پاکستان

’ریپ کا نشانہ‘ بننے والی 14 سالہ لڑکی کے ہاں بچی کی پیدائش

Share

گذشتہ برس جون سے مبینہ طور پر متعدد بار جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی 14 سالہ لڑکی نے ایک بچی کو جنم دیا ہے۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع راولپنڈی کے ایک ہسپتال میں ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹروں نے بی بی سی کو بتایا کہ جمعرات کی رات متاثرہ لڑکی کو ہسپتال لایا گیا اور ان کے ہاں نارمل ڈلیوری ہوئی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ لڑکی اور ان کی نومولود بیٹی دونوں بالکل خیریت سے ہیں اور انھیں کل چھٹی دے دی جائے گی۔

ہسپتال کی گائنی وارڈ میں کمبل اوڑھے اور ہاتھ پر کیلولہ لگائے خاموش اور حیران نظروں سے ادھر ادھر دیکھتی یہ لڑکی دراصل قانونی طور پر تو بچوں میں ہی شمار ہوتی ہے لیکن اب وہ خود ماں بن چکی ہے۔

ہسپتال میں ڈاکٹر سے ملنے کے بعد اس کے کمرے کے باہر سے گزرتے ہوئے میں اس کی جانب دوسری نظر نہیں ڈال سکی۔ ہسپتال سے نکلتے وقت میری نگاہوں کے سامنے ان نوعمر لڑکی کا چہرہ اور لیبر روم کا منظر گھوم رہا تھا۔

میرے دماغ میں وہیں ڈیوٹی پر موجود ایک خاتون کا جملہ بھی گونج رہا تھا کہ تم دیکھو اسے جا کر وہ بچی نہیں 15 سال کی تو ہو گی۔ باتیں کر رہی ہے کچھ نہیں ہوا اسے کل رات جب میں ڈیوٹی پر آئی تو اس کی بیٹی پیدا ہو چکی تھی بالکل ٹھیک ٹھاک ہے۔ 

ڈاکٹر نے بتایا کہ پولیس کیس ہونے کی وجہ سے نومولود بچی کو ہسپتال کی نرسری میں ہی رکھا گیا ہے اور ابھی ماں کو نہیں دیا گیا۔

اب پولیس کے سامنے یہ سوال ہے کہ کل ہسپتال سے چھٹی کے وقت نومولود کو اس 14 سالہ لڑکی کے حوالے کیا جائے یا پھر کسی چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے ذریعے کسی ادارے یا کسی جوڑے کی کفالت میں دیا جائے۔

وہاں ہسپتال کی سکیورٹی پر موجود ایک اہلکار نے بتایا کہ ایسے بچوں کو اگر ماں خود نہ پال سکے تو یا تو ایدھی والوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے یا پھر سویٹ ہوم کے ہسپتال کی ایم ایس اور اعلیٰ حکام اس کا فیصلہ کریں گے۔

جبکہ قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ بچے کو ماں سے کوئی جدا نہیں کر سکتا جب تک ماں خود اس کی کسٹڈی کسی دوسرے کو نہ دے دے۔ اور اس سارے عمل میں کچھ وقت بھی درکار ہوتا ہے۔

متاثرہ لڑکی کے والد ہسپتال کے احاطے میں موجود تھے انھوں نے بتایا کہ ڈاکٹروں نے انھیں مارچ کے مہینے میں آنے کو کہا تھا لیکن گذشتہ شام ان کی بیٹی کی طبیعت اچانک بگڑنے کی وجہ سے اسے یہاں لایا گیا اور پھر بچی کی ولادت ہو گئی۔

لڑکی کے والد ایک سرکاری ملازم ہیں وہ کہتے ہیں کہ’ میں صبح دفتر جاتا ہوں اور شام کو لوٹتا ہوں مجھے نہیں معلوم تھا میری بچی کے ساتھ یہ ہو رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ بچی اور والدہ کو ایک ساتھ رکھنے کے بجائے ہم چاہتے ہیں کہ نومولود کو کسی جوڑے کے سپرد کیا جائے اور لڑکی کو تعلیم اور رہائش کے لیے ایک فلاحی ادارے میں بھجوا دیا جائے تاکہ وہ اپنا مستقبل بہتر بنا سکے۔

انھوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں علاقے کی ایک شخصیت ان کی مدد کر رہی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اہلِ محلہ انھیں دھمکیاں دے رہے ہیں اور ان پر آوازیں کستے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ان کی بیٹی کی دیکھ بھال کے لیے ان کی پھوپھی آئی ہوئی ہیں۔

ریپ کس نے کیا

یاد رہے کہ لڑکی کے والد کی جانب سے درج کروائی گئی ایف آئی آر کے مطابق جون 2019 میں پہلی بار ایک ملزم نے مذکورہ لڑکی کے گھر میں داخل ہو کر اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اور اس واقعے کے کچھ دن بعد وہ اپنے ایک دوست کے ہمراہ دوبارہ لڑکی کے گھر آیا اور ان دونوں نے اسے جان سے مارنے کی دھمکی دے کر دوبارہ ریپ کیا۔

