جرمنی کے شہر میونخ میں جاری سالانہ سکیورٹی کانفرنس کی طرف سے ملنے والے تمام اشاروں کے مطابق شاید امریکہ اور طالبان ایک امن معاہدے کی نوید سنانے سے چند دن دور ہیں۔
یہ ممکنہ معاہدہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات جبکہ امریکہ کے افغانستان سے اپنی فوجوں کے انخلا کی راہ ہموار کرے گا۔
اس طرح امریکہ کی سب سے لمبے عرصے تک چلنے والی جنگ شاید ختم ہو جائے اور دوبارہ اہم صدارتی انتخابات میں حصہ لینے والے صدر ٹرمپ امریکی فوجیوں کو گھر واپس لانے کا اپنا وعدہ وفا کر سکیں۔
امریکہ اور ٹرمپ انتظامیہ کے لیے بہت کچھ داؤ پر ہے۔ لیکن امریکہ سے زیادہ چیزیں افغانستان کے لیے داؤ پر لگی ہیں۔
افغانستان کا تو پورا کا پورا سیاسی مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ افغانستان میں کس طرز کی حکومت کی بلآخر فتح ہوتی ہے۔
لیکن اس سے پہلے کہ ہم حتمی معاہدے کی بات کریں، پہلے سے ہی بہت سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ جیسے کیا افغانستان کے لیے یہ ایک جامع امن معاہدہ ہو گا اور پورے ملک پر اس کا اطلاق ہوگا؟
یا یہ صرف ایک ایسا معاہدہ ہو گا جو امریکیوں کو افغانستان سے نکلنے کا موقع فراہم کرے گا؟
دونوں آپشنز ہو سکتی ہیں۔ لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ امریکی اس معاہدے کا استعمال وہاں سے نکلنے کے لیے کریں بجائے اس کے کہ افغانستان کو ایک کامل امن ڈیل ملے۔
ابھی تک طے شدہ معاملات کی تفصیلات محدود ہیں۔ لیکن ممکنہ معاہدے کی تاریخ کافی قریب آ گئی ہے۔
میونخ کانفرنس کے دوران امریکی سیکرٹری خارجہ مائیک پومپیو اور افغان صدر اشرف غنی نے غیررسمی طور پر ملاقات کی تھی۔
اس کے بعد ایک سینیئر امریکی عہدیدار نے معاہدے کا کچھ حصہ طے کیا۔ امریکہ اور طالبان کے مابین ایک سات روزہ جنگ بندی کا معاہدہ جلد ہی عمل میں آئے گا اور افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کا باعث بنے گا۔
عہدیدار کے کہنا ہے کہ تشدد میں کمی کے بارے میں ابتدائی معاہدے کے 10 دن کے اندر تمام افغان امن مذاکرات ہوں گے جس کا اطلاق پورے ملک پر ہو گا۔
بعد میں امریکی سیکرٹری دفاع مارک ایسپر نے کہا کہ افغانستان میں ‘ہماری کارروائیوں کا اہم حصہ’ معطل کر دیا جائے گا لیکن انھوں نے مزید کہا کہ ‘ابھی وہ وقت نہیں آیا’ اور کہا کہ امن معاہدے کی تاریخ مقرر کرنے کے لیے مزید مشاورت کی ضرورت ہے۔
یہ ایک بہت اہم اقدام ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ مذاکرات انتہائی تفصیلی ہیں۔ اس میں امریکی اور افغان فوجوں پر کیا جانے والا تشدد بھی شامل ہے اور امریکی حکام کہتے ہیں کہ اِن پرتشدد واقعات کی تفصیلات موجود ہیں۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان ایک مواصلاتی نظام ہو گا جس میں اس بات کا خیال رکھا جائے گا کہ کسی اور ذرائع کی طرف سے بھی تشدد ہو سکتا ہے اور ہر پرتشدد واقع کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہو گی۔
