منتخب تحریریں

’’لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘‘

Share

ایچ کے برکی صاحب ہمارے ایک بہت ہی دبنگ بزرگ تھے۔ برسوں ’’’پاکستان ٹائمز‘‘ کے سٹار رپورٹر اور تبصرہ نگار رہے۔ ذوالفقار علی بھٹوکے دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔ ان کی جانب سے ہوئے ہر فیصلے کی حمایت میں ڈٹ کر کھڑے ہوجاتے۔

جنرل ضیاء نے اقتدار سنبھالتے ہی انہیں نوکری سے فارغ کردیا تھا۔اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ ’’پاکستان ٹائمز‘‘سے فراغت کے بعد انہیں کوئی اور ادارہ اپنے ہاں ملازم نہ رکھے۔برکی صاحب نے بہت آن سے بے روزگاری کے طویل ایام کو برداشت کیا۔ شام ہوتے ہی ’’ڈان‘‘ کے اسلام آباد بیورو میں آجاتے جو ان دنوں ایف-6کی سپرمارکیٹ میں واقع ایک عمارت کی دوسری منزل پر تھا۔وقت گزاری کے لئے اکثر ’’دی مسلم‘‘ کے دفتر بھی آجاتے۔ ’’پاکستان ٹائمز‘‘ کے بہت دھانسو شمار ہوتے ایڈیٹر خواجہ آصف بھی ان ہی کی طرح جنرل ضیاء کے عتاب کا نشانہ بنے تھے۔ انہیں مگر ’’دی مسلم‘‘ نے بہت خاموشی سے ’’سینئر نیوز ایڈیٹر‘‘ بنادیا۔ہم رپورٹروں کی لکھی خبروں کو ایک کونے میں بیٹھ کر بہت محنت سے پڑھنے کے قابل بنانے کی مشقت میں مصروف رہتے تھے۔

خواجہ صاحب اور برکی صاحب بہت ہی Snobتھے۔نوجوان صحافیوں کو انہیں سلام کرنے کی جرأت بھی نہیں ہوتی تھی۔ان کی جانب سے کسی رپورٹر کے ساتھ ازخود بات چیت کا آغاز بڑا واقعہ شمار ہوتا تھا۔میری خوش نصیبی کہ یہ دونوں بزرگ میرے ساتھ کافی بے تکلف پنجابی بولتے۔ خواجہ صاحب تو مختصرگوتھے۔ تعریف یا تنقید میں محض ایک فقرہ بول کر اپنے کام میں مصروف ہوجاتے۔برکی صاحب کی لیکن مجھے ہمیشہ ڈانٹ ہی نصیب ہوئی۔میری لکھی خبر میں انگریزی کی غلطیاںانہیں ازبرہوتیں۔ مجھے دیکھتے ہی بلند آواز میں ان کا ذکر شروع کردیتے۔ میں نے ایک بار تنہائی میں ان سے گلہ کیا کہ وہ بھری محفلوں میں مجھ ہی کو اپنی ’’شفقت‘‘ کا نشانہ کیوں بناتے ہیں۔ان کے دل میں رحم مگر نہیں آیا۔ بہت سختی سے مجھے بتایا کہ انہیں بخوبی علم ہے کہ میں انگریزی ادب کا سنجیدہ قاری بھی ہوں۔مجھ سے زبان وبیان کے ضمن میں ہوئی غلطیاں لہذا وہ برداشت نہیں کرپاتے۔ ان کا اصرار تھا کہ نسبتاََ کم عمر میں رپورٹروں والی ’’شہرت‘‘ نے مجھے زبان کے حوالے سے غافل اور کاہل بنادیا ہے۔’’تم پھنے خان بن گئے ہو۔ تمہارے سرکو (شہرت) چڑ ھ گئی ہے۔اپنی اوقات میں واپس آئو اور درست زبان لکھنے پر توجہ دو‘‘۔

بہت عرصے بعد برکی صاحب کی یاد یہ کالم لکھنے کے لئے قلم اٹھاتے ہی اس لئے آئی کہ امریکی صدر ٹرمپ اس ہفتے کے آخر میں بھارت پہنچ رہا ہے۔ارادہ باندھا تھا کہ اس ہفتے کا آخری کالم اس کے دورے کے اسباب اور ممکنہ نتائج کے ذکر تک محدود رکھوںگا۔قلم اٹھایا تو ذہن میں ان کی زناٹے دار آواز میں ادا ہوا ایک فقرہ گونج گیا۔اس فقرے نے چونکادیا۔ بہت کچھ یاد آگیا۔

1999میں جنرل مشرف کے ٹیک اوور کے چند ہی مہینوں بعد مجھے حکم ہوا کہ جس انگریزی اخبار سے وابستہ تھا اس کا نئی دلی میں مقیم مستقل نمائندہ ہونے کی تیاری کروں۔ میں اپنی ماں،بیوی اور بچیوں کی وجہ سے بھارت میں طویل قیام کو تیار نہیں تھا۔ درمیانی راہ یہ نکالی کہ تین ماہ بھارت میں گزارنے کے بعد دو مہینے اسلام آباد آجایا کروں۔دوکشتیوں کا سوار ہوگیا۔ اکثر سمجھ نہیں آتی تھی کہ کس شہر میں مقیم ہوں۔مستقل مسافر ہونے کی کیفیت ذہن پر طاری رہتی۔ جوانی کے خمار میں لیکن اسے بھگت لیا۔

