کالم

احتجاج کے لاطینی طریقے

Share

احتجاج کرنا کسی بھی ملک کے عوام کا بنیادی انسانی حق ہوتا ہے۔احتجاج کرنے کے طریقے مگرہرملک و قوم کے الگ الگ ہیں۔بعض اوقات یہ ملتے جلتے ہوتے ہیں اوراکثریکسرمنفردنظرآتے ہیں۔ٖحرف شکایت بلند کرنے کاطریقہ تاریخ اورثقافت سے گہری وابستگی رکھتا ہے۔ایشیاء و افریقہ کے علاوہ مغربی اقوام میں مروجہ احتجاجی طریقوں سے تو ہم بڑی حدتک شناساہیں مگرلاطینی امریکہ کے ممالک ہماری نظروں سے عمومی طور پر اوجھل ہی رہتے ہیں۔اس کی وجہ سے دورافتادہ اورتنہاہونے کے علاوہ وہاں کی لاطینی زبان سے اخذکردہ ہسپانوی اور پرتگیزی زبانیں بھی ہیں۔جو کہ ہمارے ملک کی غالب اکثریت کے لئے اجنبی ہیں۔گزشتہ ایک ماہ سے میں لاطینی امریکہ کے سفر پرہوں اوریہ یہاں احتجاج کا موسم ہے۔ہرتیسرے ملک میں احتجاجی تحریک چل رہی ہے۔کہیں دائیں بازو توکہیں بائیں بازو کے لوگ احتجاج کررہے ہیں،کئی جگہ اس نظریاتی تقسیم سے ماورالوگ اپنے مطالبات کے حق میں نعرہ ء مستانہ بلند کررہے ہیں۔اس بحث میں جائے بغیرکہ مذکورہ مظاہرے اور مظاہرین کے مطالبے جائزہیں یا ناجائز،میں نے سوچاکہ آپ کو ان احتجاج کرنے والوں کے طریقہ احتجاج سے متعارف کروایاجائے۔ سب سے موثراورفوری متوجہ کرنے والاطریقہ توباورچی خانے میں استعمال ہونے والے دھات سے بنے ہوئے برتن پیٹناہے۔آپ تصورکرسکتے ہیں کہ اگر شہرکے کسی بھی چوک میں سویادوسوافرادبھی ہاتھوں میں اسٹیل کے چمچ اور فرائی پین یا دیگچی پیٹناشروع کردیں توکس قسم کا ماحول پیداہوجاتاہوگا۔اس کے صوتی اثرات ایسے ہوتے ہیں کہ اسے نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔باورچی خانے کے خالی دھاتی برتن پیٹنے کا مقصدصرف شور برپاکرنا نہیں ہوتا،بلکہ یہ پیغام دیناہوتا ہے کہ گھرمیں کھانے کے لئے کچھ نہیں ہے،بھوک اورپیاس کا استعارہ بن جاتے ہیں،یہ خالی برتن جب مظاہرین انہیں پیٹتے،بجاتے گلیوں،بازاروں میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔عموماًسال نومسیحی دنیا میں خوشی کا موقع ہوتاہے۔چراغاں اورآتش بازی کے علاوہ رات کے عین بارہ بجے خوشی کے نعرے گونجتے ہیں۔اس برس کے آغاز پر میں چلی میں تھا،جیسے ہی رات کے بارہ بجے بجے پورے ملک میں لوگوں نے گھریلو برتن پیٹناشروع کر دیے۔میرے بہت سارے دوستوں کویہ آوازبہت ناگوارگزری مگر بہرحال یہ احتجاج کا ایک طریقہ ہے۔ سلوسائیکلنگ کے مقابلے پاکستان میں اکثر کالجزمیں ہوتے ہیں۔اس میں مقابلہ سست رفتاری کاہوتاہے۔یعنی اس دوڑکا فاتح وہ ہوتا ہے جوسب سے آہستہ رفتارسے سائیکل چلاتاہے۔