منتخب تحریریں

رنگ برنگے عاشق

Share

میں نے اپنی زندگی میں کبھی بجّو نہیں دیکھا مگر اس لفظ کی ہیئت ترکیبی ایسی ہے کہ مجھے لگتا ہے اس کی شکل یقیناً بعض عاشق حضرات سے ملتی جلتی ہوگی۔ ابھی حال ہی میں میری ملاقات ایک ایسے ہی عاشق زار سے ہوئی۔ رنگ پیلا، آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی، ٹانگیں ٹیڑھی، بات بات پہ کسی بےہودہ سے شعر کے آخر میں ’’فراز‘‘ کا اضافہ کرکے اسے گنگنانے کی کوشش کرتا ہوا، مجھے لگا وہ میری طرف آرہا ہے۔ میں اس کے خیرمقدم کے لئے آگے بڑھا لیکن اس کی ’’الائنمنٹ‘‘ کی خرابی کی وجہ سے وہ دوسری طرف نکل گیا تاہم میں نے اسے راستے ہی میں پکڑ لیا۔ اس بار مجھے ایک دفعہ پھر غلط فہمی ہوئی۔ میں سمجھا وہ میری طرف دیکھ رہا ہے اور کچھ کہنا چاہتا ہے لیکن دراصل وہ سامنے والے مکان کی کھڑکی کی طرف دیکھ رہا تھا اور آہیں بھرتا جاتا تھا، مجھے اس کی حالتِ زار پر رحم آیا میں نے اسے اپنے گلے لگایا اور کہا ’’اے میرے پیارے عاشق، تم نے کس کے عشق میں اپنی یہ حالت بنا رکھی ہے؟‘‘ اس نے ایک اجنبی کو خود پر مہربان پایا تو فرطِ جذبات سے اس کی آواز بھرا گئی اور رندھی ہوئی آواز میں بولا ’’یہ تم سامنے والا مکان دیکھ رہے ہو؟‘‘ میں نے کہا ’’ہاں دیکھ رہا ہوں، بےحد خوبصورت ہے!‘‘ بولا ’’یہ کبھی میرا تھا‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا ’’اب یہ کس کا ہے؟‘‘ مجھے اس کی آواز بہت دور سے آتی سنائی دی۔ وہ کہہ رہا تھا ’’اب یہ اس کا ہے جس کی وجہ سے میری یہ حالت ہوئی ہے‘‘ میں نے پوچھا ’’اگر تم برا نہ مناؤ تو کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ وہ کون تھی؟‘‘ اس پر وہ دکھ بری آواز میں بولا ’’وہ ’تھی‘ نہیں بلکہ کمالا گجر تھا جس کے پاس میں جوے میں یہ مکان ہار چکا ہوں!‘‘

اپنے مکان کے عشق میں مبتلا یہ عاشق زار تو خیر میرے لئے اجنبی تھا لیکن کچھ عاشق حضرات ایسے ہیں جن سے میری پرانی یاد اللہ ہے۔ یہ سب عشق کے مارے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے بڑے افسر ہیں۔ رشوت لے لے کر ان کی کمر دہری ہو گئی ہے مگر جب سے او ایس ڈی بنائے گئے ہیں اپنی پرانی پوسٹنگ کی یاد میں ہردم آہیں بھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ میں انہیں کئی مرتبہ چیف سیکرٹری کے دفتر کے باہر نائب قاصد کے ساتھ اسٹول پر بیٹھا دیکھتا ہوں مگر ان کی شنوائی نہیں ہورہی۔ ایک دن اپنی پرانی پوسٹنگ کے فراق میں روتے روتے ان کی حالت غیر ہوتی محسوس ہوئی تو میں نے انہیں دلاسا دیتے ہوئے کہا ’’سب ٹھیک ہو جائے گا، شیطان پر بھروسہ رکھیں‘‘۔ اس پر انہوں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا ’’مجھے کوئی امید نظر نہیں آتی، ہر کوئی کرپشن کا رونا رو رہا ہے، کسی کو غربت نظر نہیں آتی‘‘۔ میں نے عرض کی ’’برادر، آپ کے پاس اربوں روپے پڑے ہیں، مجھے آپ کی غربت والی بات کچھ سمجھ نہیں آئی!‘‘ بولے ’’اتنی محنت سے کمائی ہوئی دولت کو ہاتھ لگانا میں گناہ سمجھتا ہوں۔ ان دنوں میرا گزارہ صرف ماہوار تنخواہ پر ہے، تمہیں میری یہ پھٹی ہوئی پتلون نظر نہیں آتی‘‘ انہوں نے مجھے پتلون دکھانے کی کوشش کی لیکن یہ پتلون جہاں سے پھٹی ہوئی تھی میں نے اس طرف دیکھنا مناسب نہیں سمجھا!

