چین کا ہیرو ڈاکٹر
منگل کے روز سوشل میڈیا پر جمائمہ خان کی ایک ٹویٹ نے بہت رونق لگائی ہوئی تھی۔ اسے بے تحاشہ لوگوں نے ری ٹویٹ کیا۔ اس کے حوالے سے جو بحث چھڑی وہ کئی حوالوں سے ہمارے معاشرے پر چھائی منافقت اور چسکہ فروشی کو پریشان کن حد تک عیاں کرگئی۔ میں نے اس بحث کو سماجیات کے طالب علم کی نگاہ سے دیکھنے کی کوشش کی۔ چند نتائج اخذ کئے۔ارادہ باندھا تھا کہ بدھ کی صبح اُٹھ کر پھکڑپن سے گریز کرتے ہوئے انہیں بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔بستر سے اُٹھ کر اخبار میں چھپا اپنا کالم سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا تو ذہن لیکن مائوف ہوگیا۔
میرے کئی ساتھی اپنے سوشل اکائونٹس کے ذریعے دل ہلادینے والی اطلاع دے رہے تھے کہ ہمارے ایک نسبتاََ نوجوان ساتھی فصیح الرحمن دل کے دورے سے بچ نہ پائے ۔ جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔
فصیح کے ساتھ میری دوستی نہیں رہی۔اپنے میں مگن شخص تھا مگر ہمیشہ معصومانہ مسکراہٹ سے حال احوال پوچھتا۔بظاہر بہت صحت مند تھا۔صحافت سے جڑی مشقت کو برداشت کرنے کا عادی بھی۔اس کی ذاتی زندگی سے قطعی نآشنا ہوتے ہوئے بھی میں اس خدشے کا اظہار کرنے کو مجبور ہوں کہ ہمارے شعبے پر ان دنوں جوپریشانی اور اداسی چھائی ہوئی ہے اس کی ناگہانی موت کا ایک اہم سبب ہوسکتی ہے۔ذہن میں یہ سوچتے ہوئے کئی نوجوان ساتھیوں کے چہرے گھوم گئے۔ تمام تر مشکلات کے با وجود وہ صحافت سے وابستہ رہنے کے عزم پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ربّ کریم سے ان سب کے لئے خیر کی دُعامانگی۔پُرخلوص دعائیں مگر صحافت پر نازل ہوئی مصیبتوں کے ازالے کے لئے کافی نہیں۔وقت کا تقاضہ ہے کہ اس شعبے کے ہر حوالے سے کرتا دھرتا افراد اپنی انائوں کے خول سے باہر نکلیں۔سنجیدگی اور خلوص سے وہ راہیں دریافت کریں جو معاشی اعتبار سے صحافت کی بقاء کو یقینی بناسکتی ہیں۔ایسا نہ ہوا تومیرے منہ میں خاک فصیح الرحمن جیسے کئی اور ساتھیوں سے محروم ہونا پڑے گا۔دل ودماغ پر چھایا دبائو،بے کلی اور تشویش ناقابل برداشت حدوں کو چھونا شروع ہوگئے ہیں۔سینکڑوں نہیں ہزاروں گھروں کے رزق کا معاملہ ہے۔کوئی فرد یا طاقت ور ترین صحافتی ا دارہ بھی اپنے تئیں اجتماعی تشویش کا مداوا نہیں کرسکتا۔
صحافت کے شعبے پر چھائے معاشی بحران کی دہائی مچاتے ہوئے میں اس حقیقت کونظرانداز نہیں کرسکتا کہ وقت ایک سا نہیں رہتا۔ذرائع ابلاغ کو جدید دور نے جو Toolsفراہم کئے ہیں ان کی موجودگی میں صحافت کا روایتی ڈھنگ برقرار رکھا ہی نہیں جاسکتا۔پرنٹ میڈیا دُنیا بھر میں تقریباََ معدومیت کی طرف بڑھ رہا ہے۔24/7چینلوں کے بعد فیس بک اور ٹویٹر آئے۔ ’’خبر‘‘ کے انتظار میں گھر پر ہاکر کے ذریعے صبح پہنچے اخبار کی حاجت نہیں رہی۔
پرنٹ صحافت میں خبر اور اس پر تبصرہ آرائی کے لئے جوانداز اختیار کیا جاتا ہے اسے Long Form Journalismکہا جاتا ہے۔ٹی وی صحافت اور سوشل میڈیا اس کا متبادل مگر ہونہیں سکتے۔یہ ہر صورت اپنی اہمیت برقرار رکھے گا۔
