پاکستان

خالد جاوید خان کو انور منصور کی جگہ پاکستان کا نیا اٹارنی جنرل بنانے کا فیصلہ

Share

وفاقی حکومت نے خالد جاوید خان کو پاکستان کا نیا اٹارنی جنرل مقرر کر دیا ہے۔

وزیر اعظم کی مشیر برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں خالد جاوید کی تعیناتی کی تصدیق کی اور کہا کہ انھیں ملک کا نیا چیف لا افسر یعنی اٹارنی جنرل مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ان کی تقرری انور منصور خان کی جگہ عمل میں آئی ہے جو جمعرات کو مستعفی ہو گئے تھے۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے بارے میں صدارتی ریفرنس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کرنے والے بینچ میں شامل چند ججوں کے خلاف متنازعہ بیان دینے پر انور منصور سے استعفیٰ لے لیا گیا تھا۔

ٹویٹ

خالد جاوید خان کون ہیں؟

خالد جاوید خان آئینی امور کے علاوہ ریونیو اور ٹیکسیشن کے امور میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔

وہ سنہ 2018 میں ملک میں عام انتخابات سے قبل نگراں دور حکومت میں بھی اٹارنی جنرل کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں جبکہ اس سے قبل وہ سنہ 2013 میں سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل بھی رہے ہیں۔

ان کے والد پروفیسر این ڈی خان کا تعلق سندھ کی حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے جو سنہ 1996 میں سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں وزیر قانون بھی تھے۔

خالد جاوید خان نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں نئی ذمہ داریوں کے بارے میں آگاہ کر دیا گیا ہے تاہم انھیں اس ضمن میں نوٹیفکیشن جاری ہونے کا انتظار ہے۔

انھوں نے کہا کہ ان کی اولین ترجیح عدلیہ کی آزادی اور قانون کی حکمرانی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ مختلف مقدمات میں وفاق کے موقف کو بھی احسن انداز میں پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔

خالد جاوید خان

خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی چیز خلاف قانون ہو تو ان میں اتنی اخلاقی جرات ہے کہ وہ اس بارے میں وفاق کو یہ رائے دے سکتے ہیں کہ وہ اسے قانون میں دائرے میں لے کر آئے۔

کیا قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس روک دیا جائے گا؟

جسسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سپریم جوڈیشل میں کارروائی روکنے سے متعلق درخواست کی سماعت کے بارے میں جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ بطور اٹارنی جنرل اس بارے میں دلائل دیں گے تو نئے تعینات ہونے والے اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ وہ اس ضمن میں 24 فروری کو عدالت میں ایک بیان ریکارڈ کروائیں گے۔

واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق سپریم کورٹ میں درخواستوں کی سماعت کے دوران مستعفی ہونے والے اٹارنی جنرل انور منصور وفاق کی نمائندگی کرتے ہوئے دلائل دے رہے تھے جبکہ انھوں نے ایک متنازع بیان دیا جس سے بعد میں وفاق نے لاتعلقی کا اظہار کر دیا۔