پاکستان فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی بلیک لسٹ سے بچنے کے لیے ’پراعتماد‘
منی لانڈرنگ اور ٹیرر فناسنگ کی روک تھام کے لیے بنایا گیا بین الاقوامی ادارہ، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس پاکستان کو ‘گرے لسٹ’ میں رکھنے یا اس کی حیثیت بدلنے سے متعلق فیصلے کا اعلان جمعے کو کر رہا ہے۔
اجلاس کا فیصلہ آنے سے قبل اس سلسلے میں حتمی رائے تو نہیں دی جاسکتی لیکن پاکستان کی نمائندگی کرنے والا وفد پراعتماد ہے کہ پاکستان کے اقدامات کی بدولت اسے گرے لسٹ سے جلد نکال دیا جائے گا۔
گذشتہ تین ماہ سے انڈیا کی حکومت اور اس کے اتحادیوں کی کوشش رہی کہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کروایا جائے کیونکہ بقول انڈیا، پاکستان دہشت گردی کے کی روک تھام اور اس کی مالی اعانت کو روکنے کے اقدامات میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر سکا۔
لیکن چین، ترکی اور ملائشیا سمیت پاکستان کے بعض اتحادیوں کا موقف رہا ہے کہ پاکستان اپنے محدود وسائل میں جتنے اقدامات کر رہا ہے ان سے یہ واضح ہے کہ ملک شدت پسندی کی مالی اعانت پر کاری ضرب لگا رہا ہے۔
اس ضمن میں پاکستان لشکر طیبہ اور جماعت دعویٰ کے سابق سربراہ حافظ محمد سعید کو حالیہ دنوں میں سنائی گئی سزا کی مثال پیش کر رہا ہے۔
خیال رہے کہ حافظ سعید کو لاہور کی ایک عدالت نے دہشت گردی کی مالی اعانت کرنے کے دو الگ الگ الزامات میں سے ہر الزام میں ساڑھے پانچ برس کی سزا سنائی ہے۔
جہاں پاکستانی حکام بلیک لسٹ میں شامل نہ ہونے کے لیے پرامید ہیں وہیں پاکستان کا گرے لسٹ سے نکلنا بھی ممکن نظر نہیں آ رہا۔
پیرس میں ایف اے ٹی ایف کے اجلاسوں پر نظر رکھنے والے ایک صحافی خالد حمید فاروقی کے مطابق پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے 12 ووٹوں کی ضرورت ہے جبکہ اس وقت اسے صرف تین یا چار ارکان کی ہی حمایت حاصل ہے۔
پاکستان کے پکے اتحادی اور حمایتی چین، ترکی اور ملائشیا ہیں لیکن دنیا کی عالمی اور تجارتی سیاست جاننے والوں کو اندازہ ہے کہ تقریباً تمام عالمی اداروں کا رویہ کسی بھی ملک کی جانب امریکی رویے کے تناظر میں قائم ہوتا ہے۔
دنیا کے بیشتر ممالک کے امریکہ کے ساتھ گہرے سیاسی، تجارتی اور دفاعی تعلقات ہیں، جنہیں وہ پاکستان کے لیے خراب کرنا نہیں چاہتے۔ ساتھ ہی، انڈیا ایک ابھرتی ہوئی معیشت ہے اور تمام ممالک اس کے ساتھ بھی اپنے معاشی تعلقات گہرے کرنے کی دوڑ میں ہیں۔
ایسی صورتحال میں اگر پاکستان کی جانب سے بھی مبینہ دہشت گرد گروپوں کے خلاف بھرپور کارروائی نہ دیکھی جائے تو پھر بیشتر ممالک کے لیے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلنے کی حمایت حاصل کرنا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔
کسی ملک کو ’زیر نگرانی‘ یعنی گرے لسٹ میں رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ ایف اے ٹی ایف کا ایک ذیلی ادارہ ’انٹرنیشل کوآپریشن رویو گروپ‘ یعنی آئی سی آر جی کرتا ہے۔
اس ادارے کے ایک ذریعے کے مطابق پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے 39 ارکان میں سے 12 کی حمایت درکار ہے اور اگر وہ ان معاملات میں غیرمعمولی پیش رفت کرتا ہے جن کا مطالبہ ایف اے ٹی ایف کر رہا ہے یا اسے امریکہ کی بھرپور حمایت حاصل ہوجاتی ہے تو پھر اس کے گرے لسٹ سے نکل جانے کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔
ایف اے ٹی ایف کے ایشیا پیسیفک گروپ نے گذشتہ برس نومبر میں بیجنگ میں ہونے والے اپنے اجلاس میں بتایا تھا کہ پاکستان کو دہشت گردی کی مالی مدد کی روک تھام اور کالے دھن کو صاف کرنے کے سلسلے میں جو 27 نکاتی ایکشن پلان دیا گیا تھا ان میں سے 14 پر عملدرآمد کیا گیا ہے۔
تاہم انڈیا ایف اے ٹی ایف کے اتوار سے شروع ہونے والے حالیہ اجلاس میں یہ نکتہ اٹھاتا رہا کہ پاکستان بقیہ تیرہ نکات پر عملدرآمد کرنے سے اجتناب برت رہا ہے اس لیے اسے بلیک لسٹ کیا جائے۔
انڈیا نے یہ دلیل بھی دی ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے دہشت گرد قرار دیئے جانے والے مبینہ ماسٹر مائینڈ مسعود اظہر کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
ایف اے ٹی ایف نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ تمام شدت پسند گروہوں کے سربراہان کے خلاف بھرپور کارروائی کرے اور خاص طور پر سزائیں سنانے کی شرح کو بہتر بنائے۔
پاکستان میں گذشتہ برس سے اب تک لگ بھگ دو ہزار ایسے مقدمات درج کئے گئے ہیں جن میں دہشتگردی کی مالی اعانت اور منی لانڈرنگ کے الزامات ہیں لیکن سزائیں صرف پچاس کے قریب مقدمات میں ہوئی ہیں۔ اس کم تعداد کو ایف اے ٹی ایف نے غیر اطمینان بخش قرار دیا ہے۔
تاہم پاکستان کے وزیر برائے اقتصادی امور، حماد اظہر کی قیادت میں ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والا وفد پر اعتماد ہے کہ پاکستان کے اقدامات کی بدولت اسے گرے لسٹ سے جلد نکال دیا جائے گا، اور فی الحال بلیک لسٹ سے بچنے کو ہی وہ اپنی کامیابی تصور کر رہا ہے۔