ایف آئی آر کے مطابق لڑکی نے کہا ہے کہ اس واقعے کے بعد دیگر دو ہمسایوں نے بھی اسے محلے میں بدنام کرنے کی دھمکیاں دے کر بلیک میل کیا اور اس سے جنسی زیادتی کی اور ریپ کے ان واقعات کے نتیجے میں جب وہ حاملہ ہو گئی تو اس نے اپنے والد کو صورتحال سے آگاہ کیا۔

لڑکی کے والد کا الزام ہے کہ ان کی بیٹی کے ساتھ زیادتی کرنے والوں میں ایک ادھیڑ عمر مرد کے علاوہ دو 18 سالہ اور ایک 14 سالہ لڑکا شامل ہے۔

پولیس حکام نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزمان کے ڈی این اے کے نمونے ٹیسٹ کے لیے بھجوا دیے گئے ہیں جبکہ نومولود بچی کا ڈی این اے ٹیسٹ بھی کیا جائے گا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ چاروں ملزمان کو تین روزہ جسمانی ریمانڈ کے بعد اب اڈیالہ جیل منتقل کر دیا ہے۔

پولیس کے بیان کے مطابق ملزمان نے اپنے بیانات میں اعتراف جرم کیا ہے۔

ایک جوڑے کی متاثرہ لڑکی اور نومولود کی کفالت کی پیشکش

چائلڈ

اس خبر کے سوشل میڈیا پر آنے کے بعد شہر میں رہنے والے ایک خاندان نے اس لڑکی اور اس کے پیدا ہونے والے بچے کی کفالت کے لیے اس کے اہلِ خانہ سے رابطہ کیا۔

بی بی سی سے گفتگو میں دونوں میاں بیوی نے بتایا کہ وہ نہیں چاہتے کہ اس خبر کی تشہیر کی جائے کیونکہ یہ متاثرہ لڑکی اور اس کی بچی دونوں کے مستقبل اور ذہنی اذیت سے بچنے کے لیے ضروری ہے۔

انھوں نے بتایا کہ متاثرہ لڑکی اور اس کے والدین کو تین ہفتوں کے لیے اپنے ہاں رکھا تھا تاکہ اس کی سکیورٹی کے ساتھ ساتھ اسے اچھی خوراک اور علاج بھی میسر ہو۔

انھوں نے بتایا کہ لڑکی اپنی پھوپھی کے بہت قریب ہے اس لیے وہ اپنے والد کے ہمراہ گھر واپس چلی گئی تھی۔

لڑکی اور اس کی نومولود بیٹی کی کفالت کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار خاتون خانہ کہتی ہیں کہ متاثرہ لڑکی ان کے ساتھ جتنے دن بھی رہی انھوں نے اسے صدماتی کیفیت میں ہی دیکھا۔ وہ کہتی ہیں کہ دن کے 24 گھنٹوں میں وہ کبھی ایک گھنٹہ ہی نارمل انداز میں رہتی تھی ورنہ گم صم رہتی تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ وہ کارٹون بہت شوق سے دیکھتی ہے۔ وہ اس حقیقت سے انجان دکھائی دیتی تھی کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ متاثرہ لڑکی کو بظاہر دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ وہ حاملہ ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ لڑکی کے ساتھ موجود اس کی سوتیلی والدہ کا رویہ بھی مناسب نہیں تھا۔ وہ اس صورتحال میں اس پر طنز کرتی رہتی تھیں جبکہ بچی کا کہنا ہے کہ اس کے حاملہ ہونے کی خبر سے پہلے تک وہ اس پر جسمانی تشدد بھی کرتی تھیں۔

متاثرہ لڑکی کی کاؤنسلنگ کی فوری ضرورت

rape

دوسری جانب نجی سطح پر ملک کے دو شہروں میں خواتین اور بچوں کو پناہ کے ساتھ ساتھ ہنر مندی اور تعلیم کا انتظام کرنے والے ایک ادارے کی منتظم نے تصدیق کی کہ مبینہ طور پر ریپ کا شکار ہونے والی لڑکی کو ان کے ادارے میں رکھنے کے لیے ان سے رابطہ کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ متاثرہ لڑکی کو اس وقت سب سے پہلے کاؤنسلنگ کی ضرورت ہے تاکہ وہ معمول کی زندگی کی جانب دوبارہ لوٹ سکے۔

انھوں نے کہا کہ اس میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کتنا وقت لگے گا تاہم ایسے کیسز میں کئی سال بھی لگ جاتے ہیں۔

تاہم انھوں نے نومولود بچی کو گود لینے کی خواہش ظاہر کرنے والے جوڑے کی بات کو دہرایا کہ میڈیا اس طرح کی خبروں کو نشر کرتے ہوئے ضابطہ اخلاق پر عمل پیرا نہیں ہوتا جس کی وجہ سے متاثرہ خاندان یا ان کی مدد کرنے والوں کے لیے مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