مسجد کا دینی تصور
مسجد رزم گاہ میں بدل جائے تو جان لینا چاہیے کہ ہمارے فہمِ دین میں بنیادی خلل واقع ہو گیا ہے۔
چند روز پہلے اسلام آباد کی لال مسجد کے قریب سے گزرا تو آزردگی نے گھیر لیا۔ معلوم ہوتا تھا مسجد نہیں کوئی قلعہ ہے۔ چاروں طرف با وردی سپاہی، خاردار تار اور خوف کی فضا۔ باہر کا یہ منظر، اندر کی کہانی سنا رہا تھا۔ اس کہانی کے کئی ابواب تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہو گئے یا گمنام قبرستانوں میں دفن ہو گئے۔ مسجد کا ماحول بتا رہا تھا کہ اس داستان کا آخری باب ابھی رقم نہیں ہوا۔ کیا معلوم کاتبِ تقریر کے ذہن میں اس کا کیا انجام ہے؟ یہ سوال بھی اہم ہے کہ اس کا انجام تقدیر لکھنے والے کے ہاتھ میں ہے یا انسانوں کے ہاتھ میں؟
مسجد و معبد اللہ کے لیے ہے۔ اللہ کا آخری الہام یہی بتاتا ہے۔ یہ یہود و نصاریٰ تھے جنہوں نے اِسے اختلاف اور فساد کا گھر بنا ڈالا۔ بیت المقدس دونوں کا قبلہ تھا۔ نصاریٰ نے اس کے مشرق کو قبلہ مانا۔ گمان ہے کہ سیدہ مریمؑ کی جائے اعتکاف کی رعایت سے۔ یہود نے ان کی ضد میں مغرب کا رخ کر لیا۔ کشمکش شروع ہوئی تو ایک دوسرے کے معبدوں کی بے حرمتی تک جا پہنچی۔ مشر ق و مغرب کی اس بحث میں الجھے لوگوں کا حوالہ دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے تبصرہ کیا: ”اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ کے معبدوں میں اس کے نام کی یاد سے روکے اور ان کی ویرانی کے درپے ہو۔ ایسے لوگ اس قابل ہیں کہ ان عبادت گاہوں میں قدم نہ رکھیں اور اگر وہاں جائیں بھی تو ڈرتے ہوئے جائیں (البقرہ:114)۔
دینِ ابراہیمی کے آخری وارثوں نے بھی افسوس کہ مقدمین کے نقشِ قدم پر اپنا پاؤں رکھ دیا۔ مساجد پر قبضوں کی الم ناک داستان وجود میں آئی۔ اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ نے مساجد کو بیت اللہ کی بیٹیاں قرار دیا اور مسلمان کی جان کے بارے میں کہا کہ اس کی حرمت بیت اللہ سے زیادہ ہے۔ مساجد پر قبضے کے لیے اہلِ اسلام نے بارہا اس حرمت کو پامال کیا۔ ایسے واقعات تھمنے کو نہیں آ رہے۔ اب لال مسجد پر قبضے کے لیے ‘جنگ‘ جاری ہے۔
مسجد و معبد ہر معاشرے کا ایک اہم ادارہ ہوتا ہے۔ یہ ہر مذہب کے ماننے والوں کا بنیادی حق ہے کہ وہ اپنی عبادت گاہ قائم کریں اور اپنا مذہبی تشخص برقرار رکھیں۔ معبد خدا کے ساتھ انسان کے تعلق کا اظہار ہے جو ہر مذہب کے پیروکاروں کی ضرورت ہے۔ یوں یہ ایک فطری سماجی ادارہ ہے۔ اللہ کا آخری دین بھی اسے باقی رکھنا چاہتا ہے۔