بھارت میں خبریں ڈھونڈتے ہوئے مجھے دریافت ہوا کہ وہاں کی حکومت ہی نہیں شہری متوسط طبقے کی بے پناہ اکثریت بھی امریکہ کے ساتھ ’’گوڑھی دوستی‘‘ استوار کرنے کو بے چین ہورہی ہے۔راولپنڈی کے ایک جید اور انتہائی مہمان نواز سیاسی کارکن سید کبیر علی واسطی صاحب کے ہاں میرے سینئر لوگوں کی ایک محفل تھی۔ وہاں بہت فکر مندی سے میں بہت تفصیل کے ساتھ اس ضمن میںاپنا ’’تجزیہ‘‘ پیش کرتا رہا۔خلافِ توقع برکی صاحب نے بہت غور سے میرے ’’خدشات‘‘ کو بغیر کچھ کہے بہت دیر تک سنا۔ میرا ’’خطاب‘‘ اپنے اختتام کے قریب پہنچا تو گویا مجھے تسلی دینے کے لئے برکی صاحب نے پنجابی میں کہا کہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔خدا سے بلکہ دُعا مانگو کہ امریکہ اور بھارت ایک دوسرے کے بہت قریب آجائیں۔ ایسا ہوگیا تو بھارت جواُس وقت تک دُنیا کے سامنے بہت ’’سیکولر‘‘ اور جمہوری ملک نظر آرہا تھا اپنا ’’اصل چہرہ‘‘ بے نقاب کرنے کو مجبور ہوجائے گا۔

ایمان داری کی بات ہے کہ مجھے برکی صاحب کی اس ضمن میں برتی ’’خوداعتمادی‘‘ ٹھوس حقائق سے عدم آگہی کے باعث ادا ہوئی ’’یاوہ گوئی‘‘ محسوس ہوئی۔ مارے احترام کے خاموش رہا۔ویسے بھی ان کے دعوے کو رد کردیتا تو سوائے ’’بے عزتی‘‘ کے اور کچھ حاصل نہیں ہونا تھا۔

یہ کالم لکھنے کے لئے جب قلم اٹھایا۔ ذہن میں برکی صاحب کا ادا کردہ فقرہ گونجا تو احساس جرم میں مبتلا ہوگیا۔بہت دیر بعد حقیقی معنوں میں ادراک ہوا کہ ہمارے ایک بہت ہی تجربہ کار اور غوروفکر کے عادی بزرگ نے محض اپنے تجربے اور مشاہدے کی بنا پر طویل المدتی تناظر میں وہ حقیقت دریافت کرلی تھی جو مجھ جیسا رپورٹر محض ’’ظاہر‘‘ پر توجہ محدود رکھنے کی وجہ سے محسوس تک نہیں کرپایا تھا۔

پاکستان کی امریکہ کے ساتھ ’’محبت‘‘ کا آغاز 1950کی دہائی کے آغاز کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا۔اس ’’محبت‘‘ کی بدولت ہمارے ہاں جمہوری نظام مستحکم نہ ہوپایا۔آٹھ برس بعد ایوب خان نے مارشل لاء لگادیا۔ صدارتی نظام متعارف ہوا۔ پریس پرمکمل کنٹرول کے ہزاروں ہتھکنڈے ایجاد ہوئے۔لوگوں کو مگر یہ گماں رہا کہ ہم ’’عشرئہ ترقی‘‘ میں جی رہے ہیں۔صنعت کاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ ’’زرعی انقلاب‘‘ آگیا ہے۔ڈیم بن رہے ہیں۔خوش حالی کے درکھل رہے ہیں۔ ’’عشرئہ ترقی‘‘ کا انجام مگرایک اور مارشل لاء کی صورت میں برآمد ہوا۔اس کے بعد 1970کے انتخابات ہوئے اور پاکستان سے مشرقی پاکستان چھن گیا۔

جنرل ضیاء کے 1977میں لگائے مارشل لاء کے بعد امریکہ سے ہماری ’’محبت‘‘ دوبارہ شدید تر ہوگئی۔دُنیا کے روبرو انسانی حقوق کے چمپئن بننے امریکہ نے ہمارے ہاں سیاسی عمل اور آزادیٔ اظہار کو ’’جرم‘‘ بنانے میں ضیاء حکومت کی بھرپور تائید کی۔افغانستان کو مگر ’’مجاہدین‘‘ کے ذریعے ’’آزاد‘‘ کروانے کا فیصلہ ہوا۔’’جہاد‘‘ کی تڑپ نے مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیا۔

