عبدالغنی محمدی
مہاتما گاندھی کی آپ بیتی ” تلاش حق ” پڑھی ، گاندھی جی کے افکار و نظریات اور جہد حیات کے ساتھ بہت مقصود تھا کہ آزادی کے حوالے سے ان کی کاوشوں کو ان کی زبانی پڑھنے کاموقع ملے گا لیکن اس حوالے سے مایوسی ہوئی کہ اس میں آزادی ہندکی جدو جہد کے آغاز میں پہنچتے ہی یہ ختم ہوجاتی ہے ۔ اس کی وجہ گاندھی جی کے نزدیک یہی تھی کہ بہت سی وہ شخصیات جن کے حوالے سے اس کے بعد کی زندگی کے واقعات ہیں وہ ابھی زندہ ہیں اور ان کے حوالے سے زیادہ چیزیں نہیں لکھنا چا ہ رہا ۔گاندھی جی کی دوسری کتابوں کی معلوم نہیں کیا صورتحال ہے لیکن اپنی آپ بیتی میں جوتشنگی وہ وقتی حالات کے پیش نظر چھوڑ گئے وہ صدیوں محسوس کی جاتی رہے گی ۔ اس آپ بیتی کا اختتام تحریک خلافت کے زمانے پر جاکر ہوجاتاہے۔ تحریک عدم موالات پر گاندھی روشنی ٖڈالتے ہیں اور اس میں شامل ہونے کا ذکر کرتے ہیں، ہندوؤں کی جانب سے اس پر ان کی سخت مخالفت کی جاتی ہے ، عدم موالات کے بارے ان کی سوچ یہ تھی کہ انگریز کا بالکلیہ بائیکاٹ نہ کیا جائے بلکہ صرف ان قوانین کا بائیکاٹ کیا جائے جو ہمیں متاثر کرتے ہیں ۔
گاندھی جی کی آپ بیتی میں ان کے دور طالب علمی ، زندگی کے اسفار ، مختلف ملکوں کا مشاہدہ اور رہن سہن ، مختلف شخصیات سے ملاقات اور سیکھنے سکھانے کا عمل ، مذہبی اور روحانی تجربات ، تحریکیں چلانے اور قومی خدمت کے کاموں میں دن رات ایک کردینے کے حالات و واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ان کے ذاتی روشن کردار سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتاہے ۔ گاندھی جی نے اس آپ بیتی میں ہندوستانی سماج ، اس کے افراد کے مزاج و عادات اور خامیوں و خوبیوں پر بھی کافی روشنی ڈالی ہے ۔ ان کی آپ بیتی ایک بیدار مغز شخص کی آپ بیتی ہے جس کی زندگی تجربات سے بھرپور ہے ، اور اس نے اپنے آپ کو بلا کم و کاست لوگوں کے سامنے رکھ دیا ہے ۔
بچپنے کی شادی :
گاندھی جی ایک ایسے سماج کے فرد تھے جس میں شادی چھوٹی عمر میں ہی کردی جاتی تھی ۔ گاندھی کے مطابق کم عمر ی کی شادی بہت سے لوگوں کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے اور خاص کر لڑکیوں کی تعلیم کا سلسلہ رک جاتاہے، بعد میں اگر شوہر پڑھ لکھ جائے تو اس کے ساتھ زندگی ہم آہنگ کرنا مشکل ہوجاتاہے اور دونوں ایک دوسرے سے ناآشنا رہتے ہیں۔ ہندو ستانی سماج میں شادی کو جس قدر مشکل بنادیاجاتاہے یا جتنے تکلفات کیے جاتے ہیں گاندھی ان پر تنقید کرتے ہیں ان کو اچھا نہیں سمجھتے ہیں ۔گاندھی جی ہندوستانی سماج کے مطابق ایک ایسے ہی شوہر تھے جو بیوی پر تحکم جماتا ہے اور اس پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کرتاہے ، بیوی پر شک کرتا رہتاہے ، بیوی کو بے جا پابندیوں کے حصار میں رکھنا چاہتاہے جس کی وجہ سے گھر کے حالات خراب ہوتے ہیں ، جس کا بعد کی زندگی میں ان کو بہت احساس رہتاہے اور اس پر وہ افسوس کرتے ہیں ، خود کو بدل لیتے ہیں اور بیوی کی مرضی کا خیال رکھتے ہیں ۔ عورتوں کے حوالے سے ہندوستانی سماج کے اثرات کو ہم آج بھی اپنے معاشروں میں محسوس کرسکتے ہیں ۔