اسلام میں مذہبی آزادی کی اتنی اہمیت ہے کہ وہ مذہبی جبر کو ‘فتنہ‘ کہتا اور اس فتنے کے خلاف تلوار اٹھانے کو بھی جائز قرار دیتا ہے۔ قرآن مجید نے تاریخ کے باب میں کارفرما یہ الٰہی اصول بیان کیا ہے کہ ایک قوم کی سرکشی جب اتنی بڑھ جائے کہ وہ عبادت گاہوں کے لیے خطرہ بننے لگے تو اللہ تعالیٰ کسی اور قوم کے ہاتھوں اس کی اس سرکشی کو توڑ دیتا ہے۔ قرآن مجید نے صرف مسلمانوں کے معبد کی بات نہیں کی، بلکہ مساجد کے ساتھ، نام لے کر کلیساؤں اور دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کا ذکر کیا ہے (الحج:40)۔
اسلام مسجد اور عبادت گاہ کے معاملے کو ایک سماجی تناظر میں دیکھتا اور اسے مذہبی تقدس دیتا ہے۔ یہ تقدس اسی وقت تک باقی ہے جب وہ صرف اللہ اور عبادت کے لیے خاص ہو۔ اگر وہ اس مقصد کے علاوہ، کسی دنیاوی مفاد کے لیے کام آئے تو وہ اسے مسجد ماننے سے انکار کرتا اور اسے ڈھا دینا چاہتا ہے۔ مسجد ضرار کا معاملہ ہمارے سامنے ہے، جب وہ ایک برے ارادے کے ساتھ تعمیر ہوئی تو اسے گرا دینے کا حکم دے دیا گیا۔
مسجد ضرار کیوں تعمیر ہوئی؟ سورہ توبہ میں خود اللہ تعالیٰ نے پردہ اٹھا دیا کہ یہ چار مقاصد کے لیے تعمیر کی گئی۔ ایک‘ مسلمانوں کو نقصان پہچانے کے لیے۔ اسی لیے اسے مسجد ضرار کہا گیا۔ دوسرا‘ کفر۔ تیسرا‘ مسلمانوں میں تفریق۔ چوتھا‘ ان لوگوں کے لیے کمین گاہ جو اللہ اور رسول سے برسرِ پیکار رہ چکے۔ (آیت 107) مسجد ضرار کو اللہ کے حکم سے گرا دیا گیا۔ مسجد ضرار میں اسلحہ جمع کیا جاتا تھا اور مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی کے خلاف سازشیں بُنی جاتی تھیں۔
قرآن مجید نے متصل آیت میں ایک دوسری مسجد کا ذکر کر کے بتا دیا کہ اصل مسجد وہ ہے جو تقویٰ کی بنیاد پر تعمیر کی جاتی ہے۔ اشارہ مسجدِ قُبا کی طرف ہے۔ (توبہ 108)۔ دیکھیے کہ عالم کے پروردگار نے دونوں رویوں پر کس جامعیت کے ساتھ تبصرہ کیا ہے: ”پھر تمہارا کیا خیال ہے کہ بہتر انسان وہ ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد خدا کے خوف اور اس کی رضا کی طلب پر رکھی یا وہ جس نے اپنی عمارت ایک وادی کی کھوکھلی بے ثبات کگر پر اٹھائی اور وہ اسے لے کر سیدھی جہنم کی آگ میں جا گری۔ (توبہ 109)۔
مولانا امین احسن اصلاحی نے ”تدبرِ قرآن‘‘ میں، ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا: ”مسجد کی بنیاد دراصل زمین پر نہیں بلکہ بانیوں کے دلوں پر قائم ہوتی ہے۔ اگر بانیوں کے دلوں میں تقویٰ ہو اور وہ اس تقویٰ پر مسجد کی بنیاد رکھیں تب تو وہ مسجد ہے۔ اگر دلوں میں شر و فساد ہو تو وہ مسجد نہیں، بت خانہ ہے‘‘۔ (جلد سوم،صفحہ643)۔ اس جملے میں ‘بانیوں‘ کے ساتھ ‘آباد کاروں‘ کا اضافہ کر لیجیے۔
