم ہو جاتا ہے اور اسے ختم کرنے لگتا ہے یہاں تک اس پولیمر سے گزر کر جب مادہ منویہ باہر آتا ہے تو وہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہوتا ہے، ان میں کوئی قوت نہیں رہ جاتی اور وہ ایک طرح سے مردہ مواد ہوتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ویسیکٹومی یا نسبندی میں ٹیسٹیکل ٹیوب کا ایک حصہ کاٹ کر ہٹا دیا جاتا ہے جبکہ اس طریقۂ علاج میں انجیکشن دیا جاتا ہے اور وہاں پولیمر کام کرنے لگتا ہے۔
بی بی سی نمائندہ سوشیلا سنگھ نے دریافت کیا کہ یہ انجیکشن 13 سال تک کے لیے ہے اور اگر درمیان میں کوئی شخص پھر سے باپ بننا چاہے تو کیا ہو گا؟
ڈاکٹر آر ایس شرما نے بتایا ’اس کے لیے ہم نے جہاں انجیکشن دیا ہوتا ہے وہاں اس پولیمر کو تحلیل کرنے والی دوا سوئی سے ڈال دیتے ہیں جس سے پولیمر حل ہو کر باہر نکل آتا ہے اور پھر مادہ منویہ کے لیے وہاں سے رکاوٹ صاف ہو جاتی ہے اور اس طرح کوئی پھر سے باپ بن سکتا ہے۔‘
ان سے جب پوچھا گیا کہ آپ اسے دنیا کا پہلا مردوں کا مانع حمل کہہ رہے ہیں تو آپ کے پاس اس کا کیا جواز ہے تو انھوں نے بتایا ’ابھی تک دنیا میں کہیں بھی مردوں کا مانع حمل تیسرے مرحلے یعنی کلینیکل ٹرائل تک نہیں پہنچ سکا ہے۔ مارکیٹ میں آنا تو دور کی بات ہے۔‘
ایلبنی میڈیکل کالج کی پروفیسر لیزا کیمپو۔انگلسٹائن نے بی بی سی پر شائع اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے ’سرمایہ کاری کی کمی اور مردوں کی عدم دلچسپی کے سبب مردوں کی مانع حمل گولیوں کی تیاری بڑے پیمانے پر نہیں ہو سکی ہے۔ اس کے علاوہ ابھی بھی خواتین سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ حمل نہ ٹھہرنے کی ذمہ داری اٹھائیں۔‘
بہرحال ڈاکٹر شرما نے بتایا کہ بہت جگہ پر دوسرے مرحلے تک یہ کام ہوا ہے لیکن کلینیکل ٹیسٹ تک بات نہیں پہنچی ہے۔
اب یہ دوا یا انجکشن کس سطح پر ہے؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر شرما کا کہنا تھا کہ حکومت نے ان کے ادارے کو جو ذمہ داری دی تھی وہ انھوں نے پوری کر دی ہے۔ ہم نے اپنی رپورٹ حکومت اور متعلقہ ادارے کو دے دی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اب یہ دوا منظوری کے لیے ڈرگ کنٹرولر جنرل آف انڈیا یا ڈی جی سی آئی کے پاس گئی ہے جس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا کہ کون سی کمپنی اسے بنائے گی اور یہ لوگوں تک کیسے پہنچے گی۔