برطانیہ میں گارڈین اخبار نے اس اہمیت کا ادراک کیا۔آج سے کئی برس قبل وہ انٹرنیٹ پر منتقل ہوگیا۔ اس سے وابستہ صحافیوں نے قارئین سے پُرخلوص التجا کی کہ اگر انہیں ’’خبر‘‘ درکار ہے تو اس اخبار کو چندے کی صورت اپنی توفیق کے مطابق کچھ رقم عطا کریں۔ Long Form Journalismکے تقاضوں کا نہایت ثابت قدمی سے اطلاق کرتے ہوئے بالآخر اس اخبار کے پاس اتنی رقم جمع ہوچکی ہے جو اس کا وجود برقرار رکھنے کے لئے کافی ہے۔نیویارک ٹائمز نے بھی ان تقاضوں پر کاربند رہتے ہوئے 40لاکھ مستقل قاری (Subscribers)ڈھونڈلئے ہیں۔بھارت میں The Printاور Wireوغیرہ نے بھی ایسا ہی بندوبست کرتے ہوئے بقاء کے راستے ڈھونڈنے کی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔جلد یا بدیر ہماری پرنٹ صحافت کو بھی ایسی ہی راہ ڈھونڈنا ہوگی۔
امریکہ کی ایک نامور صحافی Tina Brownبھی ہے۔ 1990کی دہائی میں اس کا Vanity Fairرسالہ بہت نامور ہوا کرتا تھا۔بعدازاں اس نے ہفت روزہ New Yorkerکو ایک نئے اسلوب سے آشنا کروایا۔ برسوں سے یہ رسالہ فقط ’’دانشوروں‘‘ کے لئے مختص شمار ہوتا تھا۔ اس میں تصاویربھی نہیں چھاپی جاتی تھیں۔سنجیدہ موضوعات پر لمبے مضامین ہی لکھے جاتے تھے۔ٹینا نے ’’دانشورانہ رعونت‘‘ کو برقرار رکھتے ہوئے ’’عامیوں‘‘ کی ایک کثیر تعداد کو بھی اس رسالے سے رجوع کرنے کو مائل کیا۔بالآخر و ہ ہمت ہارگئی۔ ان دنوں کتابیں لکھتی ہے اور بجائے اخبارات ورسائل کی ادارت کے دُنیا کی مشہور ترین خواتین کے بڑے اجتماعات میں تفصیلی انٹرویو کرتے ہوئے زندگی بسر کررہی ہے۔
حال ہی میں اس کا ایک تفصیلی انٹرویو چھپا ہے۔بہت دُکھ سے اس نے بیان کیا کہ ان دنوں کسی اخبار کا مدیر اس فکر میں اپنادن صرف نہیں کرتا کہ اس نے کونسے موضوع پر کس لکھاری سے کیا لکھوانا ہے۔اس کی تمام تر توجہ اپنے اخبار کو زندہ رکھنے کے لئے سرمایے کے حصول کے ذرائع ڈھونڈنے تک محدود رہتی ہے۔اپنی ’’شکست‘‘ تسلیم کرنے کے باوجود مگر وہ بضد ہے کہ صحافت کی بقاء کے امکانات اپنی جگہ برقرار ہیں۔اصل مسئلہ ان امکانات کا حقیقی ادراک ہے اور ان کے مطابق طرزِ صحافت میں نئی اختراعات کی ضرورت۔
ٹینا برائون نے اپنے انٹرویو میں “Buzz”کا ذکر تسلسل سے کیا۔ سادہ لفظوں میں “Buzz”وہ شے ہوسکتی ہے جو ٹی وی اور سوشل میڈیا کے ذریعے Viralہوجائے۔آج کے صحافی کے ساتھ ٹینا کی دانست میں مسئلہ یہ ہوگیا ہے کہ وہ Buzzکا غلام ہوگیا ہے۔مثال کے طورپر منگل کے روز جمائمہ خان کا جوٹویٹ وائرل ہوا۔اس کے حوالے سے جو پُرجوش بحث چھڑی اس نے ہمارے کئی صحافیوں کو اس امرپراُکسایا ہوگا کہ اس ٹویٹ کے حوالے ہی سے کوئی نئی بات کی جائے۔
Long Form Journalismکا مگر تقاضہ تھا کہ منگل کے دن اس بات کا سراغ لگایا جائے کہ پاکستان کی آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے شہر کراچی میں ساحل سمندر کے کنارے واقعہ کیماڑی میں اس ناخوش گوار ’’بو‘‘ کا حقیقی سبب کیا ہے جو آخری خبریں آنے تک چودہ ہلاکتوں کاباعث ہوئی۔سینکڑوں افراد اس کی وجہ سے ہسپتالوں کا رُخ کرنے کو مجبور ہوئے۔