ہماری تاریخ میں مسجد عبادت ہی کے لیے تعمیر ہوتی رہی ہے‘ مگر وقت کے ساتھ اس کے مقاصد تبدیل ہوتے گئے۔ جب ہماری دینی تعلیم مسلک کی بنیاد پر استوار ہوئی تو مسجد، مسلک کے تحفظ کے لیے بننے لگی۔ اگر ایک محلے میں ایک مسلک کی مسجد موجود تھی تو صرف مسلکی تشخص کے لیے، دوسری اور تیسری مسجد تعمیر ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ ریاست نے، کم از کم اسلام آباد میں اس تقسیم پر مہرِ تصدیق ثبت کرتے ہوئے، ہر سیکٹر میں مسلک کی بنیاد پر مساجد کے قیام کی اجازت دے دی۔
مسجد کے قیام میں تیسرا مقصد اس وقت شامل ہوا جب یہ اسلامی انقلاب کی سیاسی جدوجہد کا مرکز بنی۔ چوتھا مقصد، جب اسے جہادی تحریکوں نے اپنی سرگرمیوں کے لیے ایک مورچہ بنا ڈالا۔ اب مساجد میں نمازیوں کے بجائے مسلح گروہ دکھائی دینے لگے۔ اس کا افسوس ناک مظاہرہ ہم نے 2007ء میں، اسی لال مسجد میں، اس وقت دیکھا جب یہ ایک میدانِ جنگ میں بدل گئی۔ افسوس کہ یہ مسجد آج پھر یہی منظر پیش کر رہی ہے۔
یہ ناگزیر ہے کہ مسجد کا وہ سماجی کردار بحال ہو، جس کا تعین خود اللہ تعالیٰ نے کیا۔ قرآن مجید نے بتایا ہے کہ مسجد اللہ کے لیے ہوتی ہے (سورہ جن)۔ دوسرا یہ کہ اس کی بنیاد تقویٰ ہے۔ رسالت مآبﷺ نے نجران کے مسیحیوں کو مسجد میں عبادت کی اجازت دے کر گویا اعلان کر دیا کہ مسجد عالمگیر سطح پر عبادت کا مرکز ہے۔ قرآن مجید نے ان لوگوں کو بڑا ظالم قرار دیا ہے جو لوگوں کو مسجد میں عبادت سے روکیں۔
مسلم تہذیبی روایت بھی ہے کہ مسجد کا انتظام و انصرام نظمِ اجتماعی کی ذمہ داری ہے۔ جامع مسجد ریاست کو قائم کرنی چاہیے۔ اہلِ محلہ چاہیں تو ریاست کی اجازت سے مسجد قائم کر سکتے ہیں۔ اسے نجی شعبے کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ اگرکیا جائے گا تو وہی کچھ ہو گا جو ہمارے ہاں ہو رہا ہے۔ یہ عبادت کے بجائے مسلکی تبلیغ کا ادارہ یا مسلح جدوجہد کے لیے تربیت گاہ بن جائے گا۔
آج ناگزیر ہو چکا کہ مسجد کے اصل سماجی کردار کو بحال کیا جائے۔ سماجی سطح پر مسجد اوّل و آخر عبادت گاہ ہے اور یہ صرف اللہ کے لیے ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس میں ضروری دینی تعلیم بھی دی جا سکتی ہے، جیسے ہماری روایت رہی ہے۔ ہمارے ہاں فجر اور ظہر کے بعد مسجد میں بلا معاوضہ قرآن مجید پڑھایا جاتا اور دین کی بنیادی باتیں سکھائی جاتی تھیں۔
لال مسجدکے قریب سے گزرتے ہوئے، میں یہی سوچتا رہا کہ کب یہ مسجد صرف عبادت کی جگہ بنے گی اور ہر عبادت گزار کسی خوف کے بغیر یہاں آ سکے گا؟