Site icon DUNYA PAKISTAN

بانجھ پن کا علاج: بیضے منجمد کرنے کی ٹیکنالوجی کتنی کامیاب ہے؟

Share

بانجھ پن کے علاج کے ماہر ڈاکٹر لارڈ ونسٹن کے مطابق منجمد بیضوں کے استعمال کے بعد شرح پیدائش محض ایک فیصد ہے جبکہ دوسرے یہی شرح زیادہ بتاتے ہیں۔

لارڈ رابرٹ ونسٹن بی بی سی ریڈیو 4 کے پروگرام میں بیضے کو منجمد رکھنے کی 10 سالہ مدت کے حوالے سے بات کر رہے تھے۔

لارڈ ونسٹن لندن کے ایمپیریئل کالج میں پروفیسر ہیں انھوں نے خبردار کیا ہے کہ ’یہ ایک ناکام ٹیکنالوجی تھی‘ اور ’منجمد کیے جانے کے بعد ان بیضوں کے حمل میں تبدیل ہونے کے نتائج صرف ایک فیصد تھے۔‘

تاہم انھوں نے یہ تناسب بچوں کی پیدائش کے حوالے سے دیا۔

برطانیہ میں بانجھ پن کے علاج کو ضابطے میں لانے والا ادارہ ہیومن فرٹیلائزیشن اینڈ ایمبریولوجی اتھارٹی (ایچ ایف ای اے) اس حوالے سے کامیاب کیسز کی تعداد ہر پانچ میں سے ایک بتاتا ہے جو کہ لارڈ سنسٹن کے 100 میں سے ایک سے کہیں بہتر صورتحال ہے۔

ان اعداد و شمار میں فرق کیوں ہے؟

یہ اس لیے ہے کہ دونوں بانجھ پن کے علاج میں مختلف مراحل پر حاصل ہونے والے کامیابی کو ماپ رہے ہیں۔

آئی وی ایف کا عمل منجمد بیضے سے آگے کچھ اس طرح سفر کرتا ہے :

لارڈ ونسٹن کے اعداد و شمار میں ایک فیصد کے شرح ان بیضوں کے حوالے سے تھی جو غیر منجمد کیے جانے کے مرحلے میں بچ پاتے ہیں جو بعد میں حمل اور ایک زندہ بچے کی پیدائش کا سبب بنتے ہیں۔ جبکہ ایچ ایف ای اے کی جانب سے 2016 کے اعداد و شمار انھیں دیے گئے جب انھوں نے ہاؤس آف لارڈز میں شرح حمل 1.8 فیصد تک بیان کی۔

جس وقت لارڈ ونسٹن نے یہ سوال پوچھا اس وقت سنہ 2016 کے بارے میں کوئی اعداد و شمار میسر نہیں تھے لیکن 2015 کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا گیا تو علم ہوا کے غیر منجمد ہو جانے والے بیضوں میں سے 2 فیصد تک حمل میں تبدیل ہوئے اور 0.7 فیصد کی پیدائش ہوئی۔

آیچ ایف ای اے نے جو نتائج نکالے وہ اس پر تھے کہ کتنے ایمبریوز پیدائش کے مرحلے تک پہنچے۔ کامیابی ماپبنے کے اسی طریقہ کار کے تحت سنہ 2017 میں مریضوں کے اپنے بیضے سے کیے جانے والے آئی وی ایف علاج میں 19 فیصد کیسز کامیاب ہوئے۔

دونوں طریقوں میں کچھ معلومات رہ جاتی ہے

اگر آپ اپنے بیضے منجمد کروانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں تو آپ شاید یہ جاننا چاہیں گے کہ آپ کے آئی وی ایف سے حاملہ ہونے کے کتنے امکانات ہیں۔ لیکن ہر بیضے کی کامیابی کی شرح کو دیکھتے ہوئے (جن کی تعداد بہت کم ہے) یہ فراموش کر دیا جاتا ہے کہ ایک آئی وی ایف راؤنڈ میں کئی بیضے استعمال کیے جاتے ہیں۔

این ایچ ایس کی گائناکالوجسٹ ڈاکٹر سارہ مارٹبنز ڈا سلوا وضاحت کرتی ہیں کہ ’اس طریقہ علاج کے دوران ’مایوسی‘ کی کیفیت متوقع ہوتی ہے۔‘

’ہر بیضہ ایمبریوں نہیں بنتا، ہر ایمبریو حمل میں نہیں ڈھلتا اور نہ ہی ہر حمل سے پچہ پیدا ہو پاتا ہے۔‘

غیر منجمد ہونے سے زرخیز ہونے، ایک ایمبریو میں ڈھلنے اور پھر بچہ دانی میں منتقل ہونے تک بیضے ہر مرحلہ پر ضائع ہوتے ہیں اور اس عمل میں شامل تمام تر بیضوں کو استعمال کرنے کا ارادہ بھی نہیں ہوتا۔

لیکن ایچ ایف ای اے کے اعداد و شمار صرف ان کیسز کے شرح پیدائش کے بارے میں جہاں ایمبریو کو بچہ دانی میں منتقل کر دیا تھا لیکن علاج کے ہر معاملے میں بات ایمبریو تک نہیں جاتی۔ اس کا مطلب ہے کہ ایچ ایف ای اے کی کامیابی کی شرح کم ہو جائے گی اگر وہ ان میں ایمبریو کی منتقلی سے پہلے کے مراحل کو بھی شامل کرتا ہے۔

جب سنہ 2016 میں لارڈ ونسٹن نے اعداد و شمار طلب کیے:

اس حوالے سے کوئی تازہ اعداد و شمار نہیں ہیں کیونکہ ایچ ایف ای اے باقاعدگی سے اعداد و شمار شائع نہیں کرتا۔

اور اس سے خواتین کے انفرادی معاملات میں بھی کامیابی کی شرح نہیں معلوم ہوتی۔ یہ ایک اوسط تعداد ہے لیکن ان ہی خواتین میں ایسی بھی ہیں جن کے تمام بیضے غیر منجمد ہوئے جبکہ دوسروں کے کوئی نہیں ہوئے۔

حاملہ ہونے کا امکانات اس بات پر منحصر ہیں کہ جس وقت بیضے منجمد کیے گئے اس وقت خاتون کی عمر کیا تھی اور عمومی صحت کیسی تھی۔

ایچ ایف ای اے کے مطابق جن خواتین کی عمر بیضے منجمد کیے جانے کے وقت 35 سال سے کم تھی ان کے معاملے میں ہر عمل کے میں شرح پیدائش زیادہ رہی جبکہ عمر کے ساتھ یہ شرح کم ہوئی۔ یعنی ایک نوجوان اور صحت مند عورت میں امکانات ان 19 فیصد سے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر جارا بین نگی سنٹر فار ری پروڈکٹو ہیلتھ میں کام کرتی ہیں اور ان کا نجی کلینک ایسی خواتین کے بیضے منجمد کرتا ہےجو طبی وجوہات کے بجائے ’معاشرتی‘ وجوہات کی وجہ سے ایسا کرتی ہیں۔ ان کے کلینک پر پورے علاج کے دوران شرح پیدائش 27 فیصد ہے۔

ایچ ایف ای اے نے اس طرف بھی اشارہ کیا کہ برطانیہ میں بہت کم خواتین اپنے منجمد کروائے گئے بیضے استمعال کرتی ہیں اس لیے اتنی کم تعداد کے نمونے لے کر اتنا کڑا نتیجہ اخذ کرنا بھی مشکل کام ہے۔

Exit mobile version