Site icon DUNYA PAKISTAN

کراچی کے علاقے کیماڑی میں زہریلی گیس پھیلنے سے سات افراد ہلاک، 100 سے زیادہ متاثر

Share

پاکستان کے ساحلی شہر کراچی کے علاقے کیماڑی میں زہریلی گیس پھیلنے سے کم از کم سات افراد ہلاک جبکہ درجنوں متاثر ہوئے ہیں۔

گیس کے اخراج کا واقعہ اتوار کو کیماڑی کے علاقے مسان چوک میں پیش آیا اور صوبائی وزیر سعید غنی نے ہلاکتوں کی تصدیق کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا ہے کہ سو سے زیادہ افراد ضیاالدین، کتیانہ میمن اور جناح ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ابھی تک اس چیز کا سراغ نہیں مل سکا ہے کہ گیس کہاں سے لیک ہوئی جبکہ گیس کس نوعیت کیا تھی اس کا پتہ ہلاک شدگان کے پوسٹ مارٹم سے لگ جائے گا۔

پاکستان کے وفاقی وزیر برائے بحری امور علی حیدر زیدی کا کہنا ہے کہ پاکستانی بحریہ کی بیالوجی اینڈ کیمیکل ڈیمج کنٹرول ٹیم اس گیس کے حوالے سے معلومات تلاش کر رہی ہے تاہم پاکستان نیوی کے ترجمان نے واضح کیا ہے کہ ان کا ادارہ ادارتی سطح پر اس واقعے کی تحقیقات نہیں کر رہا اور نہ ہی کسی حکومتی ادارے نے اس کی تحقیقات کی درخواست کی ہے۔

نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ترجمان کا کہنا تھا کہ ان کی ٹیم نے معمول کے مطابق واقع کا معائنہ کیا تھا اور ہسپتال بھی گئے تھے۔۔

سوشل میڈیا پر صارفین کی جانب سے کیماڑی کے علاقے میں سانس لینے میں دشواری کی شکایات کے بعد ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں علی حیدر زیدی کا کہنا تھا کہ ’ایک ٹیم کو تعینات کر دیا گیا ہے جو زہریلی گیس پھیلنے کی وجہ ڈھونڈ رہی ہے۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’یہ واقعہ بندرگاہ پر نہیں ہوا۔ کے پی ٹی (کراچی پورٹ ٹرسٹ) کے حکام کو اس کی اصل وجہ کی تحقیقات کے لیے بھیجا گیا ہے۔۔۔ متاثرہ مریضوں کا علاج کے پی ٹی ہسپتال میں کرنے کا کہا گیا ہے۔‘

کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ نیوی کی بائیو لاجیکل اینڈ کمیکل ڈیمج کنٹرول ٹیم نے بندرگاہ کا دورہ کیا ہے اور نمونے حاصل کر لیے ہیں جن کا تجزیہ کیا جا رہا ہے اور جیسے ہی وہ کسی نتیجے پر پہنچیں گے تو عوام کو آگاہ کر دیا جائے گا۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ ’بندرگاہ پر معمول کا کام بغیر کسی رکاوٹ کے جاری ہے اور گذشتہ شب وفاقی وزیر علی زیدی نے بھی دورہ کیا تھا۔ ان کے ساتھ دیگر افسران بھی تھے اگر گیس کا اخراج کے پی ٹی سے ہورہا ہوتا تو وہ بھی متاثر ہوتے۔‘

اطلاعات کے مطابق وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے بھی اس واقعے کا نوٹس لے لیا ہے اور ایک تفصیلی رپورٹ طلب کی ہے۔

ضیاالدین ہسپتال کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس لائے جانے والے متاثرین میں سے دو خواتین سمیت چار افراد کی ہلاکت ہوئی جبکہ چار کی حالت تشویشناک ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 100 سے زیادہ افراد کو طبی امداد دے کر فارغ کر دیا گیا ہے۔

ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ جو لوگ ہسپتال لائے گئے ان میں سے کچھ نیم بیہوشی کی حالت میں تھے جبکہ سانس لینے میں دشواری اور پیٹ میں درد کی شکایت عام تھی۔

انھوں نے لوگوں کو مشورہ دیا کہ گیس کی صورت میں گھروں سے باہر نہ نکلیں اور چہرے اور خاص طور پر ناک کو ماسک سے ڈھانپ کر رکھیں۔