سائیکل سے گرے بغیر اس ریس میں آخرپرپہنچنے والاپہلی پوزیشن پاتا ہے۔اس تفصیل کا مقصد یہ تھا کہ لاطینی امریکہ میں احتجاج کا یہ مقبول طریقہ ہے کہ مظاہرین شہر کی مصروف ترین شاہراہوں کے عین درمیان میں بیس تیس یا اس سے زیادہ کی تعداد میں سائیکل پرسوارہوکر آجاتے ہیں،منہ میں ریفری والی سیٹی دباکر بجاتے جاتے ہیں اورسلوسائیکلنگ کرتے ہیں۔اب بظاہروہ کوئی قانون کی خلاف ورزی نہیں کررہے ہیں،سڑک پر سائیکل چلانابھی ان کا حق ہے،مگررفتاراوراندازایساہے کہ گاڑیوں کی میلوں لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔مکمل ٹریفک جام ہوجاتاہے اورمظاہرین سائیکلوں پر سیٹی بجاتے چیونٹی جیسی رفتار سے چلتے جاتے ہیں اوراپنااحتجاج نوٹ کرواتے جاتے ہیں۔ ٹائرجلانااورجلاؤ،گھیراؤکے دیگرطریقے توپورے عالم میں یکساں ہیں،لاطینی امریکہ کی انفرادیت یہ ہے کہ یہاں پر احتجاج کا دن پرانے فرنیچرسے نجات حاصل کرنے کا موقع بھی ہوتا ہے۔ضرورت سے زیادہ اورپرانافرنیچرلوگ گھروں سے لے کرآتے ہیں اور عین چوراہے میں لاکر لکڑی کوآگ دکھادیتے ہیں۔کئی نٹ کھٹ مظاہرین ٹریفک روک کرتیز میوزک چلاکررقص شروع کردیتے ہیں۔بات یہاں تک ہی ہو توپھر بھی گواراہے۔نامراد ٹریفک میں پھنسے ہوئے لوگوں کو بھی مجبور کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ مل رقص کریں۔خلاف ورزی کی صورت میں چونکہ گاڑی کو نقصان پہنچانے کی دھمکی دی جاتی ہے،اس لئے مظاہرین کیساتھ متاثرین بھی موسیقی کی بلندبے اور تان پر رقص کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کاروباری اداروں،فیکٹری،کارخانوں اور مل مزدوروں کااحتجاج کاعمومی طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اپنے کارخانے کے مرکزی گیٹ کے سامنے تمام مزدوردھرنا دے کر بیٹھ جاتے ہیں۔اگراپنے مالک کومزیدذلیل کرنا مقصودہوتومزدورآتے جاتے راہگیروں سے چندہ مانگنا شروع کردیتے ہیں۔خاموش احتجاج کاعمومی طور پریہی طریقہ رائج ہے۔چندے سے جمع رقم کا کھانامنگوایا جاتا ہے یا پھر ام الخبائث کابندوبست ہوتا ہے۔ہمارے ایک پاکستانی دوست جن کی پیرومیں ہمارے شوروم کے قریب ورکشاپ تھی،ان کے بارے میں مشہورتھا کہ اپنے ملازمین کوتنخواہ دیناگناہ کبیرہ خیال کرتے ہیں۔ایک بار میں نے بھی ان سے کہا کہ آئے دن آپ کے مرکزی گیٹ کے سامنے مزدور،مستری کام بند کرکے بیٹھ جاتے ہیں،ان کے باربار احتجاج کے باوجودآپ بروقت تنخواہ کی ادائیگی کیوں نہیں کرتے؟حالانکہ آپ کے کاروباری حالات بھی برے نہیں ہیں۔