کالم

تعلیم کی زبوں حالی

Share

مہنگائی نے سالوں بعد پہلی بار ایک طوفان کی شکل اختیار کر رکھی ہے۔ لوگوں کو واقعی آٹے دال کی پڑی ہے۔ دو وقت کی روٹی کمانا مشکل ہو چلا ہے۔ لاکھوں لوگ ہر روز غربت کی لکیر سے نیچے جا رہے ہیں۔ بے روزگاری تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے اور حکام اپنے عوام کو اس سیلاب سے بچانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے۔ ایسے میں تعلیم کی زبوں حالی کی بات کرنا عجیب سا لگتا ہے۔ لیکن دنیا کا تجربہ یہی بتاتا ہے کہ اگر کسی قوم کو غربت، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل سے نجات پا کر اپنے پاوں پر کھڑا ہونا ہے اور ترقی کی منزلیں طے کرنی ہیں تو اسے تعلیم کو پہلی ترجیح بنانا ہو گا۔
ہمارے حکمرانوں کے دعووں کے برعکس، تعلیم آج بھی ہماری ترجیحات کی فہرست میں بہت نیچے ہے۔ موجودہ حکمران جماعت تحریک انصاف کے منشور پر نظر ڈالیں تو تعلیم کے حوالے سے بہت ہی دل خوش کن وعدے دکھائی دیتے ہیں۔ کہا گیا کہ ہم ملک کو طبقاتی نظام تعلیم سے نجات دلا کر یکساں نظام تعلیم رائج کریں گے۔ ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی قائم کریں گے جس سے یونیورسٹی جانے والے نوجوانوں کی تعداد 7 فیصد سے بڑھ کر 15 فیصد ہو جائے گی۔ تعلیم کے معیار کو پستیوں سے نکال کر بلندیوں کی طرف لے جائیں گے۔ہائیر ایجوکیشن کے نظا م میں انقلابی تبدیلیاں لائیں گے۔ تربیتی مہارتوں کے لئے ووکیشنل اداروں کا جال پھیلائیں گے۔ تعلیم کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کریں گے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں انقلاب لا کر نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کریں گے۔ اب ان تمام وعدوں اور دعووں کو ایک ایک کر کے دیکھیے۔شاید ہی کوئی شعبہ ہو جس میں بہتری آئی ہو بلکہ حالات پہلے سے بھی ذیادہ خراب ہو چکے ہیں۔
2018-19 کے بجٹ میں مجموعی قومی پیداوار یعنی جی۔ڈی۔پی کا صرف 2.4 فی صد وقف کیا گیا۔ اس 2.4 کا کتنا حصہ تنخواہوں، پنشنوں اور دیگر غیر پیداواری شعبوں پر صرف ہو جاتا ہے، اس کا اندازہ بھی ضرور لگانا چاہیے۔ یہ اخراجات نکال کر خالصتاتعلیمی سرگرمیوں اور تحقیق کے لئے غالبا 1 فیصد بھی نہیں بچتا ہو گا۔ مزید ستم یہ ہوا کہ تعلیمی بجٹ میں اضافے کے بجائے 20 فیصد کٹوتی کر دی گئی۔ اس کٹوتی نے نہ صرف تعلیمی عمل پر جمود طاری کر دیا بلکہ جامعات کے لئے روزمرہ کے اخراجات چلانا بھی ممکن نہ رہا۔ سند ھ اور خیبر پختونخوا کی متعدد یونیورسٹیوں میں بحرانی کیفیت پیدا ہو گئی ہے اور اساتذہ کی تنخواہوں کی ادائیگی ممکن نہیں رہی۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے منظور شدہ 200 کے لگ بھگ اداروں میں بھی بجٹ کٹوتی کے منفی اثرات نمایاں ہونے لگے ہیں۔ اساتذہ کی خالی آسامیوں پر تقرریاں مشکل ہو گئی ہیں۔ تحقیق کا عمل رک گیا ہے۔ تجربہ گاہوں کو ضروری سامان کی فراہمی میں رکاوٹیں آرہی ہیں۔ اساتذہ کو بیرون ملک کانفرنسوں کے لئے بھیجے جانے کا عمل سست پڑتا جا رہا ہے۔ جامعات کے اندر سیمینارز، کانفرنسیں اور مذاکرے بجٹ کٹوتی کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔
ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر طارق بنوری نے کا کہنا ہے کہ انہوں نے 2019-20 کے بجٹ کے لئے حکومت سے 103 ارب روپے مانگے تھے۔ لیکن انہیں صرف65 ارب روپے ملے۔ ادھر بجٹ میں اساتذہ کی تنخواہوں اور پنشنوں میں اضافے(اور روپے کی قدر میں ہونے والی گراوٹ) کے باعث 65 ارب روپے اور بھی کم ہو گئے۔ ڈاکٹر بنوری نے انکشاف کیا کہ پاکستان میں افریقی ممالک سے بھی کہیں کم بجٹ تعلیم کو دیا جا رہا ہے۔ ادھر حکومتی اقدامات اور انضباطی نوعیت کی کاروائیوں نے نجی تعلیمی اداروں کے لئے بھی مسائل پیدا کر دئیے ہیں۔ حال ہی میں پرائیویٹ جامعات نے ” ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیز ان پنجاب” (APSUP) کے نام سے ایک تنظیم قائم کر لی۔ اس تنظیم کے نو منتخب صدر چوہدری عبدالرحمن نے حکومت کو اپنے مسائل کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا ہے کہ اگر حکومت کا رویہ یہی رہا تو ہم تعلیمی اداروں پر تالے لگانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اگرچہ اس تنظیم کا دائرہ فی الحال صرف پنجاب تک محدود ہے لیکن مسائل کی نوعیت باقی صوبوں میں بھی کم وبیش یہی ہے۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک طرف تو بجٹ کٹوتی اور حکومت کی تعلیمی پالیسی کے باعث سرکاری جامعات کی تعلیمی سرگرمیاں سکڑ گئی ہیں اور دوسری طرف نجی یونیورسٹیوں کو بھی مسائل میں جھونک دیا گیا ہے۔ جس ملک میں اعلیٰ تعلیم کا یہ حشر کر دیا جائے وہاں ایسے نوجوان کہاں سے نکلیں گے جو اپنے اپنے شعبے میں اعلیٰ استعداد کے مالک ہوں اور عالمی سطح پر انکی اہلیت کو تسلیم کیا جائے۔

پرائمری اور ہائی اسکول سطح کی تعلیم اور بھی ذیادہ زبوں حالی کا شکار ہے۔ تقریبا ڈیڑھ لاکھ سرکاری اسکولوں میں سے 11 فیصد کے پاس اپنی کوئی عمارت نہیں۔ 40 فیصد کے پاس پانی کی سہولت نہیں۔ 60 فیصد بجلی سے محروم ہیں۔ بیشتر عمارات انگریزی دور کی تعمیر شدہ ہیں جو پرانی اور بوسیدہ ہو چکی ہیں۔ آپ ذرا تصور کی آنکھ سے دیکھیے کہ ان اسکولوں میں لائبریری نام کی کوئی چیز ہو گی یا نہیں؟ لیبارٹری موجود ہو گی یا نہیں؟کھیل کا میدان اور سامان ہو گا یا نہیں؟ اساتذہ کی تعداد پوری ہو گی یا نہیں؟ یہ بچے نئے دور کی ٹیکنالوجی، کمپیوٹر وغیرہ سے واقف ہوں گے یا نہیں؟ نتیجہ یہ کہ وہی والدین اپنے بچوں کو ان اسکولوں میں بھیجتے ہیں جوغربت یا کم آمدنی کے باعث پرائیویٹ سکولوں کی فیسیں ادا نہیں کر سکتے۔ جو ذرا سی بھی توفیق یا استعداد رکھتے ہیں وہ اپنے بچوں کو (اپنا پیٹ کاٹ کر) پرائیویٹ سکولوں میں بھیج دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ اس وقت تقریبا 40 فیصد بوجھ ان پرائیویٹ اداروں نے اٹھا رکھا ہے۔ تصویر کا انتہائی افسوس ناک رخ یہ ہے کہ 5 سال سے 16 سال کی عمر کے تقریبا اڑھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ ان میں ستر فیصد لڑکیاں ہیں۔ یقینا ان میں ایسے بھی ہیں جو سکول جا ہی نہیں سکے اور ایسے بھی جو کسی نہ کسی سطح پر تعلیم چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ ہمارے آئین کی شق 25-A تعلیم کے حق (right to education) کی ضمانت دیتی اور اسے حکومت وقت کی ذمہ داری قرار دیتی ہے لیکن آئین کی یہ شق بھی بہت سی دوسری شقوں کی طرح پس منظر میں جا چکی ہے۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہماری آبادی میں مسلسل اضا فہ ہو رہا ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ ہم ناخواندہ یا کم خواندہ نوجوانوں کے نئے جتھے تیار کر رہے ہیں۔
تعلیم کی یہ زبوں حالی کئی اسباب رکھتی ہے لیکن بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے مالی وسائل محدود ہیں۔ ہماری آمدنی کا بڑا حصہ قرضوں کے سود کی ادائیگی کی نذر ہو جاتا ہے۔ دفاع ہماری دوسری بڑی ترجیح ہے۔ باقی جو کچھ بچتا ہے اسی سے کاروبار حکومت بھی چلنا ہے۔ سڑکیں، پل اور موٹرویز بھی بننی ہیں۔ ڈیم بھی تعمیر ہونے ہیں۔ دنیا بھر میں قائم سفارت خانوں کو بھی چلانا ہے۔ ملازمین کو تنخواہیں بھی دینی ہیں۔ پنشن بھی ادا کرنی ہے۔ اتحادیوں کے مطالبات بھی ماننے ہیں۔ ان کے حسب خواہش (بلکہ فرمائش) ترقیاتی فنڈز بھی جاری کرنے ہیں۔ خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کا پیٹ بھی بھرنا ہے۔ اور وہ سب کچھ کرنا ہے جو حکومتیں کیا کرتی ہیں۔تاہم سوال یہ ہے کیا ہم اسی طرح ایسے افراد پیدا کرتے رہیں گے جو مختلف شعبہ ہائے زندگی میں عالمی معیارات کا مقابلہ نہ کر سکیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں کہیں نہ کہیں رک کر ٹھنڈے دل سے جائزہ لینا ہو گا کہ تعلیم کے نظام میں کس طرح بہتری لائی جائے اور ہم اپنے تعلیمی اداروں کو، پرائمری کی سطح سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک کیوں کر بتدریج عالمی معیار کے مطابق لانے کی کوشش کریں۔ جس طرح کسی مریض کے علاج پر خرچ کی جانے والی رقم میں کٹوتی کے معنی اس مریض کو موت کے سپرد کر دینا ہے اسی طرح تعلیم کے بجٹ میں کٹوتی کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہم اپنے مستقبل کو اپنے ہاتھوں برباد کر رہے ہیں۔ عالمی معیار پر تعلیم کے لئے کم از کم اخراجات کو جی۔ڈی۔پی کا چار، پانچ فی صد کہا گیا ہے اور ہم 2 فی صد میں بھی مزید کٹوتیوں کے درپے ہیں۔ عمران خان کبھی کہا کرتے تھے کہ ہمیں موٹرویز اور میٹروز پر نہیں، ہیومن ڈیویلپمنٹ یعنی انسانی ترقی پر پیسہ خرچ کرنا چاہیے۔ اور اب نہ موٹرویز رہیں، نہ میٹروز۔ اور انسانی ترقی کا یہ عالم ہے کہ کروڑوں بچے سکولوں سے باہر ہیں اور جو تعلیمی اداروں کے اندر ہیں، وہ بھی شاید محض فریب تعلیم ہی کا شکار ہیں۔