Site icon DUNYA PAKISTAN

وہ فلمی کہانیاں جو اب فلمی نہیں رہیں

Share

میری نسل شاید وہ آخری تھی جس نے سینما میں بلیک اینڈ وائٹ ہندی اردو فلمیں دیکھیں۔ ان فلموں میں کچھ کردار ایسے تھے جن کے بارے میں کسی پیش گوئی یا اندازے لگانے کی ضرورت نہیں تھی۔

مثلاً ولن ہے تو ہوس کا پچاری ہی ہوگا۔ غریب باپ ہے تو مالی، خانساماں یا ڈرائیور ہوگا، امیر شوہر ہے تو بچوں اور بیوی سے بے اعتنائی برتتا ہوگا اور کسی نہ کسی اگلے سین میں سیلیپنگ گاؤن میں ملبوس گول سیڑھیوں سے نیچے اترتے ہوئے ’ٹھہرو یہ شادی نہیں ہو سکتی‘ ضرور کہے گا۔

انہی سٹیریو ٹائپ کرداروں میں دو بچے بھی ہوتے تھے جو ہر تیسری بلیک اینڈ وائٹ فلم میں میلے میں بچھڑ جاتے تھے۔ ایک کی پرورش کوئی ٹانگے یا ٹھیلے والا کرتا اور دوسرا کسی لاولد جوڑے کے حصے میں آ جاتا جو شروع شروع میں اس کی ناز و نعم سے پرورش کرتا لیکن جیسے ہی ان کا اپنا بچہ ہوتا تو پھر گود لینے والی ماں کے اندر سے ایک سوتیلی ماں نکل آتی جو لاوارث بچے کو مسلسل اذیت و ذلت میں رکھتی اور اپنی کوکھ کے بچے پر سارا پیار نچھاور کر دیتی اور شوہر بے بس بھیگی بلی بنا یہ تماشا دیکھتا رہتا۔

ہم اب تک یہی سمجھتے رہے کہ یہ فلمی کہانیاں ہیں۔ تھوڑا سا ڈرامہ اور مبالغہ آرائی فلم بیچنے کی مجبوری ہوتی ہے۔ ایسے تھوڑی ہوتا ہے کہ کوئی اپنے والدین یا بچوں کو لاوارث چھوڑ دے۔ مغرب میں ایسا ہوتا ہوگا جہاں انفرادی زندگی کے تقدس کے نام پر سماجی بے حسی قابلِ قبول ہے۔ ہمارے مشرق میں تو والدین اور بزرگوں کا اعلیٰ مقام ہے اور بچوں کے لیے تو ان کے والدین، چچا، ماموں، ممانی، دادی نانی بہت کرتے ہیں۔

مگر بری خبر یہ ہے کہ ہمیں اپنے ارد گرد کی خبر ہی نہیں۔ اب سے تیس برس پہلے تک ہم بس یہ سنتے تھے کہ جائیداد کے جھگڑے میں اولاد نے باپ کو یا ایک بھائی نے دوسرے بھائی یا بہن کو کسی طرح پاگل قرار دے کر ذہنی امراض کے ہسپتال میں جمع کرا دیا۔ اب اس کی ضرورت نہیں۔

بڑے شہروں میں کئی اولڈ ایج مراکز بن گئے ہیں جہاں بچے اپنے بوڑھے والدین کو رضاکاروں کے رحم و کرم پر زندگی کے آخری برس گزارنے کے لیے چھوڑ جاتے ہیں اور کبھی کبھار آ کر مل بھی لیتے ہیں۔ سماج نے بھی رفتہ رفتہ اس رویے کو نئے نارمل کے طور پر قبول کر لیا ہے۔ گھر کی تنگی کبھی بھی مسئلہ نہیں تھی۔ مگر اب دل تنگ ہو گئے ہیں۔