کیماڑی میں ایک بحری جہاز سے پھیلی ’’گیس‘‘ کے منبع کا سراغ لگانے کے بجائے بندرگاہوں کے مدارالمہام وزیر علی زیدی صاحب سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر وائرل کرتے پائے گئے۔ان تصاویر میں وہ سمندر میں ایک لانچ میں کھڑے ہوکر ماسک پہنے بغیر بہت ’’بہادری‘‘ سے ’’گشت‘‘ کرتے نظر آئے۔اپنی ’’بہادری‘‘ کے ذریعے انہوں نے ’’ستے خیراں‘‘ والا ماحول بنانے کی کوشش کی۔
دریں اثناء لاکھوں پاکستانیوں کو Whatsappکے ذریعے ٹیلی فون پر ہوئی ایک گفتگو کی کلپ وصول ہوتی رہی۔ اس کلپ کی بدولت حیران کن کہانی یہ پھیلی کہ لنڈے بازار میں بکتے کپڑوںکی ایک کھیپ کیماڑی آئی تھی۔اسے بازار میں لانے سے قبل جراثیم سے پاک کرنے کے لئے ایک ’’گیس‘‘ کے استعمال کے ذریعے Treat کیا جاتا ہے۔دُنیا کے ’’مہذب‘‘ ممالک میں مذکورہ گیس کا استعمال سختی سے روک دیا گیا ہے۔کراچی میں لیکن اس کا استعمال جاری رہا۔ Whatsappکے ذریعے پھیلائی اس کہانی کی کسی قابل اعتبار اور ذمہ دار افسر نے تصدیق یا تردید کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔بالآخر کئی گھنٹے گزرنے کے بعد سندھ حکومت کی جانب سے ’’سویابین ڈسٹ‘‘ کو ہلاکتوں کا ’’اصل سبب‘‘ قرار دیا گیا۔اس ضمن میں بھی صحافتی اعتبار سے بھرپور Follow upدرکار تھا۔یہ Follow upفقط Long Form Journalismکے ذریعے ہی ممکن تھا۔اپنی بقاء کی فکر میں مبتلا پرنٹ میڈیا مگر یہ فریضہ کماحقہ انجام نہ دے پایا۔
وطنِ عزیز میں فقط جدید ٹیکنالوجی ہی پرنٹ میڈیا کی دشمن نہیں ہے۔آپ خود کو Digital Ageکے مطابق ڈھال بھی لیں تو ’’بیانیہ‘‘ کے حوالے سے لگائی قدغنیں ہیں۔ان قدغنوں کا بے بسی سے احترام کرتے ہوئے صحافت نے اپنی ساکھ کھودی ہے۔اس ساکھ کو تحریک انصاف کی جانب سے پھیلائے ’’لفافہ صحافت‘‘ کے بیانیے نے کئی برسوں قبل ویسے بھی تباہ کرنا شروع کردیا تھا۔
ہمارے حکمران یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ صحافت کو اپنی خواہشات کا غلام بناتے ہوئے وہ فقط اس شعبے کی ساکھ ہی کو تباہ نہیں کرتے۔بالآخر ’’خبر‘‘ چھپاتی صحافت حکمرانوں کے ترتیب دئیے بیانیے کو بھی ناقابل اعتبار بنادیتی ہے۔عمران خان صاحب بہت حسرت سے اب اس امر کا اظہار کرنا شروع ہوگئے ہیں کہ ان کی حکومت کو ویسا کنٹرول نصیب نہیں ہوا جو ہمارے یار چین کی حکمران اشرافیہ کو میسر ہے۔
چین جیسی طرزِ حکمرانی کی حسرت سے خواہش کرتے ہوئے خدارا تھوڑی دیر کو اعتبار کے اس بحران پر بھی توجہ دیں جو حال ہی میں کورونا وائرس کی وجہ سے اس ملک میں نمودار ہوا ہے۔اس وائرس کی نشاندہی کرنے والے ڈاکٹر کو افواہوں کے ذریعے ’’سراسیمگی‘‘ پھیلانے کا مرتکب ٹھہرایا گیا۔وہ بدنصیب اس وائرس کے مریضوں کی دیکھ بھال کی وجہ سے خود بھی اس کا شکار ہوکر ہلاک ہوگیا۔وہ ڈاکٹر مگر اب چین میں ایک ہیرو کی صورت دیکھاجارہا ہے۔حکومتی دعوئوں پر اعتبار کرنے کے بجائے چین کے تمام بڑے شہروں میں لوگ ازخود اپنے محلوں کی ’’ناکہ بندی‘‘ میں مصروف ہوگئے۔کاروبارِ زندگی اس کی وجہ سے مفلوج ہوگیا ہے۔’’اصل خبر‘‘ کو چھپانے کی ضد خوفناک انداز میں Back Fireکرگئی۔’’خبر‘‘ کو ناروا قدغنوں کے ذریعے لہٰذا روکنے کی کوشش نہ کریں۔