مارچ 2020کے ختم ہونے تک پاکستان کو آئی ایم ایف سے 45کروڑ 20لاکھ ڈالر درکار ہیں۔اپنے تئیں یہ بہت بڑی رقم نہیں ہے۔ یہ مگر 6ارب ڈالر پر مشتمل اس مجموعی رقم کی ایک قسط ہے جو عالمی معیشت کے نگہبان ادارے نے ستمبر2022تک پاکستان کو فراہم کرنے کا وعدہ کررکھا ہے۔اس رقم کی مکمل ادائیگی کو یقینی بنانے کے لئے ہمیں چند اقدامات لینا ہوں گے۔ان اقدامات پر مرحلہ وار پیش رفت کا جائزہ لیا جاتا ہے۔حال ہی میں آئی ایم ایف کا ایک وفد ’’جائزے‘‘ کی خاطر ہی اسلام آباد میں قیام پذیر رہا۔ گزشتہ جمعہ وہ واشنگٹن لوٹ گیا۔پاکستان چھوڑنے سے قبل مگر اس کی جانب سے ’’سب اچھا‘‘ والی رپورٹ جاری نہیں ہوئی۔ایک پریس ریلیز کے ذریعے فقط یہ نوید سنائی گئی کہ آئی ایم ایف کے ساتھ جو وعدے ہوئے تھے ان پر ’’خاطر خواہ‘‘ عملدرآمد ہوا ہے۔ چند اہم معالات پر پیش رفت مگر اب بھی درکار ہے۔
عمران حکومت کی پراپیگنڈہ بریگیڈ نے آئی ایم ایف کی جانب سے جاری ہوئی پریس ریلیز میں ’’خاطر خواہ‘‘ کے استعمال کو اپنی کامیابی دکھا کر پیش کیا۔اس امر پر بھی بہت طمانیت کا اظہار کیا کہ آئی ایم ایف نے اپنی پریس ریلیز میں یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ پاکستانی معیشت کے چند پہلو اس کی متوقع رفتار سے کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ مثبت نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔اس سوال کو مہارت سے نظرانداز کردیا گیا کہ ’’خاطر خواہ کامیابیوں‘‘ کے باوجود ’’گوٹ‘‘ کہاں پھنسی ہوئی ہے۔ہم دیہاڑی داروں کی بدقسمتی یہ ہے کہ اپنی بات کہنے کو آئی ایم ایف جیسے ادارے جو زبان استعمال کرتے ہیں اسے میڈیا علمِ معیشت سے قطعاََ نابلد لوگوں کو ’’خبر‘‘ کی صورت سناتے ہوئے آسان زبان میں نہیں بتاتا۔ انگریزی اخبارات بھاری بھر کم اصطلاحات کو بعینہ بیان کردیتے ہیں۔ اُردو زبان میں ان اصلاحات کا ترجمہ ویسا ہی ہوتا ہے جو انگریزی کے ’’لائوڈسپیکر‘‘ کا ’’آلہ مکبرالصوت‘‘ کی صورت میں ہوا تھا۔’’پرانے پاکستان’’ میں کئی برسوں تک یہ روایت رہی کہ آئی ایم ایف وغیرہ سے مذاکرات سے قبل وزارتِ خزانہ کے اعلیٰ افسرمعاشی اُمور کے بارے میں خبریں دینے والے رپورٹروں کی ’’آف دی ریکارڈ‘‘ بریفنگ کیا کرتے تھے۔اس بریفنگ کی بدولت صحافیوں کو اندازہ ہوجاتا کہ وہ کونسے معاملات ہیں جہاں حکومتِ پاکستان خلقِ خدا کی مشکلات کو ٹالنے کے لئے ’’مزاحمت‘‘ دکھارہی ہے۔صحافیوں کی اکثریت اس ’’مزاحمت‘‘ کی حمایت میں ڈٹ کر کھڑی ہوجاتی۔ آئی ایم ایف “Public Opinion”سے گھبراکر تھوڑی رعایت دینے کو مجبور ہوجاتا۔’’نیا پاکستان‘‘ والوں نے ہمارے میڈیا کی ساکھ کو دھرنے کے دنوں ہی میں تباہ کرنا شروع کردیا تھا۔صحافیوں کو اجتماعی طورپر ’’لفافہ‘‘ ثابت کرنے کے بعد وہ انہیں اعتماد میں لینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔ حکومت یہ طے کر بیٹھی ہے کہ لفافوں سے محروم ہوئے صحافی عمران حکومت کو ہر محاذ پر ناکام ہوا دکھانا چاہ رہے ہیں۔