’میں سی سیکشن کو بہت آسان سمجھ رہی تھی۔ مجھے لگا کہ یہ تو کچھ دنوں کی بات ہے۔ لیکن سی سیکشن کے بعد جب میں باقاعدہ بستر پر آ گئی اور نرس آ کر میرے لیے میرا بیڈ اوپر نیچے کرتی تھی، یہاں تک کہ میں ہل نہیں سکتی تھی، تو مجھے لگا میری زندگی ختم ہو گئی ہے۔‘
کراچی سے تعلق رکھنے والی حبیبہ خان سکواش کی کھلاڑی ہیں۔ وہ ان خواتین میں سے ہیں جنھوں نے پاکستان میں آپریشن کے ذریعے بچے کو جنم دیا جسے عام استعمال ہونے والی میڈیکل کی زبان میں سی سکیشن کہتے ہیں۔
حبیبہ کے لیے سب سے بڑی مشکل اُس وقت بنی جب اُن کے بیٹے کی پیدائش کے بعد انھیں چھ ماہ آرام کرنا پڑا جبکہ سی سیکشن کے بعد ڈاکٹر زیادہ سے زیادہ ایک ماہ کا آرام کہتے ہیں لیکن یہ بھی ہر معاملے میں مختلف ہوتا ہے۔
سی سکیشن کیا ہے؟
سی سیکشن بچے کو جنم دینے کے عمل کا ایک طریقہ ہے جو سرجری کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق اس کے بعد نگہداشت ویسے ہی کرنی چاہیے جیسے عام سرجری کے بعد کی جاتی ہے۔
عام طور پر سی سیکشن میں 10 سینٹی میٹر لمبا کٹ لگتا ہے لیکن کٹ کی لمبائی اور اس کی گہرائی جسامت اور ضرورت پر منحصر ہوتی ہے۔
پاکستان میں سال بھر میں ہونے والے سی سیکشن کے اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے گائنا کولوجسٹ ڈاکٹر ثمرینہ ہاشمی نے کہا ’ہر ہسپتال کے مختلف اعداد و شمار ہیں جن کو ایک جگہ کسی سروے کے ذریعے اکٹھا نہیں کیا گیا ہے۔‘
کیا سی سیکشن آپشن ہے یا ضرورت؟
اس سوال پر دو مختلف رائے پائی جاتی ہیں لیکن زیادہ تر ڈاکٹروں کی رائے اور تجربے میں سی سیکشن ایک آپشن سے زیادہ کچھ نہیں اور سی سیکشن شدید ضرورت کے تحت ہی کیا جاتا ہے۔
یہ اُن صورتوں میں ضروری ہے اگر بچہ دانی کا راستہ چھوٹا اور بچہ بڑا ہو، چار گھنٹے تک بچہ باہر نہیں آ رہا ہو، ایمنیوٹک سیک یعنی بچے کے گرد تھیلی نما جلد کا پانی ہرا ہو جائے یا ماں کو ڈیلیوری کے دوران تیز بخار ہوجائے۔ ماں کو دورانِ زچگی یا اُس سے پہلے شُوگر ہونے کی صورت میں بھی سی سیکشن کیا جاتا ہے۔
ان وجوہات کے علاوہ ڈاکٹر ثمرینہ ہاشمی نے بتایا کہ ’عورت کا جسم نارمل ڈیلیوری کے لیے بالکل صحیح ہے۔ دورانِ زچگی ہر درد کے ساتھ بچہ دانی سکڑتی اور صحیح ہوتی ہے۔ ایک گھنٹے میں ایک سینٹی میٹر بچہ دانی کُھلتی ہے۔ اس میں چالیس سیکنڈ کے وقفے کے بعد بچے کو آگے دھکا ملتا ہے۔لیکن اگر بچے کے لیے راستہ نا بن رہا ہو تو اس صورت میں سی سیکشن کرنا پڑتا ہے۔‘
جن خواتین کا پہلے دو بار آپریشن ہو چکا ہو اُن کو تیسری بار سی سیکشن کرنے کے بجائے ڈیلیوری ڈیٹ دے کر درد اٹھنے سے پہلے ہی آپریشن کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر ثمرینہ نے کہا کہ پہلی بار سی سیکشن ہونے کے باوجود بھی دوسری ڈیلیوری نارمل ہو سکتی ہے۔
’لیکن اس میں یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ پہلے سی سیکشن کا زخم نہ پھٹے۔ اس لیے زخم اور ٹانکوں کا خیال کرنے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر دوسری بار ڈیلیوری سے پہلے اس زخم کا جائزہ بھی لیتے ہیں۔‘
برطانیہ میں حکومت کی طرف سے خواتین کو یہ آپشن دیا جاتا ہے کہ وہ آزادانہ طور پر سی سیکشن کرنے یا نا کرنے کا فیصلہ کر سکیں۔