وہ شادی کو خواہش کی تکمیل یا لذت کا ذریعہ نہیں سمجھتے ہیں بلکہ شادی صرف اس لیے کرنی چاہیے کہ ایک فطری نظام ہے جس میں شادی کے ذریعے اولاد ہوتی ہے ، شادی کا مقصد صرف یہی ہونا چاہیے ، گاندھی جی کو اس چیز کی بہت فکررہتی ہے کہ وہ نفس پرستی کی طرف مائل ہوجاتے ہیں اور شہوانی جذبات ان پر غلبہ پالیتے ہیں ، زندگی کے بہت آخر میں نہیں بلکہ اپنے افریقہ کے قیام کے زمانہ میں ہی جس وقت ان کی عمر زیادہ نہیں تھی وہ بیوی کے پا س نہ جانے کا عزم کرلیتے ہیں ، وہ بیوی کے پاس جانے کو نفس پرستی سمجھتے ہیں، اپنی روحانی بلندی کے خلاف سمجھتے ہیں ، ان کو لگتا ہے کہ قومی خدمت اس طر ح ہی ٹھیک طرح ممکن ہے ۔ خود کو شہوانی جذبات و خیالات سے دور رکھنے کے لئے وہ سادہ خوراکیں کھاتے ہیں اور محنت و ریاضت کرتے ہیں ، غرض تکلف میں مبتلا ہوکر وہ خود کوروکتے ہیں جبکہ اسلام میں ایساتکلف ، تجرد یا رہبانیت نہیں ۔ روحانیت کے اعلی مراتب کو پانے کے لئے ایک صحابی کے ایسے ہی خیالات پر پاک پیغمبر نے فرمایا تھا کہ شادی میری سنت ہے اور جس نے اس کو چھوڑا وہ مجھ سے نہیں ۔ اسلام حلال اور حرام میں فرق سکھاتاہے بیوی کے پاس جانے کو تکمیل ایمان کا ذریعہ بتاتاہے جبکہ حرام سے بچنے کی سخت تاکید کرتاہے ۔
انگلستان میں تعلیم :
انگلستان میں تعلیم کے لئے جانے پر ان کی برادری کے لوگ ان کو برادری سے خار ج کردیتے ہیں ، ان کےدھرم میں سمندر پار جانے کی ممانعت ہے ، وہاں آدمی دھرم کے خلاف کام کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے ، اسے انگریزوں کے ساتھ کھانا پڑتاہے ، اکثر لوگ ادھر جاکر بے راہ روی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ دوسری اقوام کے حوالے سے بے بنیاد خیالات اور اپنے مذہب میں توہمات پر مبنی تعلیمات آج بھی ہمارے اندر پائی جاتی ہیں ۔ آدمی میں آنے والی تبدیلیاں واقعی دھرم اور ملک کے خلاف ہوتی ہیں یا وہ ایک نئی دنیا کو دیکھ کر بعض چیزوں اپنانا ضروری سمجھتا ہے ، گاندھی جی میں کس نوعیت کی تبدیلیاں آئیں اور کن چیزوں میں انہوں نے بالکل کمپرو مائز نہیں کیا اس کا وہ آپ بیتی میں ذکرکرتے ہیں ۔
گاندھی جی عہد کرتے ہیں وہ کبھی گوشت نہ کھائیں گے ، شراب نہ پییں گے ، عورت کو ہاتھ نہ لگائیں گے ۔ اپنی ماں کے ساتھ کیے ہوئے اس وعدے کی ان کے ہاں اس قدر اہمیت ہوتی ہے کہ وہ انگلستان کے سخت موسم میں اپنی طاقت کی بحالی کے لئے بھی گوشت نہیں کھاتے ہیں ، ان کے دوست ان کو بہت مجبور کرتے ہیں ، ابتداء میں مرضی کا کھانا ملنا بھی مشکل ہوتاہے لیکن اس دوران وہ تمام سخت حالات برداشت کرتے ہیں لیکن اپنا وعدہ نہیں توڑتے ہیں ۔ صرف اس لئے کہ انہوں نے اپنی ماں سے وعدہ کر رکھا ہے ۔ انگلستان کے ماحول میں شراب اور عورت سے بھی ان کو سابقہ پڑتاہے لیکن وہ ان سب چیزوں سے بچے رہتے ہیں۔ گناہوں سے بچنے اور اپنی ماں سے کیے وعدے کا پاس رکھنے کے حوالے سے ان کی جدوجہد قابل تعریف و تحسین اور لائق اتباع ہے ۔
وکالت کی ڈگری :