لاطینی امریکہ میں مقیم ہمارے اس دوست کا موقف تھا کہ اگردو،چار مہینے کی تنخواہ دباکررکھی جائے توملازم کام چھوڑکربھاگتانہیں ہے۔جب تک میں پیرومیں رہا،ان کے گیٹ کے سامنے اکثر ہی احتجاج کادیکھا۔ وال چاکنگ پوری دنیا میں اپنے مطالبات اور شکایات کے اظہارکے لئے استعمال ہوتی آئی ہے۔پاکستان میں عموماًیہ کام پروفیشنل پینٹرز،برش،سفیدی اور سیاہی کی مدد سے خوش خطی کے ساتھ انجام دیتے ہیں،جس کا وہ محنتانہ وصول کرتے ہیں۔وال چاکنگ میں ایک نئی جہت کا اضافہ ”گریفٹی“نے کیاہے۔سپرے پینٹ کی ایجاد سے دنیابھرمیں وسیلہ روزگارکے طور ہردیواریں لکھنے والوں کا کام ٹھپ ہوکررہ گیاہے۔اب کوئی بھی آدمی بازار سے سپرے پینٹ کی سرخ یاسیاہ بوتل لے کرآتاہے اور اپنی پسند کی دیوارپراپنی من پسند تحریرلکھ دیتا ہے،کہیں تصویربنا دیتا ہے۔اس وقت لاطینی امریکہ کے آپ کسی بھی ملک میں جائیں آپ کو دیواریں ”گریفٹی“سے اٹی ہوئی ملیں گی۔کہیں کہیں حیرت بھی ہوتی ہے،ملالہ یوسف زئی کی میکسیکوشہرکی ایک دیوارپر بنی تصویردیکھی توپہلی نظرمیں آنکھوں پریقین ہی نہیں آیا۔کلیساکی ایک دیوارپرکسی منچلے نے سوالیہ انداز میں سیاسی وسماجی صورتحال کے پیش نظرلکھ دیا تھا کہ اس بارے میں کلیساکیا کہتاہے؟کسی اور نے شرارت سے نیچے لکھ ڈالاکہ اس بارے میں کلیسا خاموش ہے۔ بلیک اینڈوائٹ پوسٹرزکی ایک قطار کودیکھ کرمیں ٹھٹک گیا۔ہمارے الیکشن کمیشن سے منظور شدہ سائز کے پوسٹرزپرپیلٹ گن کاشکارمظاہرین کے چہروں کی تصاویرتھیں اورمتاثرہ آنکھ کے اوپرسرخ رنگ کاضرب کا نشان۔ایک پوسٹرپرصرف ایک شخص کی تصویر،اس کا مکمل نام اور پیشہ جلیّ حروف میں لکھاہواتھا۔اگر کسی متاثرہ فرد کی دونوں آنکھوں کوپیلٹ گن کی گولی سے نقصان پہنچاتھاتو پھردونوں آنکھوں پراس بلیک اینڈوائٹ اشتہارمیں سرخ رنگ کانمایاں ضرب کانشان لگایاگیاتھا۔چلیّ کے دارلحکومت سنتیاگوکے مرکزی بازار میں پیلٹ گن کا شکارافرادکے چہروں کے نشان زدہ پوسٹروں کی قطاردیکھ کر مجھے مقبوضہ کشمیر کی یادآگئی۔ بھارت کے زیرتسلط کشمیر میں ہزاروں کی تعدادمیں بے گناہ کشمیری بھارتی فوج کی پیلٹ گنوں کا شکار ہو کراپنی بینائی جزوی یا پھرمکمل طور پرکھوچکے ہیں۔میرے خیال میں پاکستانی پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی اگر کوشش کرے تو پیلٹ گنوں سے متاثرہ افراد کی تصاویر اور کوائف حاصل کرکے اسے پوری دنیاکے سامنے مشتہرکرسکتی ہے۔یہ چھوٹی سی کاوش ہوسکتاہے مظلوم کشمیری افرادکاکرب عالمی سطح پر اجاگر کرکے بھارتی فوج کی بربریت بے نقاب کرنے میں مددگار ثابت ہوسکے۔