امریکی صدر یہ کالم لکھتے وقت بھارت پہنچ چکا ہے۔ اس ہفتے کے بقیہ کالم شاید مجھے اس کے دورئہ بھارت کی نذر کرنا پڑیں گے۔اس دورے کی جانب توجہ مبذول کرنے سے قبل ضروری ہے کہ ایک اہم ترین مسئلہ کی بابت غور کرلیا جائے۔یہ معاملہ بگڑ گیا تو میرے منہ میں خاک ایک بہت ہی خوفناک مصیبت کا سامنا کرنا ہوگا۔
اس برس کے آغاز میں چین کے شہر ووہان میں کورونا وائرس پھیلنے کی خبر آئی۔ اطلاعات تشویش ناک تھیں مگر مجھ جیسے پاکستانیوں کو کامل یقین تھا کہ پیشہ وارانہ لگن سے ہوئی تحقیق کی بدولت چین اپنے انتہائی منظم ریاستی بندوبست کو بروئے کار لاتے ہوئے اس وباء پر قابو پالے گا۔
وائرس کی نشاندہی ہوچکی ہے۔ اسےCovid-19کا نام دیا گیا ہے۔ تشخیص کے بعد طبی ماہرین اب اس کا مؤثر علاج ڈھونڈنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔مجھے قوی امید ہے کہ بالآخر کوئی ایسا حفاظتی بندوبست بھی دریافت ہوجائے گا جس کے ذریعے یہ وائرس وباء کی صورت اختیار نہیں کرپائے گا۔
طبی ماہرین نے ابتداء میں اصرار کیا کہ مذکورہ وائرس کا حقیقی منبع فقط چین تک ہی محدودہے۔چمگادڑ کو اس کا بنیادی محرک بتایا گیا۔ثقافتی اعتبار سے چینیوں کی “Exotic”جانوروں کا گوشت کھانے کی عادت اس مرض کے پھیلائو کا سبب بتائی گئی۔ڈیڑھ ارب سے زائد آبادی والے ملک میں اس کے باعث ہلاکتوں کی جو تعداد ابتداََ سامنے آئی وہ تناسب کے اعتبار سے بہت زیادہ پریشان کن نہیں تھی۔نام نہاد Digitalانقلاب نے مگر دُنیا بھر میں خوف پھیلادیا۔تاثر یہ پھیلا کہ جیسے ہر چینی اس وائرس کا ممکنہ Carrierہوسکتا ہے۔امریکہ اور یورپ کے نسل پرست میڈیا نے یہ تاثر پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ذرائع ابلاغ پر کامل کنٹرول کی ضد نے مگر چینی حکومت کو اپنے ہی عوام کو شانت رکھنے کی طاقت سے بھی محروم کردیا۔چین کے ہر بڑے شہر میں کاروبار زندگی تقریباََ مفلوج ہوچکا ہے۔گلیوںاور محلوں میں شہری اپنے تئیں مسافروں اور اجنبیوں کو ’’ناکوں‘‘ پر چیک کررہے ہیں۔
دُنیا کے نقشہ پر نگاہ ڈالیں تو ووہان سے ایران کا شہر قم ہزاروں میل دور ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران میں ’’حلال‘‘ گوشت کا معیار بھی بہت کڑا ہے۔اس کی وجہ سے بے تحاشہ نوعیت کی مچھلی یا جھینگے وغیرہ کھانے سے گریز کیا جاتا ہے۔ایران کے اس شہر سے مگر کورونا وائرس کی وجہ سے ہلاکتوں کی خبر آئی ہے۔اس خبر نے ہمارے بلوچستان میں سراسیمگی پھیلادی ہے۔ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی ہی نہیں بلکہ افغانستان کے شہری بھی زیارت اور چھوٹے کاروبار کرنے روزانہ کی بنیاد پر کم از کم پانچ مقامات سے ایران میں داخل ہوتے یا وہاں سے وطن لوٹتے ہیں۔تفتان شہر کی راہداری اس ضمن میں مرکزی حیثیت کی حامل ہے۔سینکڑوں کی تعداد میں مقامی بلوچ تربت،گوادر اور اوران کے اضلاع سے بھی راہداری پرمٹ کے طفیل روزانہ سرحد پار کرتے ہیں۔