حکومتی ہدایات کے مطابق جو خواتین بنا کسی طبی بنیاد کے سی سیکشن کرنے پر آمادگی ظاہر کریں، اُن کو اس سرجری اور اس کے نتیجے میں ہونے والی مشکلات کے بارے میں آگاہ کیا جائے، جس کی پوری ذمہ داری ڈاکٹر کی ہے۔
اس بارے میں ڈاکٹر ثمرینہ نے کہا کہ پاکستان میں کسی خاتون کو سی سیکشن کرانا چاہیے یا نہیں، یہ حق ڈاکٹر کے پاس ہوتا ہے یا لڑکی کے سُسرال کے پاس۔
’ہماری تو کوشش ہے کہ ہم دائی کو ٹرین کرکے یہ حق دیں کہ وہ خواتین کے ان فیصلوں میں مدد کر سکیں تاکہ ہسپتال آنے سے پہلے لڑکیاں یہ فیصلہ کر کے آئیں۔‘
سی سیکشن کمائی کا ذریعہ، پاکستان میں سی سیکشن کی صورتحال کیا ہے؟
پچھلے سال مارچ میں برطانوی سائنسی جریدے لینسٹ کی ایک تحقیق کے مطابق دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں ہر سال تقریباً تین لاکھ خواتین سی سیکشن کے نتیجے میں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔
لینسٹ میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے لیے کم اور درمیانی آمدن والے 67 ممالک سے ایک کروڑ بیس لاکھ حاملہ خواتین کے ڈیٹا کی جانچ کی گئی جس کے مطابق ہر ایک ہزار سی سیکشنز میں تقریبا آٹھ خواتین ہلاک ہو جاتی ہیں۔
پاکستان میں سی سیکشن کمائی کا ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔
کراچی میں سنہ 2009 سے لے کر سنہ 2013 تک کے عرصے میں ڈاکٹرز نے سی سیکشن کو بچہ جنم دینے کا طریقہ سمجھنے سے گریز کرنے کا کہا ہے کیونکہ ان کے مطابق اس کی ضرورت ہر کیس میں نہیں ہوتی۔
اس بارے میں ڈاکٹر ثمرینہ ہاشمی نے کہا ’اس وقت پاکستان کے زیادہ تر ڈاکٹرز ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال بھاگتے نظر آتے ہیں۔ اس دوڑ میں مریض کو ’آسان عمل‘ بتانے کے چکر میں سی سیکشن تجویز کی جاتی ہے۔ جو لوگ اپنی جان آسانی کے لیے کر لیتے ہیں مگر بعد میں پچھتاتے ہیں۔‘
اس وقت پاکستان کے ہر ہسپتال میں نارمل ڈیلیوری اور سی سیکشن کی قیمت مختلف ہے۔ جہاں نجی ہسپتالوں میں جانے والے مریض 50 ہزار سے ڈیڑھ لاکھ روپے تک دیتے ہیں وہیں سرکاری ہسپتالوں میں نارمل ڈیلیوری چند ہزاروں میں کی جاتی ہے۔
حبیبہ کا پہلے بچے کے دوران مِس کیرج ہوا جس کے بعد دوسری بار انھوں نے زچگی کے دوران بہت احتیاط برتی۔
’اسی احتیاط کو دھیان میں رکھتے ہوئے میں نے اور میرے شوہر نے سی سیکشن کرانے کا سوچا کیونکہ اور کوئی حل نہیں سمجھ آ رہا تھا۔‘
تاہم ڈاکٹر ثمرینہ نے کہا ’سرکاری ہسپتال اس بارے میں بدنام ہیں لیکن وہاں لوگ تب جاتے ہیں جب اُن کا کیس کہیں اور خراب ہوجاتا ہے۔
اس بارے میں اب ہسپتال اپنی طرف سے گائیڈ کے طور پر پمفلٹ بھی بانٹتے ہیں تاکہ لوگ کوئی مشورہ کرنے سے پہلے سوچیں۔‘
ڈاکٹر ثمرینہ نے اپنے ہسپتال میں نارمل ڈیلیوری کے چارجز کم رکھے ہیں تاکہ ’خواتین کو نارمل طریقے سے بچے کو جنم دینے کی طرف مائل کیا جا سکے۔‘
سرجری اور ٹوٹکے؟
ڈاکٹروں کی شکایت ہے کہ عام طور پر خواتین کے آس پاس موجود لوگ انھیں آزمودہ باتوں کے نام پر گمراہ کر دیتے ہیں اور آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے وہ اُن پر عمل کر لیتی ہیں۔
کراچی میں گائنی کے شعبے سے منسلک ڈاکٹر نگہت شاہ نے کہا کہ اُن کے پاس دو طرح کی مریض آتی ہیں۔ ایک وہ جو آپریشن کے فوراً بعد کام کاج شروع کردیتی ہیں، اُن کو کہنا پڑتا ہے کہ وہ آرام کریں اور دوسرے وہ جن کو ڈرایا جاتا ہے کہ بستر سے مت اٹھو۔
