فیچرز

انڈیا: ماہواری کی جانچ کے لیے لڑکیوں کے زیر جامہ تک اتروا لیے گئے

Share

ماہواری سے انڈیا کا تکلیف دہ رشتہ ایک بار پھر سے سرخیوں میں ہے۔

انڈیا کی مغربی ریاست گجرات کے ایک کالج کے ہاسٹل میں رہنے والی لڑکیوں نے شکایت کی ہے کہ خاتون ٹیچروں نے یہ دیکھنے کے لیے ان کے کپڑے اتروائے کہ کہیں انھیں ماہواری تو نہیں آ رہی ہے۔

68 لڑکیوں کو ان کی کلاس سے نکال کر ٹوائلٹ میں لے جایا گیا اور ان میں سے ہر ایک سے فرداً فرداً کپڑے یہاں تک کہ زیر جامہ بھی اتروائے گئے تاکہ ان کی جانچ کی جا سکے۔

یہ واقعہ منگل کے روز شہر بھج میں پیش آیا۔ یہ نوجوان لڑکیاں شری سہجانند گرلز انسٹی ٹیوٹ میں انڈرگریجویٹ کی طالبات ہیں۔ یہ ادارہ سوامی ناراین مسلک والے چلاتے ہیں جو کہ امیر اور قدامت پسند ہندو مت سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔

لڑکیوں کا کہنا ہے کہ کسی افسر نے سوموار کو کالج کے پرنسپل سے شکایت کی تھی کہ لڑکیاں ماہواری کے اصول کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔

ان اصولوں کے مطابق ماہواری کے دنوں میں خواتین کا مندر یا کچن میں داخلہ ممنوع ہوتا اور وہ دوسری طالبات کو چھو نہیں سکتی ہیں۔

کھانے کے وقت انھیں دوسروں سے دور علیحدہ بیٹھنا ہوتا ہے اور انھیں اپنا برتن خود ہی صاف کرنا ہوتا ہے جبکہ کلاس روم میں انھیں آخری صف میں بیٹھنے کی اجازت ہے۔

ان میں سے ایک نے بی بی سی گجراتی کے پرشانت گپتا سے کہا کہ ہاسٹل میں ایک رجسٹر ہے جس میں لڑکیوں کو ماہواری شروع ہونے پر اپنا نام درج کرنا ہوتا ہے تاکہ انتظامیہ ان کی شناخت کر سکے۔

لیکن گذشتہ دو مہینوں سے کسی بھی لڑکی نے رجسٹر میں اپنا نام درج نہیں کیا تھا اور شاید انھوں نے اس خیال سے ایسا کیا تھا کہ ایسا کرنے سے انھیں ان پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا جو وہاں رائج ہے۔

اس لیے سوموار کو یہ شکایت کی گئی کہ لڑکیاں ایام حیض میں کچن میں داخل ہو رہی ہیں، مندر کے نزدیک جا رہی ہیں اور ہاسٹل کی دوسری لڑکیوں سے گھل مل رہی ہیں۔

طالبات کی شکایت ہے کہ اس کے دوسرے دن کپڑا اتروانے سے پہلے ہاسٹل کی انتظامیہ اور پرنسپل نے انھیں گالیاں دیں۔

کالج

انھوں نے کہا کہ ان کے ساتھ جو کیا گیا وہ بہت ہی تکلیف دہ تجربہ تھا جس وہ ‘صدمے’ میں چلی گئی اور یہ کسی ‘ذہنی اذیت’ سے کم نہیں۔

ایک طالبہ کے والد نے کہا کہ جب وہ ہاسٹل پہنچے تو ان کی بیٹی اور دوسری کئی لڑکیاں ان کے پاس آ کر زاروقطار رونے لگیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ ‘صدمے میں تھیں’۔

جمعرات کو طلبہ کے ایک گروپ نے کیمپس میں مظاہرہ کیا اور جن لوگوں نے ان لڑکیوں کی تذلیل کی ہے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

کالج کے ٹرسٹی پروین پنڈوریا نے اس واقعے کو ‘بدقسمتی’ کہا اور یہ بھی کہا کہ جانچ کا حکم دے دیا گیا اور جسے بھی اس معاملے میں قصوروار پايا جائے گا اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

لیکن جس یونیورسٹی سے کالج وابستہ ہے اس کی وائس چانسلر درشنا ڈھولکیا نے طالبات پر الزامات عائد کیے۔ انھوں نے کہا کہ لڑکیوں نے ضابطے کی خلاف ورزی کی ہے اور یہ بھی کہا کہ کئی لڑکیوں نے معذرت کر لی ہے۔

بہر حال بعض طالبات نے بی بی سی کو بتایا کہ ان پر اس واقعے کو ختم کرنے کے لیے انتظامیہ کی جانب سے دباؤ ڈالا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اپنے تکلیف کو نہ بتائیں۔

کامکس

جمعے کو گجرات ریاست کی ویمن کمیشن نے اس ‘شرمناک واقعے’ کی جانچ کا حکم دیا ہے اور طالبات سے کہا ہے کہ ‘سامنے آ کر بلا خوف اپنی شکایات درج کرائیں۔’ پولیس نے اس واقعے کے متعلق شکایت درج کر لی ہے۔

یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جب طالبات کو ماہواری کے لیے شرمندہ کیا گیا ہے۔

تین سال قبل اسی قسم کے ایک واقعے میں شمالی انڈیا کے ایک اقامتی سکول میں 70 طالبات کے کپڑے اس وقت اتروائے گئے تھے جب وارڈن نے باتھ روم کے فرش پر خون کے دھبے دیکھے۔

انڈیا میں ماہواری کی وجہ سے خواتین کے ساتھ وسیع پیمانے پر تعصب نظر آتا ہے کیونکہ وہاں ایام حیض کو غلیظ اور ماہواری کے دنوں میں عورتوں کو ناپاک تصور کیا جاتا ہے۔ انھیں عام طور پر سماجی اور مذہبی تقریبات سے دور رکھا جاتا ہے اور انھیں مندر یہاں تک کہ کچن سے بھی دور رکھا جاتا ہے۔

لکن اب تعلیم یافتہ خواتین اس قدامت پسند خیال کو چیلنج کر رہی ہیں۔ گذشتہ چند سالوں کے دوران ماہواری کو ایک فطری عمل کے طور پر دیکھے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن اس میں کامیابی کم ہی ملی ہے۔

سنہ 2018 میں انڈیا کی عدالت عظمی نے ہر عمر کی خواتین کے لیے سبریمالا مندر کے دروازے کھولنے کا سنگ میل فیصلہ سنایا اور کہا کہ خواتین کو کیرالہ کے مندر سے دور رکھنا امتیازی سلوک ہے۔

لیکن ایک سال بعد وسیع پیمانے پر احتجاج کے بعد ججوں نے اس فیصلہ پر نظر ثانی کا فیصلہ کیا ہے۔

حیرت انگیز طور پر ان احتجاجی مظاہروں میں خواتین بھی بڑی تعداد میں شریک تھیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ ماہواری کا کلنک سماج میں کس قدر گہرا پیوست ہے۔