کورونا وائرس
پچھلے کچھ ہفتوں سے دنیا بھر میں چین سے پھیلی ہوئی کورونا وائرس سے افرا تفری مچی ہوئی ہے۔اب تک ہزاروں لوگوں کی جان جاچکی ہے اور آئے دن کورونا وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد دنیا بھرمیں بڑھتی جارہی ہے۔ برطانیہ میں بھی اب تک بارہ لوگ اس وائرس سے متاثر ہوئے ہیں اوراندازہ لگایا جا رہا ہے کہ اس کی تعداد مزید بڑھ سکتی ہے۔ حال ہی میں لندن کے ایک بس کانفرنس میں ایک شخص بیمار ہو گیا تھا اور پتہ چلا ہے کہ اس شخص کو کورونا وائرس تھا۔ جس سے کانفرنس میں موجود ہزاروں لوگوں کو ایک احکام جاری کر کے خبردار کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ برائیٹن میں بھی کئی لوگوں کو کورونا وائرس پائے جانے کی کی اطلاع ملی ہے۔ گویا چین سے پھیلا کورونا وائرس اب دھیرے دھیرے دنیا کے کئی ممالک میں پہنچ چکا ہے جس سے سفر کرنے والوں میں ایک گھبراہٹ پائی جارہی ہے۔ خاص کر چین جانے اور آنے والوں پر خاص نظر رکھی جارہی ہے۔
چین کے صوبے ہوبائی میں بدھ کے روز کورونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد 242ریکارڈ کی گئی جو کہ کورونا وائرس سے مرنے والوں میں سب سے بڑی تعداد ہے۔ یوں تو کورونا وائرس سے اب تک 15,000سے بھی زیادہ لوگوں کی موت ہوچکی ہے اور لگ بھگ
60,000سے زیادہ لوگوں کی اب تک تشخیص کی گئی ہے۔ فی الحال کورونا وائرس رکنے کا نام لے رہا۔ پورے چین میں احتیاطی طور پر اس وائرس کو روکنے اور علاج کا انتظام کا کام زوروں پر چل رہا ہے۔ تاہم فوری طور پر اس وبا سے کوئی راحت نہیں ملی ہے۔چین کے شہر ہوبائی جہاں کورونا وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے وہاں نیولک ایسیڈ کے طریقے کی بجائے اگر کسی شخص کو کورونا وائرس کا شک ہے تو اور سی ٹی اسکین میں اس کا پھیپھڑہ متاثر ہے تو اسے تصدیق شدہ کیس سمجھا جا رہا ہے۔
چین کا دوسرا شہر ووہان ایسا شہر ہے جہاں بھاری تعداد میں لوگ کورونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔ یہاں مرنے والوں میں 135ایسے کیس تھے جن میں صرف علامات ظاہر ہوئی تھیں اور ان کا تشخیص نہیں ہوا تھا۔ اس طرح پورے چین میں افراتفری کا عالم ہے اور کورونا وائرس کے خوف نے لوگوں کا جینا حرام کر دیا ہے۔چین کے ہوبائی صوبے کے دارالحکومت ووہان کو فی الحال لاک ڈاؤن کر دیا گیا ہے۔ تاکہ کورونا وائرس مزید شہروں میں نہ پھیلے۔اسکولوں کو مارچ تک بند کر دیا گیا ہے۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ لگ بھگ لاکھوں لوگوں کی طبی نگرانی کی جارہی ہے تا کہ اس بات کا پتہ لگایا جا سکے کہ ان میں کہیں کورونا وائرس تو موجود نہیں ہے۔ تاہم چینی حکومت کا یہ بھی دعوی ہے کہ ہزاروں لوگوں کو علاج کے بعد ہسپتال سے چھٹی دے دی گئی ہے۔
جاپان میں لنگر انداز مسافر بردار بحری جہاز کے مسافروں میں بھی کورونا وائرس پائے جانے کی تصدیق کی گئی ہے۔ جنہیں اب قرنطینہ یعنی علیحدگی میں گزارنے کے لئے رکھا جا رہا ہے۔ اس جہاز میں سوار 3,700مسافروں میں سے اب تک 130مسافروں میں کورونا وائرس پایا گیا ہے۔
کورونا وائرس کی تحقیق کے لیے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اپنی ایک ٹیم بیجنگ روانہ کی ہے۔ جو چینی صحت ایجنسی کے ساتھ مل کر کورونا وائرس کی روک تھام پر کام کرے گی۔ وہیں عالمی ادارہ صحت نے اس بات کا بھی یقین دلایا ہے کہ جلد کورونا وائرس کی تحقیق کرنے کے بعد اس کے لیے ویکسین کا ایجاد کر لی جائے گی۔