گاندھی جی انگلستان میں بیرسٹری کی تعلیم حاصل کرتے ہیں لیکن اس ڈگری کی حیثیت کے بارے میں حقائق کو بالکل بے جھجک لکھ دیتے ہیں ۔ بیرسٹری کا نصاب تعلیم بہت آسان تھا اور بیرسٹروں کو لوگ مذاق میں دو ڈنر بیرسٹر کہتے تھے ۔ ہر شخص جانتا تھا کہ امتحان کی کوئی وقعت نہیں ، کتابوں کا امتحان کئی بار کرکے دیا جاسکتا تھا ، شاید ہی کوئی شخص ان کتابوں کو پڑھتا تھا ۔ مجھے معلوم ہے کہ بہت سے لوگوں نے محض خلاصہ اور شرح پڑھ کر رومی قانون کا امتحان دو ہفتے میں اور عام قانون کا دو تین مہینے میں پاس کرلیا ۔ سوالات کے پرچے سہل ہوتےتھے ، اور ممتحن دل کھول کر نمبر دیتے تھے ۔ رومی قانون کے امتحان میں پچانوے سے ننانوے فیصد اور آخری امتحان میں ستر فیصد بلکہ اس سے زیادہ امیدوار پاس کئے جاتے تھے اس لیے فیل ہونے کا خوف بہت کم تھا اور امتحان سال میں ایک بار نہیں بلکہ چار بار ہوتا تھا ۔جن ہندوستانی لیڈروں کی انگلستان سے وکالت کی اعلی تعلیم پانے کے حوالے سے شہرت ہے اوراس کو ان کی قابلیت گردانا جاتاہے اس کا پردہ بھی چاک ہوتاہے ۔
وکالت کی ڈگر ی حاصل کرکے روزگار کمانے کے حوالے سے گاندھی جی کو کافی مشکلات اٹھانی پڑتی ہیں کیونکہ وکالت ان کے ذہن اور طبیعت سے میل نہیں کھاتی اوردھوکہ وجھوٹ کا وہ کبھی سہارا نہیں لینا چاہتے تھے ، لیکن قانون کے فہم کو وہ لوگوں کی خدمت کے لئے وقف کردیتے ہیں ۔
نباتاتی منہج :
انگلستان کے قیام میں گاندھی جی نباتاتی منہج والوں کے ساتھ مل جاتے ہیں اور کبھی گوشت نہیں کھاتے ہیں ۔ گاندھی نباتاتی منہج والوں میں سے بھی ان لوگوں میں سے تھے جو آخری درجے پر تھے ، جو نہ صرف گوشت نہیں کھاتے بلکہ دودھ ، انڈا اور ایسی تمام چیزوں کو چھوڑ دیتے ہیں جو جانوروں سے حاصل شدہ ہوتی ہیں ۔ صرف سبزیوں پر اکتفاء کرنے اور مرغ مسلم وبکرا شریف سے محروم رہنے کے لئے مذہب جیسی مضبوط چیز کاسہارا چاہیے ۔ انسان اپنے ذہن میں جن چیزوں کے بارے نفرت بٹھالیتاہے وہ جس قدر بھی فائدہ مند اور مزیدار ہوں ان کو استعمال نہیں کرسکتا۔انسان کے ذہن میں بیٹھے مفروضات اس کی باہر کی دنیا کو اس طرح ڈھالتے ہیں کہ وہ سبزیوں کے فوائد کو اس قدر اہم سمجھتا ہے کہ ان کےمقابلے میں گوشت وغیرہ کو چھوڑ دیتاہے ، لیکن یہ ذہن میں طے کسی چیز کے فوائد و نقصان تلاشنے والی بات ہے ، اگر فوائد و نقصان معیار ہے تو اس کو اول درجے پر رکھ کر اپنے عقائد کو ثانوی اہمیت دی جائے تو شاید بہت کچھ بدلنا پڑے ۔
گاندھی جی افریقہ میں :
افریقہ میں ہندوؤں کو قلی کہا جاتا تھااور ان کو بہت حقیر سمجھا جاتا تھا ، ان کے ساتھ انتہائی برا سلوک کیا جاتا تھا ، ٹرین میں ان کے لئے تھرڈ کلاس مخصوص تھی ، ہوٹلوں میں جہاں کہیں گورے ٹھہرتے تھے ان کو نہیں ٹھہرایا جاتا تھا ۔ گاندھی جی ان حالات میں افریقہ کے لوگوں کے لیے قانونی اور سماجی خدمات سر انجام دیتے ہیں ۔ افریقہ میں لمبے عرصے تک مقیم رہے اور قانونی معاملات اور لوگوں کے حقوق کی جنگ کے علاوہ بہت سے فلاحی کاموں کی بنیاد رکھتے ہیں جن میں لوگوں کے لیے صحت ، تعلیم اور روزگار کی فراہمی کی کوششیں بنیادی ہیں ۔
گاندھی جی اور مذہب :
(جاری ہے)