مصر کے سابق صدر حسنی مبارک کا قاہرہ میں انتقال ہو گیا ہے۔ ان کی عمر 91 برس تھی اور انھیں سنہ 2011 میں فوجی اقدام کے ذریعے ان کے عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔
حسنی مبارک کا دور تین دہائیوں پر محیط تھا پھر ‘عرب سپرنگ’ کی لپیٹ میں مصر بھی آیا۔
حسنی مبارک کو انقلاب کے دور میں مظاہرین کی ہلاکتوں میں ملوث ہونے کا جرم ثابت ہوا تھا۔
لیکن پھر اس سزا کو کالعدم قرار دیا گیا اور انھیں مارچ 2017 میں رہا کر دیا گیا۔
حسنی مبار ک کی موت کی تصدیق سرکاری ٹی وی پر منگل کو کی گئی۔
اس سے قبل الوطن نامی نیوز ویب سائٹ پر خبر دی گئئ تھی کہ حسنی مبارک کی وفات ملٹری ہسپتال میں ہوئی ہے۔
حسنی مبارک کے طویل اقتدار کے خلاف قاہرہ، سکندریہ، سویز اور مصر کے کئی دیگر شہروں میں ہونے احتجاجی مظاہروں کو روکنے کے فوج کا استعمال کیا گیا تھا جس میں خیال کیا جاتا ہے کہ 800 سے زیادہ لوگوں کی جان گئی تھی۔
18 دن تک چلے ان مظاہروں کی وجہ سے 30 سال تک اقتدار میں قابض رہنے کے بعد مبارک کو صدر کے عہدے چھوڑنا پڑا تھا۔
مبارک نے مظاہرین کے قتل کے احکامات دینے کے الزامات سے انکار کیا تھا اور زور دے کر کہا تھا کہ تاریخ انہیں ایک محب وطن کے طور پر یاد کرے گا جس نے اپنے ملک کی خدمت بے لوث انداز سے کی۔
رواں برس جنوری کے اواخر میں ان کی سرجری ہوئی تھی۔ ان کے بیٹے علی نے سنیچر کو کہا تھا کہ ان کے والد کو ابھی بھی انتہائی نگہداشت میں رکھا گیا ہے۔