تف ایسی جیت پہ جو ہے ہار سے زیادہ شرمناک ۔۔۔۔۔
ضمیر مرجائے توعقل خبط ہو ہی جایا کرتی ہے ۔۔۔۔ لاریب، لاہور میں ہونے والے کبڈی ورلڈ کپ میں بھارت کو شرکت کی اجازت اسی حقیقت کا مظہر تھا ۔۔۔ !
درحقیقت یہ مقابلہ پاکستان جیت کر بھی ہار گیا اور بھارت ہار کر بھی جیت گیا کیونکہ پاکستان کی فتح تو کبڈی کے ایک گراؤنڈ میں ہوئی ہے جبکہ بھارت نے اسےعالمی سطح پہ خارجہ امور کے میدان میں بری طرح سے دھوڈآلا ہے کیونکہ بھارت نے کشمیر سے متعلق پاکستان کے بیانیئے کو مکمل طور پہ اور سرعام پچھاڑ دیا ہے – وہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہا ہے کہ خود پاکستان کے لیئے بھی کشمیر کوئی ایسا سنگین اشو نہیں ہے کہ جس کی بنیاد پہ وہ بھارت کے ساتھ اپنے تعلق کو بگاڑ لے اور اس کا اؤل بڑا ثبوت تو یہ ہے کہ اس نے تاحال بھارت سے سفارتی تعلقات منقطع نہیں کیئے ہیں اور دوئم ثبوت یہ ہے کہ اس نے ہماری کمرشیل فضائی پروزوں کے لیئے بھی اپنی فضائی حدود بند نہیں کی ہیں اور تیسرا بڑا ثبوت اب یہ بھی ہے کہ وہ تو ہمارے ساتھ کھیل کود کی رنگینیوں اور موج میلے کی مستیوں میں بھی شانہ بشانہ کھڑا ہے
مجھے احساس ہے کہ میری اس بات پہ ، کہ خطے کے سنگین حالات کے تناظر میں پاکستان کو اس ٹورنامنٹ کے انعقاد ہی سے معذرت کرلینی چاہیئے تھی ، کچھ لوگوں کی تیوریاں چڑھ جائیں گی اور اسے سطحی جذباتیت سے تعبیر کرایا جائے گا اور بعضے اس کے دفاع میں یہ عذر خواہی بھی کریں گے کہ چونکہ یہ عالمی ٹورنامنٹ پاکستان میں ہونا تھا چنانچہ بھارت کو شرکت سے نہیں روکا جاسکتا تھا وگرنہ خود پاکستان کو اس کھیل کی عالمی فیڈریشن کوئی نہ کوئی سزا دے ڈالتی یا دیگر رکن ممالک کی بھی ناراضگی جھیلنا پڑ سکتی تھی ۔۔۔غیرہ وغیرہ ۔۔۔ لیکن میرا سوال یہ ہے کیا یہ سب تقاضے قومی غیرت کے تقاضوں سے بھی ارفع ہیں اور کیا اس طرح کا انکار کسی ملک کی جانب سے کوئی پہلی مثال ہوتی ۔۔۔ کیونکہ ایسا تو کئی چھوٹے بڑے ممالک اپنے قومی بیانیئے کے دفاع میں پہلے بھی کرچکے ہیں۔۔۔ حتیٰ کہ یہ طرز عمل اجتماعی طور پہ اختیار کیئے جانے کی بہت بڑی مثال بھی موجود ہے جو کہ 1980 میں ماسکو اولمپک کے بائیکاٹ کی صورت سامنے آئی تھی اور اسکی وجہ افغانستان میں روسی جارحیت بنی تھی اور اس موقع پہ امریکی کیمپ سے منسلک متعدد ممالک نے جو کہ اس وقت اکثریت میں تھے ، دنیا کے اس سب سے تاریخی اور سب سے بڑے اسپورٹس ایونٹ سے دوری اختیار کرلی تھی
ویسے بھی کشمیر کو بھارت میں مدغم کرلینے کی سیاہ کاری اب سے تقریباً ساڑھے سات ماہ قبل کی گئی تھی اور اس سے قبل فروری میں بھارت نے پاکستان میں ایبٹ آباد پہ جارحیت کا ارتکاب کرکے اس بائیکاٹ کا رستہ خود ہی کھولا تھا اور اس وقت ہمارے انکار کے باوجود عالمی فیڈریشن کے پاس متبادل جگہ کے انتخاب کا کافی وقت ہوتا اور یقیننا” اس وقت کے نہایت سنگین حالات میں ہمارے انکار کی معقولیت سے کوئی انکار بھی نہیں کرسکتا تھا – تاریخ شاہد ہے کہ گروہوں کو قوم بنانے کا رستہ بڑے فیصلوں ہی کے بل پہ طے ہوتا ہے وگرنہ افراد کے ایسے اجتماع تاریخ میں بھیڑ سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتے اور تاریخ کی مسافت میں گرد راہ بن کے غائب ہوجاتے ہیں – مگر ہم نے اس تاریخی موقع پہ بڑے فیصلے کرنے کے بجائے دنیا کی خوشنودی کے حصول کو پیش نظر رکھا اور یوں اس ٹورنامنٹ سے گریز تو کیا کرتے اس خوفناک جارحیت کے ردعمل میں اپنے کرنے کے کام بھی کرنے کی غیرت بھی بروئے عمل نہ لاسکے اور ایسا کچھ کرنے کی ہمت ہی نہیں کرسکے کہ جس سے عملی طور پہ بھارت کو ظالم و جارح ثابت کیا جاسکتا اور ہر سطح پہ یہ واضح ہوسکتا کہ ہم کو بھارت کی اس سفاکی اور جارحیت پہ بحیثیت قوم کس قدر شدید غم و غصہ ہے ۔۔۔ الٹا یہ ضرور ہوا کہ ستر بہتر برس سے دونوں ممالک کی مسلمہ کنٹرول لائن کو بین الاقوامی سرحد بناڈالنے کے بھارتی اقدام کو کچھ اس طرح سند اعتبار بخش دی گئی کہ اسے عبور کرنے کو قومی مفاد سے غداری ٹہرادیا گیا اور ان کو سرحد پار کرنے سے روکنے کے لیئے اپنی ہی فوج کو ان غیرتمندوں کے سینوں میں گولیاں اتاردینے کے لیئے مستعد کردیا گیا
