پاکستان

اٹارنی جنرل انور منصور خان اپنے عہدے سے مستعفی

Share

اٹارنی جنرل فار پاکستان انور منصور خان نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو ارسال کردہ استعفے میں انہوں نے کہا کہ ’میں انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہہ رہا ہوں کہ پاکستان بار کونسل جس کا میں چیئرمین ہوں، نے 19 فروری 2020 کو ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ میں اٹارنی جنرل فار پاکستان کے عہدے سے استعفٰی دوں‘۔

یہ بات مدِ نظر رہے کہ انور منصور خان جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرنے کی درخواستوں میں حکومت کی پیروی کررہےتھے۔

استعفے میں انہوں نے کہا کہ ’کراچی بار ایسوسی ایشن، سندھ بار ایسوسی ایشن اور سپریم کورٹ ایسوسی بار ایسوسی ایشن کے تاحیات رکن کی حیثیت اور اس سے قبل ایڈوکیٹ جنرل سندھ، اٹارنی جنرل فار پاکستان اور سندھ ہائی کورٹ کےجج کے عہدے پر خدمات انجام دینے کی حیثیت سے میں بار میں اپنے بھائیوں اور ساتھیوں کے ساتھ کھڑا ہوں اور پاکستان بار کونسل کے اتحاد اور پیشہ ورانہ مہارت کے اصولوں پر اپنے یقین کی تصدیق چاہتا ہوں جس کے لیے پاکستان بار کونسل ہمیشہ کھڑا ہوا‘۔تحریر جاری ہے‎

اپنے استعفے کے آخر میں انہوں نے کہا کہ ’اس کے مطابق میں اٹارنی جنرل فار پاکستان کے عہدے اپنا استعفیٰ دیتا ہوں اور درخواست کرتا ہوں کہ اسی فوری طور پر قبول کیا جائے‘۔

پاکستان بار کونسل کا مطالبہ

واضح رہے کہ گزشتہ روز پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کے نائب صدرعابد ساقی نے ایک بیان میں اٹارنی جنرل سے غیر مشروط تحریری معافی کا مطالبہ کرتے ہوئے ‘غیرمعمولی طرزعمل’ پر استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا۔

قبل ازیں پی بی سی کے بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستان بار کونسل عدلیہ کی آزادی اور انصاف کی فراہمی کے عمل کو نقصان پہنچانے کے کسی بھی حکومتی زیراثر عمل کو برداشت نہیں کرے گی۔

پی بی سی نے کہا تھا کہ اٹارنی جنرل کا عدالت عظمیٰ میں غیرمعمولی رویہ پریشان کن ہے لہٰذا ان کے اور وزیر قانون کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی جائے گی۔

تاہم بعد ازاں توہین عدالت کی درخواست کا مسودہ تیار کیا گیا تھا لیکن اسے وقت پر دائر نہیں کیا جاسکا۔

معاملے کے آغاز کیسے ہوا؟

خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو چیلنج کے لیے دائر کی گئی درخواستوں پر سپریم کورٹ میں معاملہ زیر التوا ہے۔

اس کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ و دیگر کے وکیل اپنے دلائل دے چکے ہیں اور اب حکومتی موقف کے لیے اٹارنی جنرل کو دلائل دینے تھے، جس پر انہوں نے 18 فروری کو اپنے دلائل کا آغاز کیا تھا۔

18 فروری کو اپنے دلائل کے پہلے روز ہی صورتحال اس وقت ناخوشگوار ہوگئی تھی جب اٹارنی جنرل نے شعلہ بیانی سے دلائل کا آغاز کیا تھا۔ اٹارنی جنرل نے فل کورٹ کے سامنے ایک بیان دیا تھا، جس پر ججز نے انہیں استثنیٰ دیتے ہوئے بیان سے دستبردار ہونے کا کہا تھا، ساتھ ہی مذکورہ بیان کو ’بلاجواز‘ اور ’ انتہائی سنگین‘ قرار دیا تھا۔

اس بیان سے متعلق عدالت نے میڈٰیا کو رپورٹنگ سے روک دیا تھا۔

اسی روز کی سماعت میں اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ انہیں احساس ہے کہ انہوں نے کچھ ایسا کہا تھا جو عدالتی بینچ کے لیے خوشگوار نہیں تھا، جس کے جواب میں بینچ کے رکن جسٹس مقبول باقر نے ردعمل دیا تھا کہ ’یہ بلاجواز’ تھا۔

ساتھ ہی عدالت کے ایک اور رکن جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے تھے کہ انور منصور کو اپنے بیان سے دستبردار ہونا چاہیے۔

تاہم اٹارنی جنرل نے بیان واپس لینے سے انکار کردیا تھا جس کے ساتھ ہی عدالت نے میڈیا کو بیان شائع کرنے سے منع کردیا تھا کیونکہ بعدازاں یہ رپورٹ ہوا تھا کہ ’اٹارنی جنرل اپنے بیان سے دستبردار ہوگئے تھے‘۔