قم سے ہلاکتوں کی خبر سننے کے بعد مقامی حکام نے بلوچستان کے ان تمام مقامات کو تقریباََ سیل کردیا ہے جو ایران سے سفری روابط کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔آخری خبریں آنے تک صرف تفتان میں پاکستانی سرحد کے اس پار ایرانی علاقوں میں 5000سے زائد پاکستانی وطن لوٹنے کو بے چین بتائے گئے تھے۔
اتوار کی رات سے لیپ ٹاپ کھول کر میں کئی گھنٹے یہ جاننے کی جستجو میں مبتلا رہا کہ ایران کے شہر قم میں چین سے مختص شمار ہوتا کورونا وائرس کیسے پہنچ گیا۔ایران کے تاریخی اور مقدس شہر مشہد میں بھی اس کے مریضوں کا ذکر ہوا ہے۔میری ’’تحقیق‘‘ تسلی بخش جوابات نہیں ڈھونڈپائی۔ چین کی طرح ایران نے بھی گوگل کی بدولت متعارف ہوئی ان تمام Appsکو Banکررکھا ہے جو دنیا بھر میں روزمرہّ شمار ہوتی ہیں۔ایرانی حکومت کے لاکھوں مخالفین جو امریکہ اور یورپ میں مقیم ہیں کورونا وائرس کی خبروں سے لاتعلق نظر آئے۔ اپنے خیالات کے اظہار کے لئے ویسے بھی وہ فارسی زبان استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔میں فارسی کی اس نوع کو جو ہمارے غالبؔ یا اقبال استعمال کرتے تھے بہت غور کے بعد تھوڑا سمجھ لیتا ہوں۔جدید ایرانی فارسی ہرگز پلے نہیں پڑتی۔
نظر بظاہر ایرانی حکومت کی جانب سے کوئی ایسی ویب سائٹ بنانے کا تردد ہی نہیں ہوا جو کورونا کے بارے میں تازہ ترین کو دُنیا کی مختلف زبانوں میں بیان کرے۔ نام نہاد Digitalانقلاب کے موسم میں ٹھوس اطلاعات کا ایسافقدان اپنے تئیں حیران وپریشان کن ہے۔
پاکستان کی مرکزی حکومت بھی ایران میں کورونا کے باعث ہلاکتوں کے بارے میں زیادہ متفکردکھائی نہیں دی۔فقط بلوچستان کے ایرانی سرحد سے ملحقہ اضلاع کی انتظامیہ ہی اس ضمن میں متحرک ہوئی ہے۔ایران میں کورونا وائرس کے بارے میں مستند Updatesکی فراہمی کے لئے پاکستان اور ایران کی حکومت کو فوری بنیادوں پر کوئی مشترکہ بندوبست ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ زیارتوں کے لئے پاکستان کے تقریباََ ہر بڑے شہر اور قصبے سے لوگ قافلوں کی صورت ایران میں داخل ہوتے ہیں۔ایران کے بعد عراق سے گزرتے ہوئے بیشتر قافلوں کا آخری مقام دمشق ہوا کرتا ہے۔
ہمیں ہرگز یہ خبر نہیں کہ میرا یہ کالم لکھنے تک کتنے پاکستانی ایران میں موجود تھے۔مقامی انتظامیہ نے بلوچستان کی سرحد سے ان کی وطن واپسی فی الوقت روک دی ہے۔سوال مگر یہ اٹھتا ہے کہ سرحد کے اس پار پاکستانیوں کو ایرانی حکام کس انداز میں Treatکررہے ہیں۔میری دانست میں ہمارے ہاں سے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کو وہاں پہنچنے کی ضرورت ہے۔سرحد کے پار بیٹھے پاکستانیوں کی تسلی ہی کافی نہیں۔جدید ترین آلات کی مدد سے وائرس کا شکار ہوئے پاکستانیوں کی شناخت بھی ضروری ہے۔ان کے علاج کے علاوہ ابھی تک وائرس سے محفوظ پاکستانیوں کی قرنطینہ میں انسانی ہمدردی والی دیکھ بھال بھی ضروری ہے۔
