کورونا وائرس: حاملہ چینی نرس لوگوں کو اشتعال دلانے کا سبب کیوں بن رہی ہیں؟
چین میں کورونا وائرس پھوٹنے والے شہر ووہان کے ہسپتال سے مریضوں کا علاج کرتی ایک حاملہ نرس کی ویڈیو پر پورے چین سے شدید ردِعمل سامنے آ رہا ہے۔
ریاستی میڈیا آؤٹ لیٹ سی سی ٹی وی کے ذریعہ نشر کی گئی اس ویڈیو کا مقصد نو ماہ کی حاملہ نرس ’زاؤ یو‘ کو ہیرو کے طور پر پیش کرنا تھا۔
لیکن اس کا الٹا اثر ہوا اور سوشل میڈیا صارفین نے وائرس سے متاثرہ ماحول میں ایک حاملہ نرس کو کام کرنے کی اجازت دینے پر ہسپتال کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
ایک صارف کا کہنا تھا اس خاتون کو بطور ’پروپیگنڈا ہتھیار‘ کے استعمال کیا جارہا ہے۔
چین میں کورونا وائرس سے اب تک 2200 سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں ،اموات کی اکثریت ہوبائی صوبے کے دارالحکومت ووہان میں ہوئی ہے۔
صرف چین میں انفیکشن کے 75000 سے زیادہ کیسز سامنے آئے ہیں۔ ایک ہزار سے زیادہ کیسز اور متعدد اموات کے ساتھ یہ وائرس پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔
’پروپیگنڈا شو‘
سرکاری میڈیا آؤٹ لیٹ سی سی ٹی وی نے گذشتہ ہفتے ووہان کے ایک فوجی ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں کام کرنے والی زاؤ یو کی ایک ویڈیو جاری کی تھی۔
ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ وہ حمل کے آخری مہینوں میں ہیں۔ انھوں نے ہزیمت سوٹ پہن رکھا ہے اور ہسپتال میں وارڈ کے راؤنڈز لگا رہی ہیں۔ راؤنڈز لگاتے ہوئے انھیں ایک ایسے مریض کا معائنہ کرتے دیکھایا گیا ہے جسے بعد میں بخار سے نمٹنے والے ڈپارٹمنٹ میں بھیج دیا گیا۔ مریض کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ وہ کام نہ کریں کیونکہ یہ ’خطرناک‘ ہے۔
ژاؤ یو نے ویڈیو میں اعتراف کیا ہے کہ ان کے اہل خانہ نے ان کے کام جاری رکھنے پر اعتراض کیا ہے لیکن ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ امید کرتی ہیں وائرس سے لڑنے میں اپنا کردار ادا کرتی رہیں گی۔
لیکن ویڈیو۔۔ جس کا مقصد ان کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنا تھا، نے دیکھنے والوں پر الٹا اثر ڈالا۔۔۔ بہت سے لوگوں نے ان کی کہانی کو ’پروپیگنڈا‘ کے طور پر استعمال کرنے کا الزام لگایا ہے۔
ایک اور صارف کا کہنا تھا ’کیا ہم اس سارے پروپیگنڈے کو روک سکتے ہیں؟ یہ فیصلہ کس نے کیا کہ یہ ویڈیو ٹھیک ہے؟ حاملہ خواتین کو (فرنٹ لائن پر) نہیں ہونا چاہیے۔‘
ایک صارف نے تبصرہ کیا ’یہ کیا ہے ، سیاسی مقاصد کے لیے ایک شو؟ نو ماہ کی حاملہ عورت کو ایسا کام کرنے مت بھیجیں۔‘
ایک شخص کا کہنا تھا ’مجھے سچ میں لگتا ہے کہ یہ پیغام۔۔۔ خواتین کو اپنی صحت سے قطعِ نظر محاذ پر آنکھیں بند کیے لڑنے کی تلقین کررہا ہے۔۔۔ یہ واقعی بہت برا ہے۔‘
تاہم چین سے سامنے آنے والی ویڈیوز میں یہ واحد ویڈیو نہیں جو انٹرنیٹ صارفین کو اشتعال دلانے کا سبب بنی ہو۔
گانسو میں سرکاری ذرائع ابلاغ کے ذریعے رواں ہفتے شائع ہونے والی ایک اور ویڈیو میں متعدد خواتین نرسوں کو اپنے سر منڈاتے ہوئے، روتے دیکھا جا سکتا ہے۔
ویڈیو میں اس چیز کی وضاحت کی گئی کہ یہ نرسیں اس لیے سر منڈوا رہی ہیں تاکہ مریضوں کے علاج کے دوران سر پر حفاظتی گئیر پہننے میں آسانی ہو۔
لیکن بہت سے لوگ اس منطق پر شک کرتے ہوئے یہ پوچھتے نظر آئے کہ عورتیں پورے سر مونڈوانے کے بجائے چھوٹے بال کیوں نہیں رکھ سکتیں۔ جبکہ کئی لوگ یہ بھی پوچھتے دیکھے گئے کہ مردوں کے سر منڈوانے کی ویڈیوز کیوں نہیں ہیں؟
چین میں مائیکروبلاگنگ کی ویب سائٹ ویبیو پر ہیش ٹیگ #SeeingFemaleWorkers بھی وائرل ہوتے دیکھا گیا۔ اس ہیش ٹیگ میں لوگوں سے فرنٹ لائنز پر خدمات سرانجام دینے والی خواتین کی قربانیوں کو سراہنے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔
ایک اور صارف کا کہنا تھا ’پیشہ ورانہ رویہ۔ اعتماد۔ وفاداری۔ طاقت۔ یہ ساری خصوصیات قابلِ فخر ہیں۔ خواتین صرف اس وجہ سے قابل اور عظیم نہیں ہیں کیونکہ وہ اپنے لمبے بال منڈوا رہی ہیں۔‘
وی چیٹ پر ایک تبصرے میں لکھا تھا ’میڈیا ہمیشہ ہی خواتین کی قربانیوں کو پروپیگنڈے کے لیے ایک آلہِ کار کے طور پر کیوں استعمال کرتا ہے؟ اگر یہ خواتین اپنے لمبے بالوں کے ساتھ فرنٹ لائن پر کام کریں یا اگر وہ حاملہ نہ ہوں، تو کیا یہ اتنا ہی قابل ستائش ہوگا؟‘