دنیابھرسے

افغانستان میں ’تشدد میں کمی‘ کے ہفتے کا آغاز 22 فروری سے

Share

افغان حکام کا کہنا ہے کہ امریکی مذاکرات کاروں اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں ایک ہفتے کے لیے جس ’تشدد میں کمی‘ پر اتفاق کیا تھا اس کا آغاز 22 فروری سے ہو رہا ہے۔

افغانستان کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جاوید فیصل نے بی بی سی کے نامہ نگار محفوظ زبیدی سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ جمعے کی شب 12 بجے سے فریقین پرتشدد کارروائیوں میں کمی لائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ایک ہفتے تک پرتشدد کارروائیوں کا سلسلہ رکا رہا تو تو آئندہ اختتامِ ہفتہ پر امن معاہدے پر دستخط ہو جائیں گے۔

تاحال طالبان یا امریکی حکام کی جانب سے اس تاریخ کی تصدیق نہیں کی گئی ہے تاہم قطر کے دارالحکومت دوحہ میں قائم طالبان کے دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے جمعرات کو بی بی سی کے عزیز اللہ خان کو بتایا تھا کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری امن مذاکرات کے تحت افغانستان میں فریقین پہلے پُرتشدد کارروائیاں روکنے کے حوالے سے ایک اعلامیہ جاری کیا جائے گا اور پھر اس مہینے کے آخر تک امن معاہدے پر دستخط ہوں گے۔

سہیل شاہین نے ٹیلیفون پر بی بی سی اردو سے بات کرتے ہویے بتایا کہ اعلامیہ جلد جاری کر دیا جائے گا جس میں یہ تاریخ باقاعدہ تحریر کی جائے گی کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے پر دستخط کب کیے جائِیں گے۔

سہیل شاہین
سہیل شاہین کے مطابق دونوں جانب سے معاہدے پر دستخط یا معاہدے سے کچھ روز پہلے افغانستان میں پرامن ماحول قائم کیا جائے گا اور وہ اس پر ثابت قدم رہیں گے

انھوں نے کہا کہ دونوں جانب سے معاہدے پر دستخط یا معاہدے سے کچھ روز پہلے افغانستان میں پرامن ماحول قائم کیا جائے گا اور وہ اس پر ثابت قدم رہیں گے۔

سہیل شاہین نے مزید بتایا کہ انھوں نے پہلے بھی کہا تھا اور آج بھی یہی کہتے ہیں کہ دونوں جانب سے معاہدے پر دستخط اس مہینے کے آخر تک متوقع ہیں۔طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ اعلامیہ آج یا کل جاری ہو سکتا ہے اور تشدد کے روک تھام کی ممکنہ تاریخ بائیس فروری ہو گی۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ پُرامن فضا ایک ہفتے تک جاری رہے گی جس میں دونوں جانب سے کسی قسم کے تشدد کی کارروائیاں نہیں کی جائیں گی۔

دونوں جانب سے اس پُرامن ماحول کی نگرانی بھی کی جائے گی اور پھر اس کے بعد معاہدے پر دستخط کیے جا سکیں گے۔ ذرائع نے بتایا کہ یہ دستخط اس مہینے کے آخری دو دن جیسے 28 یا 29 فروری ہو سکتے ہیں یا یکم مارچ تک دستخط کیے جا سکتے ہیں۔

خیال رہے کہ گذشتہ سال ستمبر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ ایک سال طویل امن مذاکرات کو معطل کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’طالبان سے بات چیت مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے۔‘

ان مذاکرات کی معطلی کی وجہ بظاہر مذاکرات کے دوران کابل میں ایک حملہ بتائی گئی تھی تاہم افغان حکومت نے اس موقع پر کہا تھا کہ وہ دیرپا امن کے لیے پرعزم ہیں۔

انھوں نے امریکی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ان کے ساتھ مل کر قیام امن کے لیے کام کریں۔ بعدازاں دسمبر 2019 میں امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے قطر میں دوبارہ مذاکرات شروع کیے تھے۔

امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات مکمل ہو چکے ہیں اور دونوں جانب سے مذاکرات کامیاب قرار دیے جا چکے ہیں جس کے نتیجے میں امریکہ افغانستان سے بتدریج اپنی فوجیں نکالے گا اور اسے ایک محفوظ راستہ چاہیے ہو گا۔

زلمے خلیل زاد اور ملا عبدالغنی برادر
امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد (دائیں) اور دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر (بائیں)

مبصرین کے مطابق اس معاہدے سے جہاں امریکہ افغانستان میں اپنی طویل جنگ کو اختتام دے سکے گا وہیں افغان حکومت کے لیے اس کے بعد کٹھن فیصلے ہوں گے۔ افغانستان میں انتخابات کے نتائج کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا ہے جن میں اشرف غنی کامیاب رہے۔

اشرف غنی کے مخالف عبداللہ عبداللہ نے ان نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اپنی حکومت قائم کریں گے۔ مگر کیا طالبان ان انتخابی نتائج کو تسلیم کریں گے؟ اور ایسی کسی بھی صورتحال کے پیدا ہونے سے امریکہ کا کیا رد عمل ہو سکتا ہے؟

صدر اشرف غنی نے چند روز پہلے کہا تھا کہ دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ کامیابی سے ہمکانار ہونا چاہیے۔

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی چند روز پہلے کہا تھا کہ امریکہ اور طالبان کو اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور جلد از جلد اس معاہدے کو عملی شکل دینی چاہیے تاکہ خطے ریجن میں امن قائم ہو سکے اور ایسے عناصر کو موقع نہیں ملنا چاہیے جو اس امن کے قیام کی راہ میں رکاوٹ بننا چاہتے ہیں۔

افغان امن معاہدہ اہم کیوں ہے؟

سنہ 2001 میں امریکی سربراہی میں ایک بین الاقوامی اتحاد نے طالبان کی حکومت کو 9/11 کی ذمہ دار تنظیم القاعدہ کو پناہ دینے کی الزام میں ہٹا دیا تھا۔

گذشتہ برسوں کے دوران کئی مرتبہ امریکی حکام اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات کی بات ہوچکی ہے۔ ان کا مقصد امریکی فوج کے انخلا کے بدلے اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ افغان سر زمین پر غیر ملکی انتہا پسندوں کو رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

ٹرمپ
ستمبر 2019 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ ایک سال طویل امن مذاکرات کو معطل کر دیا تھا

یہ معاہدہ امریکہ، افغانستان، ٹرمپ انتظامیہ اور خطے کی صورتحال کے مستقبل کے لیے اہم ہے۔

اس معاہدے سے ممکنہ طور پر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کا آغاز ہوگا جبکہ امریکہ کے افغانستان سے اپنی فوجوں کے انخلا کی راہ ہموار ہو گی۔

اس کے نتیجے میں امریکہ کی سب سے لمبے عرصے تک چلنے والی جنگ شاید ختم ہو جائے گی۔ ممکن ہے کہ اس سے رواں سال امریکی صدارتی انتخابات میں حصہ لینے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی فوجیوں کو گھر واپس لانے کا اپنا وعدہ وفا کر سکیں گے۔

تاہم فی الحال یہ ظاہر نہیں کہ کیا افغانستان کے لیے یہ ایک جامع امن معاہدہ ہو گا اور پورے ملک پر اس کا اطلاق ہوگا یا یہ صرف ایک ایسا معاہدہ ہو گا جو امریکہ کو افغانستان سے نکلنے کا موقع فراہم کرے گا۔