ابھی تک جو خبریں میرا یہ کالم لکھنے تک میسر تھیں ان کے مطابق ایرانی حکومت اپنی سرحدوں کو کورونا وائرس کی بناء پر بند نہیں کررہی تھی۔ فرض کیا جو قافلے زیارتوں کے لئے ایران گئے تھے وہاں سے اب عراق اور شام جاسکتے ہیں۔عراق نے بھی اپنی سرحد بند کرنے کا اعلان نہیں کیا ہے۔مجھے ہرگز خبر نہیں کہ تہران ومشہد میں قائم پاکستانی سفارت خانوں نے کوئی ایسا بندوبست کیا ہے یا نہیں کہ ایران سے عراق جانے والے زائرین کو کوروناوائرس کے حوالے سے چیک کیا جائے۔ایسا بندوبست ضروری ہے وگرنہ پاکستانیوں کو بھی عراق اور شام جیسے ممالک میں کورونا پھیلانے کا باعث قرار دیا جاسکتا ہے۔
اس کالم کامقصد سراسیمگی پھیلانا ہرگز نہیںہے۔ التجا فقط اتنی ہے کہ مستند اطلاعات اکٹھا کرنے اور انہیں قابلِ اعتبار ذرائع سے برسرعام لانے کا بندوبست کیا جائے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان بلوچستان کی راہداریوں کے ذریعے انسانی ٹریفک ہزاروں کی بنیاد پر ہوتی ہے۔اس تعداد کو ذہن میں رکھتے ہوئے پاکستان ا ور ایران کو مؤثر تعاون کی بنیاد پر یہ بندوبست کرنا ہوگا کہ سرحد کے اِس یا اُس پار جانے والوں کو تسلی بخش بنیادوں پر چیک کرتے ہوئے اس بات کویقینی بنایا جائے کہ ان میں کورونا وائرس کے Carriersموجود نہیں۔وائرس کا شکار ہوئے افراد کو فوری بنیادوں پر قافلوں سے جدا کرکے طبی امداد فراہم کی جاسکتی ہے۔
دورِ حاضر کی بدقسمتی مگر یہ بھی ہے کہ بیشتر حکومتیں اپنے ملک کے Imageکے بارے میں ضرورت سے زیادہ حساس ہیں۔چین کورونا وائرس کے ابتدائی ایام میں اس کو Underplayکرتا پایا گیا۔اس ڈاکٹر کو بلکہ گرفتار کرکے معافی مانگنے پر مجبور کیا گیا جس نے ایک سوشل ویب سائٹ پر اس وائرس کی موجودگی کے شبہ کا اظہار کیا تھا۔وہ ڈاکٹر بالآ خر مریضوں کا علاج کرتے بذاتِ خود اس وائرس کا شکار ہوکر ہلاک ہوگیا۔
ایرانیوں کوبھی اپنی قدیم تہذیب اور ثقافت کا بہت مان ہے۔بسااوقات یہ مان رعونت کی شکل بھی اختیار کرلیتا ہے۔بردار ملک کے قومی تفخر کا دل سے احترام کرتے ہوئے یہ عرض کرنے کو مگر مجبور ہوں کہ قومی اور تہذیبی ’’حمیت‘‘ وبائوں کا تدارک نہیں ہوتی۔کسی وباء کی زد میں کوئی بھی ملک آسکتا ہے۔امریکہ میں ہر سال سینکڑوں شہری آج بھی انفلوائنزا کا بروقت علاج نہ کرنے کے سبب ہلاک ہوجاتے ہیں۔احتیاطی اور حفاظتی تدابیر ہی وبائوں کا مؤثر انداز میں مقابلہ کرسکتی ہیں اور مستند اطلاعات کی بروقت فراہمی وسیع پیمانے پر خوف وحراس پھیلنے نہیں دیتیں۔