دنیابھرسے

برطانوی وزیر داخلہ پریتی پٹیل کو ’ایم آئی 5 کے غلط دعوؤں‘ پر سخت تشویش

Share

برطانوی حکومت نے وزیر داخلہ پریتی پٹیل پر انٹلیجنس اداروں کے سربراہوں کی جانب سے عدم اعتماد اور ان کے عملے کو دھمکانے کے حوالے سے میڈیا رپورٹس کو’جھوٹ’ قرار دیا ہے۔

حکام نے اس بات کی تردید کی ہے کہ ایم آئی فائیو نے پریتی پٹیل کی صلاحیتوں پر حکام کی جانب سے عدم اعتماد کے الزامات کے بعد ان سے معلومات خفیہ رکھی ہیں۔

ان پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ انھوں نے اپنے محکمہ میں ایک انتہائی سینئر سرکاری افسر فلپ رتنم کو ملازمت سے برطرف کرنے کی کوشش کی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ دونوں کو ان ‘جھوٹے الزامات’ پر سخت تشویش ہے۔

وزیر داخلہ پریتی پٹیل کو ڈاؤننگ سٹریٹ کی حمایت حاصل ہے۔ وزیر اعظم کے سرکاری ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ بورس جانسن کو وزیر داخلہ پر ‘پورا اعتماد’ ہے۔

مس پٹیل اور سر فلپ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ دنوں اپنے محکمے میں امیگریشن سسٹم کی بحالی، مزید پولیس افسران کو سڑکوں پر تعینات کرنے اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے جیسے ‘انتہائی اہم ایجنڈے’ کی فراہمی پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔

یہ بیان اس کے وقت سامنے آیا ہے جب ایک ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ پریتی پٹیل اور سر فلپ، جو اپریل 2017 سے وزارت داخلہ کی مستقل سکریٹری ہیں کے مابین کوئی دشمنی یا ‘سخت جملوں’ کا تبادلہ نہیں ہوا تھا – لیکن وہ صرف ‘ایک دوسرے سے خوش نہیں تھے۔’

بی بی سی کے اسسٹنٹ پولیٹیکل ایڈیٹر، نارمن سمتھ کا کہنا ہے کہ سکیورٹی سروس کے ایک ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر داخلہ سے معلومات روکنے کا دعوی’محض غلط’ اور ‘انتہائی غیر معمولی’ تھا۔

پریتی پٹیل

وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ وزیر داخلہ پریتی پٹیل کے بارے میں کوئی ‘باضابطہ شکایت’ نہیں کی گئی ہے۔ وہ بورس جانسن کے وزیر اعظم بننے کے وقت سے وزیر داخلہ ہیں۔

وزیر سلامتی جیمز بروکن شائر نے بی بی سی بریکفاسٹ کو بتایا کہ محترمہ پٹیل کے بارے میں ‘بہت ساری جھوٹی کہانیاں’ گردش کرتی رہی ہیں اور سکیورٹی بریفنگ معمول کے مطابق جاری ہے۔

انھوں نے مزید کہا: ‘میں محض ان تبصروں، غلط الزامات اور دعوؤں کو تسلیم نہیں کرتا جو ہر طرف گھوم رہے ہیں۔’

سابق ماحولیات سیکریٹری تھریسا ویلیئرز نے بھی کہا کہ وہ ‘اعلی عوامی عہدے پر فائز خواتین کے خلاف نفرت آمیز باتوں سے بیزار ہیں۔’ انھوں نے محترمہ پٹیل کو ‘انتہائی موثر وزیر داخلہ’ قرار دیا ہے۔

انھوں نے بی بی سی ریڈیو فور کے آج کے پروگرام میں بتایا کہ ان کا خیال ہے کہ ان الزامات میں خواتین کے خلاف تعصب کا ایک عنصر موجود ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ‘مجھے قطعی طور پر یقین ہے کہ وہ اپنے سرکاری ملازمین کے ساتھ سخت اور ان سے کام کا مطالبہ کرتی ہیں۔’ لیکن ان کے خیال میں مس پریتی نے اپنے عملے کے ساتھ ‘کچھ بھی غیر مناسب’ نہیں کیا ہوا ہوگا۔

سنڈے ٹائمز نے دعوی کیا ہے کہ وزیر داخلہ کو اپنے پیشروؤں کی طرح سکیورٹی اور انٹلیجنس بریفنگ نہیں مل رہی ہے کیونکہ ایم آئی فائیو کے حکام ان پر اعتماد نہیں کرتے ہیں۔

ایک حکومتی ترجمان کا کہنا تھا کہ پریتی پٹیل اور ایم آئی فائیو کے درمیان ‘مضبوط اور قریبی تعلقات ہیں اور اس کے برعکس دعوے غلط اور عوامی مفاد کے منافی ہیں۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ مس پریتی سے کسی قسم کی معلومات کو روکا نہیں گیا تھا اور وہ ‘انھیں اپنے پیش روؤں کی طرح کی روزانہ انٹیلیجنس بریفنگز دی جاتی ہیں۔’

برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز نے خبر دی تھی کہ پریتی پٹیل نے ایم آئی فائیو کی جانب سے ‘مخالفانہ بریفنگ’ کیسے دی گئی کی انکوائری کا حکم دیا ہے، حالانکہ کابینہ کے ایک ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی حکم نہیں دیا گیا ہے۔

ان الزامات کے ساتھ ساتھ سول سروس اور حکومت کے مابین عملے کی بھرتی اور برتاؤ کے معاملے پر تناؤ کی خبروں کے الزامات بھی سامنے آئے ہیں۔

وفاقی کابینہ سرکاری وزراء اور خصوصی مشیروں کے لیے ایچ آر پالیسی کی نگرانی کے لیے ایک نیا سرکاری ملازم بھرتی کر رہی ہے۔