’ٹھنڈا پانی نہیں پیو‘
انھوں نے کہا کہ آپریشن کے بعد دواؤں سے زیادہ صفائی کا عمل دخل ہوتا ہے۔ ’جیسے پہلے ہوتا تھا پانی میں نا جاؤ، پانی پیو نہیں اس سے پیٹ نکل آئے گا، یہ ٹھنڈا وہ گرم تو ٹھنڈا گرم کے شواہد تحقیق میں نہیں ملتے۔‘
حبیبہ کے بیٹے کی پیدائش سے پہلے اُن کا بلڈ پریشر بڑھ گیا، ہیپٹائٹس کی تشخیص ہوئی اور شوگر بھی شوُٹ کر گیا۔
’لیکن آپریشن کے بعد ساری چیزیں جیسے رُک گییں ۔میں اپنے آس پاس لوگوں سے پوچھتی تھی کہ مجھے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔ میرے پاس خوراک کا پلان تھا لیکن بڑے بوڑھوں کی بتائی ہوئی باتیں جن میں پنجیری اور پکھی کھانے کے علاوہ سیڑھیاں اترنے چڑھنے سے منع کیا گیا تھا۔‘
اس بارے میں حبیبہ نے کہا ’میں نے سی سیکشن کے بعد ایک ماہ تک اپنے بیٹے کو گود میں نہیں اٹھایا کیونکہ مجھے وزن اٹھانے سے منع کیا گیا تھا۔‘
لیکن بعد میں جب انھوں نے اس بارے میں ایک اور ڈاکٹر کو بتایا تو انھوں نے کہا کہ اس قسم کی کوئی ممانعت نہیں۔
’مجھ پر اتنا خوف طاری تھا کہ یہ نہیں کرنا، وہ نہیں کرنا کہ تین ماہ کے آرام کے بجائے میں نے چھ ماہ احتیاط کی۔ اس کی وجہ سے میں جو کھیل یعنی سکوائش گھنٹوں کھیلتی رہتی تھی، وہ میں دو تین شوٹ کھیلنے کے بعد ہی بیٹھ جاتی تھی۔ میں نے کھیلنے سے پہلے سٹریچ کرنا چھوڑ دیا کیونکہ مجھے ڈر تھا کہ ٹانکے کُھل جائیں گے۔‘
کراچی کی رہائشی عمرانہ وسیم نے بتایا کہ اُنھوں نے آپریشن کے فوراً بعد کام شروع کردیا۔ عمرانہ جوائنٹ فیملی میں رہتی ہیں جہاں ان کے مطابق کم از کم 15 لوگ رہتے ہیں۔
اُن کے روز کے کام میں ناشتے اور دوپہر کے کھانے کے بعد برتن دھونا، روٹیاں بنانے کے لیے گھنٹوں کھڑے رہنا اور کھانے کے بعد چائے بنانا شامل ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ میں سرجری سے پہلے ڈاکٹر کے پاس اپنی ساس کو لے کر گئی اور ڈاکٹر کو کہا کہ اِن سے کہیں مجھ سے کام نا کروائیں۔‘
’میری سرجری ایمرجنسی میں کی گئی تھی۔ میری بیٹی کی پیدائش کے ایک ماہ بعد جب میں چیک اپ کے لیے گئی تو میرے ٹانکوں میں پس بھر چکی تھی۔ پس بھرنے کے نتیجے میں ایک چھوٹی سرجری اور ہوئی اور ٹانکوں کو دوبارہ کھلوا کر لگانا پڑا۔‘
اس بارے میں ڈاکٹر نگہت نے کہا کہ آپریشن کے بعد پیٹ اور اندر کے ٹانکوں کو وقت چاہیے ہوتا ہے ٹھیک ہونے کے لیے۔ جس کی وجہ سے چہل پہل کو سراہا جاتا ہے۔
’اسی طرح اِن ٹانکوں کی صفائی کا خیال بھی رکھنا ہوتا ہے، جو نا ہونے کی صورت میں ٹانکوں کی جگہ پس ہونے اور اُن کے کھلنے کا خدشہ بھی رہتا ہے۔‘
کھانے پینے کے بارے میں ڈاکٹر نگہت نے کہا کہ یا تو مریض کے آس پاس لوگ کہتے ہیں کہ کچھ نہیں کھاؤ پیو یا پھر کہیں گے کہ پنجیری اور حلوے اور گھی اور مکھن کھالو۔
’اگر تو بچے کی پیدائش کے بعد آپ کا وزن بہت ہی کم ہو گیا ہے تو تھوڑا بہت کھا سکتے ہیں۔لیکن یہ کھانے کی بھی ایک مقدار مختص ہوتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پاکستان میں اس پر تو بحث جاری ہے کہ سی سیکشن ہونا چاہیے یا نہیں لیکن سی سیکشن ہونے کے بعد زیادہ تر خواتین کو آرام نہیں کرنے دیا جاتا۔ اس لیے زیادہ تر کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بچے کی پیدائش کے بعد اپنی ماں کے گھر جائیں جہاں ان کا زیادہ خیال رکھا جا سکے۔‘