ناسا کے خلائی جہاز کے مشاہدوں سے سیاروں کی پیدائش کا نیا نظریہ پیش
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ہمارے نظامِ شمسی کے سیاروں کے وجود میں آنے کے متعلق موجودہ نظریے کو ‘فیصلہ کن طور پر’ رد کردیا ہے۔
موجودہ نظریہ یہ ہے کہ مادہ ہیجانی انداز میں ایک دوسرے سے ٹکرا کر بڑے سے بڑے ٹکڑوں کی شکل اختیار کرتا رہا یہاں تک کہ سیارے وجود میں آ گئے۔
مگر نئے تحقیقی نتائج یہ بتاتے ہیں کہ یہ مرحلہ اتنا پرتصادم نہیں تھا جبکہ مادے نے ایک دوسرے سے آہستہ آہستہ جڑ کر سیاروں کی شکل اختیار کی۔
یہ تحقیق جریدے ‘سائنس’ میں شائع ہو رہی ہے اور اسے سیاٹل میں امیریکن ایسوسی ایشن فار ایڈوانسمنٹ آف سائنس کی میٹنگ میں پیش کیا جا چکا ہے۔
اس تحقیقی مطالعے کے مرکزی محقق ڈاکٹر ایلن سٹرن نے کہا کہ یہ دریافت ‘زبردست اہمیت’ کی حامل ہے۔
“انھوں نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ‘1960 کی دہائی کے اواخر سے غالب نظریہ یہی تھا کہ مادے کے درمیان تصادم ہوا اور حال ہی میں آہستگی سے مادے کے جمع ہونے کا نظریہ ابھرا ہے۔ ایک نظریہ مٹی ہوچکا ہے اور دوسرا اب بھی قائم ہے۔ سیاروں کے علوم میں ایسا کم ہی ہوتا ہے مگر آج ہم نے معاملہ نمٹا دیا ہے۔’
یہ دعویٰ ایک تفصیلی تحقیق کے بعد سامنے آیا ہے جس میں نظامِ شمسی کے دور دراز حصے میں موجود ایک چیز کا مطالعہ کیا گیا۔ ایروکوتھ نامی یہ جسم سورج سے چھ ارب کلومیٹر دور کائپر بیلٹ نامی حصے میں تیر رہا ہے۔ یہ سیاروں کے وجود میں آنے کی حیرت انگیز باقیات میں سے ہے جب 4.6 ارب سال قبل نظامِ شمسی وجود میں آیا تھا۔ ایروکوتھ دو اجسام کے مل کر ایک بڑا جسم بننے سے وجود میں آیا۔
سائنسدانوں نے ایروکوتھ کی ہائی ریزولوشن تصاویر اس وقت حاصل کیں جب قریب ایک سال قبل ناسا کا نیو ہورائزنز خلائی جہاز اس کے پاس سے گزرا تھا۔ اس سے سائنسدانوں کو یہ پرکھنے کا پہلا موقع ملا کہ سیاروں کے وجود میں آنے سے متعلق کون سا نظریہ درست ہے: کیا ایروکوتھ دو ٹکڑوں کے آپس میں ٹکرانے سے وجود میں آیا یا یہ دونوں اجسام آپس میں آہستگی سے ملے۔
ڈاکٹر سٹرن اور ان کی ٹیم کو پرتشدد تصادم کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ انھیں تناؤ سے پیدا ہونے والی کوئی دراڑیں نہیں ملیں اور نہ ہی کسی جسم کے سپاٹ ہونے کے نشانات نظر آئے جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ یہ دونوں اجسام سست روی سے ایک دوسرے میں ضم ہوئے۔
ڈاکٹر سٹرن کہتے ہیں: ‘یہ مکمل طور پر فیصلہ کن ہے۔ ایروکوتھ کے قریب سے گزرنے پر ایک ہی جھٹکے میں یہ فیصلہ ہوگیا کہ کون سا نظریہ درست ہے۔’