دس برس تک جدید ترین ہتھیاروں کی مدد سے پھیلائی اس انتہا پسندی نے جب اس کے خالق اور سرپرستوں کو نائن الیون کے ذریعے حیران وپریشان کیا تو جنرل مشرف کے ذریعے ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف جنگ شروع ہوگئی۔امریکہ سے ’’دوستی‘‘ ہر اعتبار سے پاکستان میں استحکام،جمہوری نظام اور آزادیٔ اظہار کی روایتوں کے لئے زہر قاتل ثابت ہوئی۔

امریکہ سے بھارت کی ’’دوستی ‘‘ کا آغاز 1990کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں ہوا تھا۔نرسیما رائو کی حکومت اس وقت دیوالیہ ہونے کے قریب تھی۔ اسے ورلڈ بینک سے قرض لینے کے لئے اپنا سوناگروی رکھنا پڑا تھا۔ معیشت کو ’’بحال‘‘ کرنے کے لئے نہرو کے نام سے وابستہ کانگریس کو ورلڈ بینک کے ایک چہیتے من موہن سنگھ کو اپنا ویسا ہی بااختیار مشیر خزانہ بنانا پڑا جو ان دنوں ڈاکٹر حفیظ شیخ کی صورت پاکستان میں نظر آرہے ہیں۔

تاریخ کا جبر کہہ لیں یا ہولناک لطیفہ۔حقیقت مگر یہ ہے کہ من موہن سنگھ کے ذریعے نہرو کے متعارف کردہ معاشی نظام سے اس کی ’’وارث‘‘جماعت کانگریس کی حکومت کے ذریعے ہی نجات پائی گئی۔من موہن سنگھ کی دی پالیسیوں کی بدولت دُنیا میں یہ کہانی بھی پھیلی کہ بھارت میں شہری متوسط طبقے کی ایک بہت ہی مؤثر تعداد نمودار ہورہی ہے۔20کروڑ تک پہنچی اس تعداد کی ’’خوش حالی‘‘ نے بھارت کو دُنیا کی ایک بہت بڑی ’’منڈی‘‘ بناکر دکھایا۔کہانی یہ بھی پھیلی کہ دُنیا کی آبادی کے اعتبار سے ’’سب سے بڑی جمہوریت‘‘ میں اُبھرتا متوسط طبقہ بھارت میں جمہوری نظام کو توانا تر بنائے گا۔دُنیا کے بیشتر ممالک اس کے رشک میں مبتلا ہوجائیں گے۔اس کی نقالی کو مجبور ہوں۔

ورلڈ بینک کے چہیتے من موہن سنگھ نے مگر جس متوسط طبقے کو بڑھاوادیا وہ ہندوانتہاپسندی کا کٹرحامی ہوچکا ہے۔جمہوری اقدار کے بجائے مودی کے پھیلائے فاشزم کا دل وجان سے حمایتی ہے۔5اگست 2019کے دن سے مقبوضہ کشمیر کو دُنیا کی وسیع تر جیل بنانے کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا۔ واضح طورپر مسلم دشمن شہریت والے قوانین کے نفاذ سے بھی پریشان نہیں ہوا۔’’غداروں کو گولی مارو‘‘ کی ترغیب دیتا ہے ۔ پاکستان کے فیض احمد فیض جو 1950کی دہائی میں امریکہ-پاکستان ’’دوستی‘‘ کی وجہ سے اپنے وطن میں ’’غدار‘‘ٹھہرائے گئے تھے اب بھارت میں مزاحمت کی علامت ہیں۔’’لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے…‘‘بنیادی حقوق کے حصول کی جدوجہد کا ترانہ بن چکا ہے۔

ٹرمپ 23فروری کے روز اپنے ملک سے سیدھا گجرات کے دارالحکومت احمد آباد پہنچے گا۔ مودی کا عروج اس شہر ہی سے شروع ہوا تھا۔گجرات کا وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے اس نے مسلمانوں کے قتل عام کی ڈھٹائی سے سرپرستی کی۔امریکہ میں اس سرپرستی کی وجہ سے اس کا داخلہ ممنوع ہوا۔ٹرمپ مگر اب براہِ راست احمد آباد میں اُتر کر درحقیقت مودی کی مذہبی انتہا پسندی کا اثبات ہی کرتا پایا جائے گا۔میں یہ بات تسلیم کرنے سے انکاری ہوں کہ ’’سادہ لوح‘‘ ٹرمپ کو ’’احمد آباد‘‘ اُترنے کی علامتی اہمیت کا ادراک نہیں۔ گجرات سے اس کے بھارتی دورے کے آغاز کا فیصلہ بہت غوروخوض کے بعد ہوا ہے۔یروشلم کو اسرائیل کا باقاعدہ دارالحکومت تسلیم کرنے کے بعد امریکی صدر اب احمد آباد پہنچ رہا ہے۔ یہ دونوں فیصلے مسلمانوں کے خلاف تعصب کا بھرپور اظہار ہیں۔مودی اس کے دورئہ بھارت کے بعد ڈھٹائی سے ہندوانتہاپسندی پر کاربند ہونے کو ڈٹ جائے گا۔ڈونلڈٹرمپ کی صورت میں اسے ایک طاقت ور ترین ’’حلیف‘‘ مل جائے گا۔