گزشتہ بدھ کی صبح عمران خان صاحب کے مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ صاحب نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر ایک گھنٹے پانچ منٹ کا طولانی خطاب کیا۔اس خطاب کے دوران پروفیسروں سے مختص رعونت کے ساتھ وہ اصرار کرتے رہے کہ معاشی معاملات کی گہرائی جہلا کی سمجھ میں نہیں آتی۔وہ لوگ جو آئی ایم ایف کے ہیڈکوارٹر کی ’’راہداریوں‘‘ میں بھی نہیں گھس سکتے اس ادارے کے بارے میں اول فول باتیں کرتے ہیں۔ڈاکٹر حفیظ شیخ اور رضاباقر جیسے صاحبانِ علم کو ورلڈ بینک یا آئی ایم ایف سے ’’فقط میرٹ‘‘ کی بنیادپر ملازمتیں ملی تھیں۔ وہ ’’مادرِ وطن کی خدمت‘‘ کے لئے ان نوکریوں کو چھوڑ کر آئے ہیں۔لگی لپٹی رکھے بغیر ڈاکٹر حفیظ شیخ نے درحقیقت یہ کہا کہ ہماری معیشت کو جب ’’نااہل اور بدعنوان‘‘ سیاست دان-جن میں سے چند لوگوں کو ہم ’’جہلا ‘‘ ووٹ دے کر اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں-تباہ کردیتے ہیںتو ڈاکٹر رضاباقر جیسے ’’محبانِ وطن‘‘ بھاری بھرکم تنخواہوں والی نوکریاں چھوڑ کر ’’مادرِ وطن‘‘‘ لوٹ آتے ہیں اور ماہرطبیبوں کی طرح ملکی معیشت کی بحالی پر مامور ہوجاتے ہیں۔ان کی مگر قدر نہیں ہوتی۔ان کی ’’نیت‘‘ پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔انہیں طعنوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔یہ بات ثابت کرنے کو کہ پاکستان کی معیشت بہتری کی جانب بڑھ رہی ہے ڈاکٹر حفیظ شیخ Bloombergکے ذریعے پھیلائی ’’خبروں‘‘ کا حوالہ دیتے رہے۔ ان کا یہ بھی اصرارر ہا کہ Bloombergجیسے ادارے ’’کسی سے پیسے لے کر‘‘اس کے بارے میں ’’اچھی خبریں‘‘ نہیں دیتے Bloombergکا اس انداز میں ذکر عمران حکومت کے اس دعوے کو دہرانا تھا کہ پاکستانی صحافت کے ’’لفافے‘‘ عوام کو ’’اچھی خبریں‘‘ نہیں دیتے۔ ہوس کے غلام صحافی Fake Newsپھیلاتے ہیں۔ Bloomberg کے قصیدے پڑھتے ہوئے ڈاکٹر صاحب یہ حقیقت فراموش کر گئے کہ اس ا دارے کا مالک کسی زمانے میں نیویارک کا مئیر بھی رہا ہے۔ان دنوں وہ ٹرمپ کے مقابلے میں ڈیموکریٹ پارٹی کی ٹکٹ پر نومبر2020کے صدارتی انتخاب میں حصہ لینا چاہ رہا ہے۔خود کو ٹرمپ کا حقیقی متبادل ثابت کرنے کے لئے وہ ان دنوں بے تحاشہ رقم صرف کررہا ہے۔ حال ہی میں ہوئی ایک تحقیق کے مطابق فیس بک پر اپنی حمایت میں لگائے پیغامات کی ’’ایجاد وترویج‘‘ کے لئے وہ روزانہ دس لاکھ امریکی ڈالر کی خطیر رقم صرف کررہا ہے۔دو روز قبل ہی نیویارک ٹائمز نے ایک اداریہ لکھا جس نے انتہائی سخت زبان میں Bloombergپر الزام لگایا کہ وہ پیسے کے بے دریغ استعمال سے میڈیا کو خرید کر صدارتی مہم کو اپنے حق میں Hackکرنا چاہ رہا ہے۔ شیخ صاحب مگر بضد ہیں کہ میں اور آپ Bloombergکے پھیلائے ہر لفظ کو آنکھ بند کئے مستند تسلیم کریں۔ڈاکٹر حفیظ شیخ صاحب کی تقریر کے بعد مائیک شاہد خاقان عباسی کو ملا۔ مری سے اُبھرے اس سیاست دان نے امریکہ کی ایک ایسی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے جسے “IVY League”میں شمار کی جاتا ہے۔اس تعلیم کے بل بوتے پر ورلڈ بینک یا آئی ایم ایف میں ’’میرٹ‘‘ کی بنیاد پر نوکری حاصل کرنے کے بجائے انہوں نے وطن لوٹ کر سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا۔بارہا قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔مسلم لیگ (نون) کی حکومتوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے اور 2017میں نواز شریف کی نااہلی کے بعد اس ملک کے وزیر اعظم بھی رہے۔ ان دنوں ’’بدعنوانی کے الزامات‘‘ کے تحت نیب کی حراست میں ہیں۔پروڈکشن آرڈر کی وجہ سے قومی اسمبلی ا ٓتے ہیں۔نیب کے ملزم نے ڈاکٹر حفیظ شیخ سے فقط ایک معصومانہ فرمائش کی اور وہ یہ کہ ڈاکٹر حفیظ شیخ صاحب قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر یہ عہد کریں کہ عمران حکومت رہے یا نہیں۔ انہیں حکومتی عہدہ میسر نہ بھی ہوا تو وہ ’’آئندہ دس برس تک‘‘ بیرونِ ملک نوکری کے لئے تشریف نہیں لے جائیں گے۔شیخ صاحب نے یہ عہد کرنے کا تردد ہی نہیں کیا۔غالباََ ان کاجذبہ حب الوطنی اسی وقت جاگتا ہے جب پاکستان میں کسی حکومت کو ان کی ’’ذہانت‘‘ درکار ہوتی ہے۔حفیظ شیخ صاحب کی ذہانت مگر IMFکو بھی ابھی تک مطمئن نہیں کر پائی ہے۔ اسی باعث 45کروڑ 20لاکھ ڈالر والی قسط کی ادائیگی رُکی ہوئی ہے۔ہم ’’جاہل‘‘ اور بے بس پاکستانیوں کو یہ بات بھی نہیں سمجھائی جارہی کہ مذکورہ ادائیگی میں کیا رکاوٹیں ہیں۔پاکستان کی ’’لفافہ صحافت‘‘ کا 1975سے حصہ ہوتے ہوئے مجھے یہ “Fake News”دینے کی اجازت دیجئے کہ ممکنہ رکاوٹوں میں اہم ترین بجلی کی قیمتوں میں اضافہ بھی ہے۔ عمران خان بضد ہیں کہ آئندہ ڈیڑھ سے دوبرسوں کے دوران بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ نہ ہو۔ انہیں بخوبی اندازہ ہوچکا ہے کہ وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد بجلی اور گیس کے نرخوں میں مسلسل جو اضافے ہوئے انہوں نے بنیادی طورپر پاکستان کے ان لوگوں کو سب سے زیادہ تکلیف پہنچائی جو ’’شہری متوسط طبقات‘‘ تصور ہوتے ہیں۔شہروں میں مقیم اس مڈل کلاس کی اکثریت نے بہت چائو سے جولائی 2018کے انتخابات میں تحریک انصاف کے نمائندوں کو ووٹ دیا تھا۔ صداقت علی عباسی نے شاہد خاقان عباسی سے مری کی نشست بھی اس چائو کی وجہ سے چھین لی۔ تحریک انصاف کو ووٹ دینے والے بجلی اور گیس کے اضافی نرخوں سے پریشان ہوچکے ہیں۔وہ ان میں مزید اضافہ برداشت نہیں کرپائیں گے۔ آئی ایم ایف مگر بضد ہے کہ “Cost Recovery”کو یقینی بنانے کے لئے بجلی کے نرخوں میں مرحلہ وار اضافہ ہوتا رہے۔ستمبر2022تک حکومتِ پاکستان Subsidyکی صورت بجلی کے صارفین کو سہولت پہنچانے کے لئے ایک دھیلہ بھی خرچ نہ کرے۔آئی ایم ایف سے نئی قسط کی ادائیگی کی یقینی بنانے کے لئے اضافہ مگر ضروری ہے۔ عمران حکومت فقط یہ سہولت طلب کررہی ہے کہ اسے آئندہ بجٹ یعنی جون 2020تک اس اضافے کا اعلان کرنے کی مہلت دی جائے۔