ہانگ کانگ میں بھی مسافروں کو قرنطینہ یعنی علیحدگی گزارنے کا انتظام کیا جارہا ہے۔ ورلڈ ڈریم نامی بحری جہاز پر سوار آٹھ مسافروں میں کورونا وائرس پانے سے انہیں الگ تھلگ رکھا گیا ہے۔ ہانگ کانگ نے چین سے آنے والے ہر مسافر کو دو ہفتے کے قرنطینہ کے عمل کو لازمی قرار دے دیا ہے۔ ایسے لوگوں کو قرنطین کے ذریعہ یہ دیکھا جائے گا کہ کہیں وہ کورونا وائرس سے متاثر تو نہیں ہے۔اب تک ہانگ کانگ میں چھبیس لوگوں میں کورونا وائرس پایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بیجنگ واپس آنے والے تمام لوگوں کے لیے بھی 14 دنوں کا قرنطینہ یعنی علیحدہ گزارنالازمی قرار دیا گیا ہے۔
برطانیہ میں کورونا وائرس سے متاثر لوگوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ برطانوی حکومت نے کورونا وائرس سے محفوظ رہنے کے لیے ایک نوٹس بھی جاری کیا ہے۔ ہسپتال اور دفاتر میں خاص نوٹس لگایا گیا ہے کہ اگر آپ کو کھانسی یا قے وغیرہ جیسی کیفیت ہے تو آپ دفتر نہ آئیں۔ برطانیہ میں کورونا وائرس پانے والے لوگوں کے بارے میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ لوگ پیرس میں کورونا وائرس سے متاثر ہوئے تھے۔ حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر متاثرہ لوگ وائرس کو پھیلانے کا سبب بن سکتے ہیں تو انہیں الگ تھلگ رکھا جا سکتا ہے۔ تاہم فی الحال کورونا وائرس سے متاثر برطانوی لوگوں کے ساتھ ایسا نہیں کیا گیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے خاتمے کی بات کرنا فی الحال مشکل کام ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی ٹیم اس پر دن رات کام کر رہی ہے اور اس کا حل نکالنا فوری طور پر ناممکن ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس ادھا نوم نے کہا ہے کہ کورونا وائرس وبا کوئی بھی رخ اختیار کر سکتا ہے۔ جس سے اس بات کا اندیشہ ہوتا ہے کہ یہ وبا دنیا بھر میں ایک بڑی تباہی مچا سکتی ہے۔ تاہم اس بات کی بھی امید دلائی گئی ہے کہ رواں ماہ تک یہ وبا ممکنہ طور پر اپنے عروج پر پہنچنے کے بعد اس کی شدت میں کمی آنی شروع ہوجائے گی۔
کورونا وائرس کی شروعات کے متعلق سوشل میڈیا پر بے شمار ایسی خبریں پڑھنے کو ملی جس سے ہر انسان الجھ کر رہ گیا ہے۔ ان میں ووہان شہر جہاں سے کرونا وائرس کی شروعات ہوئی سب سے زیادہ چرچامیں ہے۔ ویڈیو میں دِکھایا گیا ہے کہ چینی شوق سے چمگادڑوں کا سوپ نوش کر رہے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ اسی چمگادڑی سوپ کی وجہ سے کورونا وائرس کی شروعات ہوئی ہے۔ جبکہ تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ ویڈیو ووہان کی نہیں ہے بلکہ اسے چین میں فلمایا بھی نہیں گیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے حکام کا کہنا ہے کہ اس وائرس کا نام کورونا وائرس ہے۔ سنہ 2002میں کورونا وائرس سے لگ بھگ 774افراد ہلاک ہوئے اور ہزاروں اس وائرس سے متاثر بھی ہوئے تھے۔کرونا وائرس کے کئی اقسام ہیں جن میں سات ایسی ہیں جو انسانوں کو متاثر کرتی ہیں۔ اس سے بخار ہوتا ہے، سانس کی نلی میں شدید درداور مسئلہ ہوتا ہے۔
ہانگ کانگ یونیورسیٹی کے پبلک ہیلتھ کے صدر گیبرئیل لیونگ کے مطابق کورونا وائرس سے بچنے کی چند احتیاطی تدابیر یہ ہے کہ اپنے ہاتھ بار بار دھوئیں اور اپنے ناک یا چہرے کو مت رگڑیں۔ احتیاط برتے اور باہر جاتے ہوئے ماسک پہن کر رکھیں۔ پر ہجوم جگہوں پر جانے سے اجتناب کریں۔ اگر چین کے شہر ووہان کا سفر کیا ہے تو اپنا طبی معائنہ ضرور کرائیں۔
کرونا وائرس سے جہاں دنیا بھر میں ایک خوف اور افراتفری کا ماحول بن گیا ہے وہیں لوگ اس وائرس سے محفوظ رہنے کے لیے کمر بستہ بھی ہیں۔ زیادہ تر ممالک اپنے اپنے طور پر احتیاتی اقدام اٹھا رہے ہیں تو وہیں عالمی ادارہ صحت بھی اپنی ماہرین کے ساتھ اس وائرس کی روک تھام کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ کورونا وائرس کا جلد خاتمہ ہوگا اور انسان ایک بار پھر اپنی زندگی بنا خوف و خطر ایک صحت مند فضا میں بسر کرے گا۔