کچھ لوگ مایوسی کا اظہار کرتے ہیں۔ کچھ لوگ بد دل ہونے لگے ہیں۔ کچھ لوگ اسٹیبلشمنٹ کی طاقت سے خوف کھانے لگے ہیں۔ کسی کو اپنے بچوں کی اور فیملی کی فکر ہے۔ اور کوئی اس لیے پریشان ہے کہ ستر سالوں کی برتری ہے۔ آخر یہ کنٹرول کیسے ختم ہو گا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں۔ یہ بہت پر کار ہیں۔ شطرنج کے کھیل کے ماہر ہیں۔ منظم ہیں۔ ان کے مقابلے میں جو عام لوگوں کا لشکر ہے۔ وہ بے ترتیب ہے۔ بغیر لیڈر کے ہے۔ اور ان پر کرپشن اور لوٹ مار کے الزامات ہیں۔ جبکہ اسٹیبلشمنٹ کی فورسز سے عام لوگ محبت کرتے ہیں۔ ان کا احترام کرتے ہیں۔ انہیں ناگزیر سمجھتے ہیں۔ ایسے میں سویلین سپریمیسی یعنی پارلیمنٹ کی بالادستی کے خواب دیکھنا محض دیوانے کی بڑ ہے۔ خاص طور پر حالیہ چئیرمین سینٹ کے الیکشن میں جس طرح اقلیت کو اکثریت اور اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا گیا۔ بکاو مال کو ضمیر کی آواز کہہ کر اسے گلوری فائی کیا گیا۔ جس طرح مخصوص دانشوروں نے اسٹیبلشمنٹ کے ناقابل شکست ہونے کے گیت گائے۔ جس طرح اکثریت کے باوجود شکست کھانے والوں کا مذاق اڑایا گیا۔ اور اپنے ہر برے عمل کا جواز پچھلی حکومتوں سے نکالا گیا۔ اور یہ بھی نہ سوچا گیا۔ کہ آپ اسی سسٹم کو تبدیل کرنے کا دعویٰ لے کر آئے تھے۔ اس مضحکہ خیز صورت حال نے لوگوں کو مایوس کیا ہے۔ اور وہ اسٹیبلشمنٹ کی لامتناہی قوت کے آگے خود کو بے بس پاتے ہیں۔
خبر پڑھیں:وزیراعظم کی ترک ڈرامہ ”ارطغرل غازی“ کو پی ٹی وی پر نشر کرنیکی ہدایت
شائد یہ سب کچھ سچ ہو۔ لیکن ایک سچ یہ بھی ہے۔ انسانی تہذیب نے ترقی کی ہے۔ ہمارا سچ لمحاتی اور واقعاتی اور ایک مخصوص اور محدود علاقے تک محدود ہے۔ جبکہ انسانی تہذیب نے یہ ترقی زمان و مکان میں کی ہے۔ اور یہ ترقی ہر سمت میں کئی جہتی ہوئی ہے۔ سماوی حق شاہی سے عوامی حق رائے دہی تک ہوئی ہے۔ معاشیات، سماجیات، سیاسیات میں ہوئی ہے۔ انسانی تہذیب کا اصول اور خدائی قانون یہ ہے۔ کہ جب نسل انسانی کسی خاص شعبے میں ترقی کرتی ہے۔ جبکہ دنیا کے کچھ حصے اس ترقی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ تو ترقی یافتہ قوموں سے یہ ترقی غیر ترقی یافتہ علاقوں کی جانب سفر کرتی ہے۔ خواہ یہ سائنس ہو۔ عمرانیات ہو۔ فلاسفی ہو۔ نفسیات ہو۔ آپ انسانی تہذیب کی ترقی پر کوئی بھی کتاب پڑھ لیں۔ یہی نظر آئے گا۔ چناچہ یہ کیسے ممکن ہے۔ دنیا کے اکثریتی ملک جمہوریت ، آزاد حق رائے دہی ، حق تقریر ، تحریر اور دلیل انجوائے کر رہے ہوں۔ اپنے حکمران چننے کا حق رکھتے ہوں۔ فلاحی ریاستوں میں تبدیل ہو چکے ہوں۔ اپنے فیصلے خود کرتے ہوں۔ وہاں اسی دنیا کا ایک ملک آج بھی ان تمام حقوق سے محروم ہو۔ سویلین سپریمیسی ایک خواب نظر آتا ہو۔ اور ایک مخصوص طاقتور طبقے نے ملکی دفاع اور سیکیورٹی کے نام پر اپنا تسلط قائم کر رکھا ہو۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ خلاف قانون قدرت ہے۔ خلاف اصول انسانی تہذیب ہے۔ ہاں اس میں دیر سویر ہو سکتی ہے۔
برطانیہ کی تاریخ پڑھ لیں۔ 1215 میں کنگ جون اور اس کے مصاحبین کے درمیان ایک شدید لڑائی کے بعد تاریخی معاہدے میگنا کارٹا پر دستخط ہوئے۔ جس میں پہلی بار بادشاہ نے اپنے کچھ سماوی حق شاہی کے اختیارات اپنے مصاحبین کو منتقل کیے۔ لیکن یہ پھر 473 سالوں کے بعد یعنی 1688 کا شاندار انقلاب تھا۔ جب پارلیمان نے مکمل سویلین سپریمیسی حاصل کر لی۔ 1800 میں 5 % کو حق رائے دہی ملا۔ 1867 میں 32 % کو جبکہ 1969 میں ووٹ ڈالنے کا حق تمام بالغ رائے دہندگان کو حاصل ہو گیا۔ برطانیہ میں بادشاہت عملی طور پر ختم ہو گئی۔ لیکن ساڑھے سات سو سالوں پر محیط یہ جمہوری جدوجہد اتنی آسان نہیں تھی۔ اس دوران 1642 میں سول خانہ جنگی ہوئی۔ جس میں کنگ چارلس مارا گیا۔