واقعی، پورے عمل کے دوران نگرانی اور توثیق کی شقیں موجود ہیں۔
طویل مدت میں طالبان اپنے زیرِکنٹرول علاقوں میں بین الاقوامی دہشت گردوں کی میزبانی، تربیت یا ان کے لیے فنڈز اکٹھا نہ کرنے پر رضامند ہو گئے ہیں۔
طالبان اور افغان حکومت کے مابین مذاکرات ‘مستقل اور جامع’ جنگ بندی کے موضوع سے شروع ہوں گے۔
ابھی تک تو سننے میں سب ٹھیک لگ رہا ہے لیکن پہلے سے ہی کچھ اشارے مل رہے ہیں کہ کیا کچھ غلط ہو سکتا ہے۔
ابھی تک یہ بات مکمل طور پر واضع نہیں ہے کہ امریکہ کس سے بات کر رہا ہے اور امریکہ جن سے بات کر رہا ہے کیا وہ تمام طالبان کی نمائندگی کرتے ہیں یا نہیں۔
افغانستان میں طرح طرح کے ہتھیاروں سے لیس گروہ ہیں جو کسی بھی وقت مصیبت کھڑی کر سکتے ہیں۔
تو کیا کوئی امن عمل ان میں بچ بھی سکتا ہے؟
ابھی تک یہ بھی واضع نہیں ہے کہ اس امن عمل میں پاکستان کہاں کھڑا ہے۔
ہمیں یہ بھی نہیں پتا کہ امریکی فوجوں کا انخلا کس رفتار سے ہو گا اور اس کا کیا تسلسل ہو گا؟
کیا افغانستان میں کچھ بچی کچھی امریکی فوجیں رہیں گی؟ امریکی حکام امید کرتے نظر آ رہے ہیں کہ ایسی کسی فوج کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
لیکن شاید سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا طالبان پر یقین کیا جا سکتا ہے کہ وہ کسی معاہدے میں اپنا کردار بخوبی ادا کریں گے؟
اور ایک بار جب امریکہ افغانستان سے نکل جائے گا تو کیا وہ افغانستان میں کسی وسیع تر معاہدے کا احترام کریں گے؟
اگر طالبان نے کوئی خلاف ورزی کی تو ان پر کون سے امریکی پابندیوں کا اطلاق ہو گا؟
لیکن ہم شاید بہت دور کا سوچ رہے ہیں۔ امریکی تو صرف اس وقت یہ امید کر رہے ہیں کہ طالبان کے سنجیدہ ہونے کا کوئی جلد اور ابتدائی اشارہ ملے۔
طالبان نے اگر ایک ہفتے تک کوئی پر تشدد کارروائی نہ کی تو وہ اس امن عمل کا حصہ بن پائیں گے۔ بہت سے امریکی تجزیہ کاروں کو ڈر ہے کہ صدر ٹرمپ اپنی سیاسی وجوہات کی بنا پر فوجیں افغانستان سے نکالنے میں جلد بازی کر رہے ہیں۔
کچھ امریکیوں کو افسوس ہو گا کہ سب سے لمبے دورانیے تک چلنے والی جنگی مہم کے ختم ہونے کے امکانات نظر آ رہے ہیں۔
لیکن ہم آنے والے وقت کو لے کر زیادہ پُرامید نہیں ہو سکتے۔
اس ہفتے کے آغاز میں تجربہ کار امریکی دفاعی ماہر ٹونی کورڈیس مین نے تشویش ظاہر کی ہے کہ صدر ٹرمپ جس امن کی تلاش کر رہے ہیں وہ شاہد امریکی انخلا کی ‘ویتنامائزیشن’ ہے یعنی کہ 1950 کی دہائی میں ویتنام جنگ کو ختم کرنے میں امریکہ کو پیش آنے والی مشکلات۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘بہت سی علامتیں ایسی ہیں جن سے واضع ہوتا ہے کہ یہ امن کی کوشش بھی امریکی انخلا کو ویسا ہی سیاسی رنگ دے گی جیسے امریکہ نے امن معاہدے کے نام پر ویتنام کے ساتھ معاملات نمٹائے تھے۔’