چار ماہ قبل لاہور ہائی کورٹ میں ایک ادھیڑ عمر خاتون نے درخواست دائر کی کہ اس کے بھائی اور بھابھی میں طلاق ہو گئی، دونوں نے الگ الگ شادی کر کے دوبارہ گھر بسا لیا مگر اپنے تین بچوں کو میرے پاس چھوڑ دیا۔ میں نے ایک حد تک تو ان بچوں کی دیکھ بھال کی لیکن اب میں عمر کے اس حصے میں ہوں اور معاشی طور پر ہاتھ اتنا تنگ ہے کہ میں ان بچوں کو نہیں پال سکتی لہٰذا عدالت یا تو ان بچوں کو ریاست کے حوالے کرے یا والدین کو ان کی نگہداشت کے لیے پابند کرے۔

سات سالہ اشعر (بائیں) اور پانچ سالہ شہریار کے والدین کو شہریار کے علاج کے لیے انھیں انگلینڈ لے جانا پڑا تو اشعر کو ان کی دادی کے پاس چھوڑا تھا۔ اب اشعر ایک یتیم خانے میں ہیں۔

وہ خاتون اپنے ان تینوں بھتیجوں کو بھی ساتھ لائی تھیں۔ پانچ سے دس بارہ برس کے ان ہکا بکا بچوں کو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ عدالت نے پولیس کو حکم دیا کہ وہ اگلی پیشی پر والدین کو پیش کرے۔ یہ خبر گذشتہ برس نومبر کی ہے۔ معلوم نہیں اس کے بعد اس قصے کا کیا ہوا۔

دوسرا قصہ کل ہی اخبار ڈان میں بی بی سی نیوز کے حوالے سے پڑھا جس سے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ آج کی ریاستِ مدینہ کی اجتماعی و انفرادی حالت کیا ہو چلی ہے۔

لاہور کے امین الرشید اور انیلہ امین کے دو بچے ہیں۔ سات سالہ اشعر اور پانچ سالہ شہریار۔ خبر سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کوئی متوسط یا نیم متوسط خاندان ہے۔ چھوٹے شہریار کو کوئی ایسی پیچیدہ بیماری ہو گئی کہ اس کا گردن سے نیچے کا جسم مفلوج ہوتا چلا گیا۔ لاہور کے ڈاکٹروں نے کہا کہ اس کی تشخیص اور علاج پاکستان میں ممکن نہیں۔چنانچہ والدین نے کسی نہ کسی طرح پیسے جمع کیے اور برطانیہ کے شہر کارڈف میں علاج کے لیے فیملی ویزہ اپلائی کر دیا۔ والدین اور مریض بچے شہریار کو ویزہ مل گیا مگر اس کے سات سالہ بھائی اشعر کو ویزہ نہیں ملا۔

گذشتہ برس اپریل میں سات سالہ اشعر کو دادی کے پاس چھوڑ کر یہ تینوں برطانیہ آ گئے۔ دادی نے کچھ ماہ تک تو اشعر کا خیال رکھا مگر پھر اپنی عمر رسیدگی کے سبب انہوں نے اشعر کو یتیم خانے میں داخل کروا دیا۔ اب وہ پچھلے تین ماہ سے یتیم خانے میں ہے جبکہ اس کے والدین کارڈف میں اس کے چھوٹے بھائی کا علاج کروا رہے ہیں۔

برطانوی سفارت کاروں نے سات سالہ اشعر کو ویزہ کیوں نہیں دیا۔ یہ وہ جانیں۔ مگر کیا کوئی پھوپھا، پھوپھی، ماموں، چچا، خالہ حتیٰ کہ کوئی نیک دل ہمسایہ بھی نہیں تھا جو دادی سے کہہ سکتا کہ ماں جی آپ اشعر کو یتیم خانے میں داخل نہ کروائیں یہ بچہ ہمارے پاس رہ لے گا۔ کچھ مہینوں کی ہی تو بات ہے۔ آخر ہمارے بچے بھی تو پل رہے ہیں یہ بھی پل جائے گا۔

مشکل یہ ہے کہ ایسی کہانیاں اب فلموں میں بھی آنا بند ہو گئی ہیں۔

Exit mobile version