وہ اس قدر پراعتماد اس لیے ہیں کیونکہ کائپر بیلٹ کہلانے والے علاقے میں موجود یہ اجسام نظامِ شمسی کی پیدائش سے لے کر اب تک تقریباً ویسے کے ویسے ہی رہے ہیں۔ درحقیقت یہ گزرے زمانوں کے بہترین حالت میں محفوظ فوسلز کی طرح ہیں۔
نرمی سے جڑنے کا نظریہ 15 سال قبل سوئیڈن کی لونڈ رصدگاہ کے پروفیسر اینڈرز جوہانسن نے پیش کیا تھا۔ اس وقت وہ پی ایچ ڈی کے ایک نوجوان طالبعلم تھے۔ یہ نظریہ کمپیوٹر سمولیشنز کے ذریعے ابھر کر سامنے آیا تھا۔
ڈاکٹر سٹرن سے بات کرنے کے بعد میں نے پروفیسر جوہانسن کو کال کر کے یہ خبر سنائی کہ ان کے نظریے کی تصدیق ہوچکی ہے۔ فون لائن پر کچھ وقفے کے بعد انھوں نے کہا کہ انھیں ‘بہت اچھا لگ رہا ہے۔’
انھوں نے کہا: ‘یہ بہت خاص موقع ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں پی ایچ ڈی کا طالبعلم تھا اور ان نئے نتائج کے بارے میں بہت بے چین ہو رہا تھا کیونکہ یہ پہلے سے موجود نتائج سے کافی مختلف تھے۔ مجھے فکر ہو رہی تھی کہ کہیں میرے کوڈ میں کوئی غلطی تو نہیں یا میں نے کہیں حساب میں کوئی غلطی تو نہیں کر دی۔’
‘اور پھر دیکھا کہ حقیقت میں مشاہدے نے ان نتائج کی تصدیق کر دی ہے تو یہ بہت خوشی کا احساس ہے۔’
پروفیسر جوہانسن نے اس موقعے کا جشن اپنے خاندان کے ساتھ پیزا کھا کر منای
بی بی سی کے فلکیات پر پروگرام سکائے ایٹ نائٹ کی شریک میزبان انجینیئر ڈاکٹر میگی ایڈیرین پوکوک نے خبردار کیا ہے کہ صرف ایک جسم کے مشاہدے کی بنا پر ایک پورے نظریے کو رد کرنا غلط ہوسکتا ہے لیکن انھوں نے کہا کہ ڈاکٹر سٹرن کی تشریح ‘بہت قابلِ فہم ہے۔’
‘اچھا ہے کہ ہمارے پاس یہ ثبوت ہے کیونکہ تصادم کا نظریہ اچھا تھا مگر اس کے سامنے چند مشکلات تھیں۔ تصادم کے بعد یہ جسم ایک دوسرے کے ساتھ جڑے کیوں رہ جاتے اور اچھل کر دور کیوں نہ چلے جاتے؟ بہت چیزیں ایسی تھیں جو درست نہیں لگ رہی تھیں۔
جب ایروکوتھ چھ سال قبل دریافت کیا گیا تھا تو اسے صرف 2014 ایم یو 69 کے نام سے جانا جاتا تھا۔ جب نیو ہورائزنز اس کے پاس سے گزرا تو اسے الٹیما ٹولی کا غیر رسمی نام دیا گیا۔ ویسے تو یہ نام قرونِ وسطیٰ میں معلوم دنیا کی سرحد کا کام دینے والے دور دراز خطے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا مگر نازی نظریے کے حامیوں کی جانب سے آرین نسل کی دیومالائی سرزمین کے لیے اس نام کے استعمال کی وجہ سے تنازع پیدا ہوا۔
اس کا باضابطہ نام ایروکوتھ کا مطلب امریکہ کی مقامی زبان پوہاٹن/ایلگونکوئن میں ‘آسمان’ ہے۔