ہم میں سے بہت سے افراد کے لیے غم المناک مگر زندگی کی اٹل حقیقت ہے اور اگر کسی شخص کے بچے کی وفات ہو جائے تو ان کے غم کو بھلا پانا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
لیکن جنوبی کوریا میں ایک خاتون ورچوئل ریئلٹی کی مدد سے اپنی سات سالہ بچی کی وفات کے دکھ کو بھلا رہی ہیں۔
چار سال قبل ایک ناقابلِ علاج خون کا مرض جینگ جی سونگ کی تیسری بیٹی نا یوان کی اچانک موت کا باعث بنا۔
ایک ٹی وی پروڈکشن ٹیم نے آٹھ ماہ میں نا یوان کی تھری ڈی تصویر بنائی۔
ٹیم نے موشن کیپچر ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ایک اداکار بچی کی حرکات کیمرہ بند کیں۔ ان کیمرہ بند حرکات کا استعمال کرتے ہوئے نایوان کی حرکات کو دوبارہ تخلیق کیا گیا۔ اس کے بعد ان کی آواز تخلیق کی گئی۔
پروڈکشن ٹیم نے ایک ورچوئل پارک بھی تخلیق کیا جہاں والدہ اور بیٹی کی ‘ملاقات’ ہوئی۔ یہ پارک اس پارک کے طرز پر تخلیق کیا گیا جہاں وہ اصل زندگی میں جاتے تھے۔
‘میٹنگ یو’ نامی دستاویزی فلم ایم بی سی نامی چینل پر دکھائی گئی اور تب سے اب تک اسے لاکھوں جنوبی کوریائی افراد دیکھ چکے ہیں۔
والدہ اور بیٹی کا ‘دوبارہ ملنا’ دستاویزی فلم کا سب سے زیادہ جذباتی سین تھا۔
اس سین میں نا یوان جینگ جی سونگ کی طرف دوڑ کر آتی ہے اور کہتی ہے ‘امی! آپ کہاں رہ گئی تھیں؟ کیا آپ نے میرے بارے میں سوچا؟’
جی سونگ روتے ہوئے اپنی بیٹی نا ایوان کی ورچوئل ریئلٹی کی مدد سے بنائی گئی تصویر کو گلے ملنے کے لیے لپکتی ہیں اور ٹی وی پروڈکشن کریو کے لوگ بھی آنکھوں میں آنسو لیے یہ مناظر دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
وہاں موجود خاندان کے دیگر افراد بھی بہت افسردہ نظر آ رہے تھے۔
وفات پا جانے والے پیاروں سے ‘ملاقات’
اس دستاویزی فلم نے وفات پا جانے والے عزیرواقارب سے ‘ملاقات’ کرنے کے اخلاقی اور نفسیانی اثرات کے بارے میں بحث چھیڑ دی ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ لواحقین کو ذہنی سکون فراہم کر سکتا ہے لیکن کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ انھیں اپنی زندگیوں میں آگے بڑھنے سے روک سکتا ہے۔
یوٹیوب پر پوسٹ کی گئی 10 منٹ کی ویڈیو کو ایک کروڑ 30 لاکھ سے زائد بار دیکھا جا چکا ہے اور اس پر 19 ہزار سے زائد کمینٹس ہیں۔
کچھ صارفین نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ یہ تجربہ جی سونگ کو مزید افسردگی اور ناامیدی کا شکار کر دے گا۔ ایک اور صارف نے خیال کیا کہ آیا یہ تجربہ جنت کا احساس فراہم کر رہا تھا یا دورخ’ کا ہم میں سے بہت سے افراد کے لیے غم المناک مگر زندگی کی اٹل حقیقت ہے اور اگر کسی شخص کے بچے کی وفات ہو جائے تو ان کے غم کو بھلا پانا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
لیکن جی سونگ کے مطابق ان کو اس سے مدد ملی ہے۔ ان کے بیٹی کی وفات کے بعد انھوں نے اس کا نام اپنے جسم پر ٹیٹو کروایا اور اس کی تصاویر پورے گھر میں لگا دیں۔
وفات کے بعد آخری رسومات میں ان کی بیٹی کے جسدِ خاکی کو جلا کر اس کی راکھ محفوظ کر لی گئی۔ انھوں نے اپنی بیٹی کی راکھ کو ایک ہار کی شکل میں گلے میں پہن لیا۔
والدہ کا کہنا تھا کہ ان کے خواب میں نا یوان پریشان لگتی تھیں لیکن ورچوئل ملاقات میں نا یوان مسکرا رہی تھیں۔
بی بی سی کورین سے بات کرنے والے ماہرِ نفسیات کا کہنا ہے کہ جی سونگ کا تجربہ ان کو وقت سے پہلے اپنی بیٹی کو کھو دینے کے دکھ سے نمٹنے میں مدد کر سکتا ہے۔
کوریا یونیورسٹی کے مائنڈ ہیلتھ انسٹیٹیوٹ کی گو سُن کیو کہتی ہیں کہ ‘غیرمتوقع غم کی وجہ سے کچھ عرصے تک شدید درد سے گزرنے والے افراد کے لیے مناسب الوداع کہنا کافی مددگار ہو سکتا ہے۔’
یونسئی یونیورسٹی کی ڈونگ وی لی نے بی بی سی کو بتایا کہ بےچینی، فوبیا، ڈیمینشیا اور ڈیپریشن جیسے امراض کا علاج کرنے کے لیے ورچوئل ریئلٹی اور آگمینٹڈ ریئلٹی کا استعمال کیا جاتا ہے۔
برطانیہ میں ایک ورچوئل ریئلٹی کے پراجیکٹ میں سنہ 1953 میں ملکۂ برطانیہ کی تاج پوشی کو دوبارہ تخلیق کیا گیا تاکہ ڈیمینشیا کے شکار بزرگ مریضوں کی یادداشت واپس لائی جا سکے۔ جیسے ہی وہ گزرے ہوئے وقت میں واپس جاتے ہیں، ان کے ذہنوں میں چھپی ہوئی پرانی یادیں واپس آتی ہیں۔
لیکن پروفیسر ڈونگ وی لی کہتی ہیں کہ ورچوئل ریئلٹی اور غم کے حوالے سے تجربات کرتے ہوئے کاؤنسلر کی خدمات حاصل کرنا ضروری ہیں تاکہ زیادہ غم کے احساس جیسے منفی اثرات سے بچا جا سکے۔
آخری الوداع
پروگرام کے ڈائریکٹر لی ہیون سیوک نے بی بی سی کورین کو بتایا کہ پلاننگ سے لے کر دستاویزی فلم کے مکمل ہونے تک، ٹیم نے بڑے دھیان سے اس منصوبے پر کام کیا اور ہر چیز جی سونگ کی نا یوان کے ساتھ گزری یادوں پر مبنی تھی۔
فلم کے آخر میں نا یوان اپنی والدہ کو ایک پھول دیتی ہیں اور پھر یہ کہہ کر نیچے لیٹ جاتی ہیں کہ وہ تھک گئی ہیں۔ پھر وہ کہتی ہیں کہ وہ ہمیشہ اپنی والدہ سے محبت کریں گی۔
دونوں ایک دوسرے کو الوداع کہتے ہیں اور پھر نا یوان سو جاتی ہیں۔ پھر وہ ایک سفید تتلی میں تبدیل ہو کر آہستہ سے اڑ جاتی ہیں۔