’صابن جیسی بو آ رہی تھی‘

کراچی کے صحافی طارق اسلم کیماڑی کے متاثرہ علاقے میں رہتے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ جس طرح بہتر کوالٹی کے صابن سے خوشبو آتی ہے ایسی ہی بو آرہی تھی۔ ان کے مطابق ’ہمارے پاس ماسک وغیرہ تو نہیں تھے رومال یا دوسرے کپڑے باندھ لیے اور گھروں تک محدود رہے۔‘

انہوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’کے پی ٹی کے ہسپتال میں تو صرف او پی ڈی کی سہولت دستیاب ہے اور ہنگامی صورتحال سے نمنٹے کا کوئی انتظام نہیں جس کی وجہ سے لوگ یہاں سے ضیاالدین اور دیگر ہسپتالوں میں گئے اور اب وفاقی وزیر علی زیدی کہہ رہے ہیں کہ لوگوں کا کے پی ٹی ہسپتال میں علاج ہو گا۔‘

کیماڑی کے مقامی سیاسی و سماجی کارکن جمیل خان کا کہنا ہے کہ اتوار کی شام چھ بجے سے لوگ متاثر ہوئے اور رات ساڑھے نو بجے تک یہ سلسلہ جاری رہا۔

ان کے مطابق ہلاک اور متاثر ہونے والوں کی اکثریت کا تعلق آر جی ریلوے کالونی سے ہے جہاں ریلوے کے موجودہ اور ریٹائرڈ ملازم رہتے ہیں۔

جمیل خان نے بتایا کہ انھوں نے مساجد سے اعلان کروائے تھے کہ لوگ علاقہ چھوڑ دیں۔ ’کچھ لوگ چلے گئے جبکہ دیگر نے کھڑکیاں اور دروازے بند کر دیے تھے تاہم اب جو لوگ گئے ہوئے تھے وہ واپس آ رہے ہیں۔

’ہمیں بتایا جائے کیا لیک ہوا ہے‘

امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے علاقے میں پہنچنے کے بعد ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی نے دعویٰ کیا کہ ’زہریلی گیس بندرگاہ کے علاقے سے لیک ہوئی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’وہاں کے حکام منع کر رہے ہیں۔ یہ کب تک چھپائیں گے کہ ہمیں پتا نہیں چلے گا۔ تقریباً 70 سے 80 لوگ نیم بے ہوشی کی حالت میں ہیں۔

’بندرگاہ کے حکام سے گزارش ہے کہ ہمیں بتائیں کون سا کیمیکل لیک ہوا ہے تاکہ اسے چیک کر کے مریضوں کا علاج کیا جا سکے اور ہمیں بتایا جائے کن علاقوں کو خالی کرانا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ زیادہ تر لوگ کیماڑی کے مسان چوک میں متاثر ہوئے ہیں جنھیں وہاں سے ہسپتال میں منتقل کیا گیا ہے۔

کیماڑی کا علاقہ کیا ہے؟

کیماڑی کراچی کی پہلی بندرگاہ ہے، جہاں بحری جہاز لنگرانداز ہوتے ہیں۔ یہاں مال بردار بحری جہازوں کی آمد ہوتی ہے اور اس کے آس پاس کئی گودام بھی موجود ہیں۔

کیماڑی سے لانچوں کی مدد سے شہری منوڑہ اور دیگر قریبی جزائر پر جاتے ہیں۔

منوڑہ پر پاکستان بحریہ کا ایک بیس بھی موجود ہے۔ یہ ایک تفریح گاہ بھی ہے جہاں سے لوگ منوڑہ کے علاوہ لانچ میں سمندر میں دوست احباب کے ساتھ جاتے ہیں۔

شام کے اوقات میں کیماڑی بندرگاہ کے قریب ہوٹلوں پر شہریوں کا رش رہتا ہے۔ یہاں فرائی مچھلی اور جھینگا دستیاب ہوتا ہے۔

بندرگاہ کا یہ علاقہ کسی ایک کمیونٹی کی آبادی تک محدود نہیں۔ یہاں بندرگاہ سے وابستہ مزدور طبقہ اکثریت سے رہتا ہے جو سامان کی مال برداری، ٹرالر کی ڈرائیونگ اور گداموں میں مزدوری سے وابستہ ہیں۔

بندرگاہ کے سامنے جیکسن مارکیٹ ہے جہاں سیکنڈ ہینڈ فرج، اے سی سمیت دیگر برقی آلات دستیاب ہوتے ہیں۔

Exit mobile version