جہاںتک اب کشمیر کے معاملے کی تازہ صورتحال کی بات ہے تو بالکل صاف اور دوٹوک عرض ہے کہ ہماری حکومت نے نہایت بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس معاملے پہ کشمیریوں سے نہایت سفاکانہ بے وفائی کا ارتکاب کیا ہے اور یہی وہ سیاسی و عسکری قیادت ہے کہ جس کے ہوتے بھارت کو مقبوضہ کشمیر کے انضمام کی جسارت ممکن ہوسکی وگرنہ تو گزشتہ سات دہائیوں میں پاکستان میں کئی اچھی بری حکومتیں اور عسکری قیادتیں آتی گئیں مگر بھارت کی یہ ہمت کبھی نہ ہوسکی تھی ۔۔۔ اورہم نے عملی طور پہ اب کشمیریوں کو انکے حال میں مرنے کے لیئے چھوڑ دیا ہے اور حکومت جو بھی کچھ کر رہی ہے اسے بترین منافقت کے سوا کوئی بھی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا کیونکہ وزیراعظم نےایک جذباتی تقریر سے قوم کی آنکھوں میں جو دھول جھونکی تھی اسکی گرد ذرا صاف ہوئی ہے تو صاف صاف دکھائی دے رہا ہے کہ ہمنے بڑی مکاری سے کشمیریوں کو بیوقوف بناکےپسپائی اختیار کرلی ہے اور عملاً اب سب کچھ ٹھنڈا پڑچکا ہے کیونکہ ہم ابتک اس معاملے پہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس تک تو بلوا نہیں سکے ہیں اور نہ ہی اس کاز پہ اپنے حق میں کچھ ممالک کو ہمنوا بناسکے ہیں اور ہماری اسی بےعملی بلکہ بدعملی کے باعث مغرب کے کھونٹے سے بندھے عرب ممالک اب کافی عرصے سے کھلم کھلا بھارتی کیمپ میں جاچکے ہیں اور کشمیر پہ ہمارے بیانیئے کو تسلیم کرنے ہی سے صاف انکاری ہیں
یہ بات بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہے کے کشمیر کاز سے پیٹھ پھیرلینے والے شرمناک طرز عمل کا آغاز اس جنرل اشفاق کیانی نےکیا تھا کہ جنہوں نے ایک موقع پہ فارمیشن آفیسرز سے ایک خطاب میں کشمیر کاز سے کھلی روگردانی اختیار کرتے ہوئے اس بابت شدید بیزاری ظاہر کی تھی اور نہایت افسوسناک طور پہ اور بالکل واشگاف انداز میں اس سے دوری اختیار کرنے کی ضرورت بھی ظاہر کی تھی اور اس کی ویڈیو کلپ اب بھی یو ٹیوب پہ دیکھی جاسکتی ہے – قومی مفاد اور کشمیر کاز سے اس قدر شرمناک بیوفائی پہ اگر انہیں اس وقت نہ سہی بعد میں بھی قرار واقعی سزا دیدی جاتی تو بعد میں بے عملی کی صورتحال موجودہ بیحسی کی حد تک نہ جاپہنچتی – اب کشمیری کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ امریکی مفادت کے لیئے سرتسلیم خم کیئے ہمارے وزیرخاجہ اور امریکی مفادات کی پاسداری میں ہمہ وقت بیقرار و مضطرب ہماری حکومت اسے خوش کرنے کی راہ میں کس قدر آگے نکل چکی ہے اور بلاشبہ یہ کبڈی ٹورنامنٹ ٹائپ کے ایونٹ تو امریکی خوشنودی کی اصل منزل تک پہنچنے کا محض سنگ میل ہی ہیں
یہ بھی کہتا چلوں کہ میرے لیئے بھی آسان تھا کہ میں بھی اس کھکھیڑ میں نہ پڑوں اور اپنی آنکھیںبند کرکے اس کبڈی ٹورنامنٹ کے موضوع ہی کو گول کردوں ۔۔۔ لیکن کیا کروں کہ میں مشکل پسند ہوں اور اکثر ایسی مصلحت کی ہموار شارع عام پہ چلنے سے گریز کرتا ہوں اور حکمرانوں ، داروں اور قوم کی آنکھیں کھولنے کے لیئے جو کچھ بن پڑتا ہے کر گزروں ۔۔۔ اس عمل میں ظاہر ہے کہ میرا ہتھیار میرے دائیں ہاتھ میں دبا قلم ہے یا پھر بائیں ہاتھ میں تھم رکھا سچائی کا وہ علم ہے کہ جس کا سایہ مجھے اس جہاد بالقلم کی ہمت عطا کرتا ہے