ملٹری مائنڈ سیٹ میں تبدیلی
1988 میں جنرل ضیاء الحق کی طیارہ حادثے میں ہلاکت کے بعد پاک ملٹری مائنڈ سیٹ میں چند تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں۔ اور کچھ فیصلے کیے گئے۔ سب سے بڑا فیصلہ یہ کیا گیا۔ کہ اب ملٹری کبھی مارشل لاء نہیں لگائے گی اور نہ ہی ایکسٹینشن لی جائے گی۔ جمہوریت اگر ایک بدی ہے۔ تو تب بھی اسے ایک ضروری بدی کے طور پر قبول کیا جائے گا۔سول حکومت کے معاملات میں مداخلت نہیں کی جائے گی۔ اور انتخابی عمل کو جاری رکھا جائے گا۔ ان فیصلوں کے پیچھے ضیاء الحق کا طویل مارشل لاء تھا۔ جس کے دوران نہ صرف ملک تباہ ہو گیا۔ خود آرمی کا ادارہ بھی نقصانات سے نہ بچ سکا۔
خبر پڑھیں:وزیراعظم کی ترک ڈرامہ ”ارطغرل غازی“ کو پی ٹی وی پر نشر کرنیکی ہدایت
یہ بھی ثابت ہوا کہ آرمی حکومت بین الاقوامی کمیونٹی کو قبول نہیں۔ اسی طرح آرمی حکومت کو ضلعی سطح تک چلانا ایک اچھی خاصی قباحت تھی۔ خاص طور پر وہ سیاسی پارٹیاں جو آرمی حکومت کے ساتھ مل کر اقتدار کے مزے لیتی ہیں۔ ضرورت پڑنے پر سارا الزام فوج کے سر تھوپ دیتی ہیں۔ آرمی آفیسرز کے بچے ، فیمیلیز ، ایک ہی اسکول میں پڑھتے ہیں۔ ایک ہی پوش علاقے میں رہتے ہیں۔ ان کے مسائل بھی مشترکہ ہیں۔ چناچہ اس سوشل ہم آہنگی سے ایک نئی آرمی کلاس ابھر رہی تھی۔ ایک فیصلہ یہ کیا گیا۔ افغانستان میں مداخلت نہیں کی جائے گی۔ تذویراتی گہرائی کو فالو نہیں کیا جائے گا۔ چین ان معاملات کو دیکھے گا۔پاک آرمی سیاست کھیلتے اور حکومتیں چلاتے بہت پیچھے رہ گئی۔ یہ سائبرفیلڈ ، معاشی دہشت گردی کا زمانہ ہے۔ اس میں بارڈر اور مقام کی اہمیت نہیں۔
جنرل ضیاء الحق کی ہلاکت کے بعد آرمی کے جن بڑوں نے یہ فیصلے کیے تھے۔ انہوں نے کسی حد تک ان پر عمل کیا۔ جنرل اسلم بیگ، جنرل آصف جنجوعہ، جنرل وحید کاکڑ حکومتیں بدلتے رہے۔ لیکن نہ مارشل لاء لگایا نہ ایکسٹینشن لی۔ جنرل جہانگیر کرامت سے تو نوازشریف نے استعفیٰ بھی لے لیا۔ اس کے بعد جرنیلوں کی وہ کھیپ آئی۔ جو نوے کی دہائی میں جونیئر تھے۔ جنرل مشرف نے مارشل لاء لگایا۔ اور نو سال گزار گئے۔ ان سے جنرل کیانی نے استعفیٰ لیا لیکن جنرل کیانی نے ایکسٹینشن لے لی اور چھ سال گزار دیے۔ جنرل راحیل شریف باوجود خواہش کے ایکسٹینشن نہیں لے سکے۔ اور اب جنرل باجوہ کے متعلق سوشل میڈیا میں افواہیں چل رہی ہیں۔ میرا تھیسس یہ ہے۔ نبے کی دھائی میں جو فیصلے کیے گئے تھے۔ اس کے مطابق خواہ ڈھیلا ڈھالا مگر ایک جمہوری عمل چل رہا ہے۔ مارشل لاء نہیں لگا۔ البتہ جنرل مشرف اپنا ایک ایگزیٹو سسٹم لے آئے۔ انہیں جنرل کیانی نے فارغ کیا تو خود ایکسٹینشن لے لی۔ لیکن قرائن بتاتے ہیں۔ اب شاید ایکسٹینشن کی باری بھی نہ آئے۔ یاد رہے۔ ہمارے جرنیلوں کی یہ تاریخ رہی ہے۔ اصل حکمران وہ ہوتے ہیں۔ لیکن وقت پلٹا کھا رہا ہے۔ اور دانش اور منطق سامنے آ رہی ہیں۔ ایسے میں وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں۔ کہ اسٹیبلشمنٹ سے کبھی جان نہیں چھوٹے گی۔ انہیں حالات و واقعات پر گہری نظر رکھنی چاہیے۔