ایک اور عاشق سے میری شناسائی ہے۔ یہ ایک بہت بڑے بزنس مین ہیں۔ چند روز پیشتر میں نے انہیں بھی آہیں بھرتے دیکھا، میں نے وجہ پوچھی تو بولے ’’تم تو جانتے ہو، مجھے پاکستان اور اسلام سے عشق ہے‘‘ میں نے کہا ’’مجھ سے زیادہ یہ بات کون جانتا ہے‘‘ کہنے لگے ’’میں نے سنا تھا کہ عشق بہت حوصلہ مند شخص کو بھی خون کے آنسو رلا دیتا ہے‘‘ میں نے عرض کی ’’ہاں بعض صورتوں میں ایسا بھی ہوتا ہے‘‘ بولے ’’میرے ساتھ یہی ہوا ہے، میں نے رمضان کے اس مقدس مہینے میں اسلام اور پاکستان کی محبت میں نادار افراد میں پورے چھپن ہزار کی مالیت کا راشن تقسیم کیا‘‘۔ اتنا کہہ کر وہ زار و قطار رونے لگے۔ میں نے انہیں شفقت سے گلے لگایا اور پوچھا ’’دل چھوٹا نہ کریں بتائیں کیا ہوا؟‘‘ انہوں نے سخت دل گرفتگی کے عالم میں کہا ’’پاکستان اور اسلام سے اس عشق کا صلہ مجھے یہ ملا کہ گزشتہ روز میرے گودام پر چھاپہ مار کر کروڑوں روپے مالیت کی وہ تمام اشیائے خوردنی قبضہ میں لے لی گئیں جو میں نے قلت کے دنوں کے لئے بچا کر رکھی تھیں تاکہ اس عرصے میں پاکستانی عوام کو کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے‘‘۔

یہ سب ’’عشاق‘‘ اپنی جگہ لیکن ایک بہت منفرد عاشق بھی میرے جاننے والوں میں ہے، یہ نہ آہ و زاری کرتا ہے، نہ دشتِ نوردی کرتا ہے، نہ گریبان چاک کرتا ہے، نہ سر میں خاک ڈالتا ہے اور نہ دایاں ہاتھ دل پر رکھ کر دکھی قسم کے گانے گاتا ہے۔ یہ اسپورٹس ماڈل کی کار میں گھومتا ہے۔ پرفیومز کی خریداری پیرس سے کرتا ہے، برانڈڈ جوتے اور سوٹ پہنتا ہے۔ جو روایتی قسم کے عشاق ہیں، وہ آنکھیں بند کرکے عشق کرتے ہیں یہ وہ عاشق ہے جو دورانِ عشق اپنی دونوں آنکھیں کھلی رکھتا ہے چنانچہ اقتدار کے اس عاشق کو اقتدار سے جدائی کا صدمہ کبھی برداشت نہیں کرنا پڑا، اس کی سونگھنے کی قوت بہت تیز ہے چنانچہ اسے حکومت کے جانے کی بُو سب سے پہلے آتی ہے اور یوں وہ آنے والی حکومت کی خوشبو سے سب سے پہلے مستفید ہوتا ہے۔ اقتدار کے اس عاشق کو عوام نے بہت برے برے نام دیے ہیں لیکن اُس کی اعلیٰ برانڈ کی جوتی کو بھی اس کی پروا نہیں کیونکہ وہ جوتی کوئی عام نہیں، اُسے ہوائی چپل پہننے والے عوام سے کیا لینا دینا ہے۔