عوامی سطح پر بدنظمی اور سرکاری سطح پر بد انتظامی کا حسین امتزاج دیکھنا ہو تو آپ کو چولستان ڈیزرٹ ریلی میں آنا ہوگا۔ ساڑھے تین لاکھ سے زائد شتر بے مہار اور لاوارث عوام کے انبوہ کو سنبھالنے کا اول تو کوئی سرکاری انتظام ہے ہی نہیں اور اگر کچھ ہے بھی تو وہ اونٹ کے منہ میں زیرے سے زیادہ نہیں۔ ٹریفک پولیس کنڈے والی پل پر نظر آتی ہے اور اس کے بعد دل وش سٹیڈیم کے سامنے دکھائی دیتی ہے۔ درمیان میں جگہ جگہ ٹریفک پھنستی ہے اور اپنی مدد آپ کے باوجود‘ یعنی ہر شخص کی بھرپور خرابی کے باوجود اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی کے طفیل خود بخود کھل جاتی ہے۔
گزشتہ دو سال سے میں نے یہ طریقہ پکڑا تھا کہ آخری روز جب لوگ فنشنگ پوائنٹ پر اور اس کے آس پاس ریلی کے اختتام اور نتائج کا انتظار کر رہے ہوتے تھے‘ واپسی کا راستہ نسبتاً صاف ہوتا تھا‘ واپسی اختیار کر لیتا تھا۔ اس سال بھی یہی طریقہ آزمایا اور دوپہر ایک بجے کے لگ بھگ جب ریلی اپنے زوروں پر تھی‘ دوستوں کی سٹارٹنگ پوائنٹ سے روانگی دیکھنے کے بعد تھوڑی دور صحرا کے اندر جا کر ریس والی گاڑیوں کو آتا اور جاتا ہوا دیکھ کر واپسی کیلئے کوچ کیا ‘لیکن شاید میرا پلان آئوٹ ہو چکا تھا اور لوگ دھڑا دھڑ واپس جا رہے تھے۔ غالباً سب نے یہی سوچ کر واپسی کا ارادہ کیا ہوا تھا کہ اس وقت رش کم ہوگا۔ اسی غلط فہمی نے ایسا رش پیدا کر دیا کہ جلدی نکلنے کا مقصد ہی فوت ہو گیا۔ پلان لیک آئوٹ ہونے سے ایک لطیفہ یاد آ گیا۔
کسی کمیونسٹ ملک میں حکومت نے اعلان کیا کہ جس شخص کے آٹھ یا اس سے زیادہ بچے ہوں گے حکومت اس کو سرکاری گھر مفت میں دے گی۔ ایک شخص کے چھ بچے تھے اس نے اپنی بیوی کو اعتماد میں لیتے ہوئے کہا : نیک بخت ! ہمارے پاس مفت سرکاری گھر حاصل کرنے کا نادر موقعہ ہے اور اگر تم دل بڑا کرو تو ہم یہ گھر حاصل کر سکتے ہیں۔ خاتون خانہ نے حیران ہو کر پوچھا: یہ کس طرح ممکن ہے؟ ہمارے تو چھ بچے ہیں اور گھر کے لیے کم از کم آٹھ بچوں کی شرط ہے۔ اس شخص نے اپنی بیوی کو کہا کہ میرے ایک اور خاتون سے بھی دو بچے ہیں‘ میں جا کر انہیں یہاں لے آتا ہوں اس طرح ہمارے آٹھ بچے ہو جائیں گے اور ہمیں گھر مل جائے گا۔ پہلے تو اس کی بیوی نے خوب فساد برپا کیا ‘تاہم غصہ ٹھنڈا ہونے پر اس نے اپنے شوہر کو اجازت دے دی کہ وہ جا کر اپنے دونوں بچے لے آئے۔ دو چار گھنٹوں کے بعد جب وہ شخص اپنے دو بچے کہیں سے وصول کر کے گھر لایا تو کیا دیکھتا ہے کہ گھر میں چھ کے بجائے تین بچے ہیں۔ اس نے بیوی سے پوچھا کہ باقی تین بچے کہاں ہیں؟ تو بیوی نے کہا کہ لگتا ہے ہمارا پلان لیک آئوٹ ہو گیا ہے۔ جن کے وہ تین بچے تھے‘ وہ بھی آ کر واپس لے گئے ہیں۔
ہم لوگ ناگہانی طور پر ٹریفک میں پھنس جانے کے عادی ہیں۔ کبھی بھی کسی وقت کوئی وی آئی پی موومنٹ ہو سکتی ہے۔ کبھی کسی وقت ہوائی اڈے کا راستہ بند ہو سکتا ہے۔ گزشتہ تین روز سے ملتان بھی چولستان ڈیزرٹ ریلی والی صورتحال کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔ ملتان کی انتہائی اہم اور مصروف سڑک ابدالی روڈ پر ستاروں والا ایک ہوٹل ہے۔ پی ایس ایل کی ٹیمیں وہاں رہائش پذیر ہیں اور یہ سڑک حفاظتی نقطۂ نظر کے سبب بند کر دی گئی ہے۔ اس سڑک کی بندش سے ارد گرد کی نسبتاً تنگ سڑکیں ٹریفک کے اژدھام کے باعث مزید تنگ دکھائی دیتی ہیں اور ہمہ وقت پھنسی ہوئی ہیں۔ دو چار ہفتے قبل محترم چیف جسٹس آف پاکستان‘ ملتان تشریف لائے تو آدھے شہر کی سڑکوں کو انتظامیہ نے بند کر دیا اور باقی والی آدھی سڑکوں کو ٹریفک کے بے ہنگم ہجوم نے بند کر دیا۔ تھوڑے سے تعمیراتی سامان کی غرض سے ڈیرہ اڈا جانے کے لیے ایک راستے کا انتخاب کیا اور پھر ٹریفک میں پھنس کر خود کو کافی کوسا۔ واپسی پر نہایت سوچ سمجھ کر اور غور و خوض کے بعد دوسرے راستے کا انتخاب اور پھر پہلے سے بھی زیادہ خود کو کوسا۔
اور ملتان کی ہی کیا؟ تین دن پہلے لاہور میں تھا اور فیصل ٹائون سے ایک شادی میں شرکت کی غرض سے کینٹ جانا تھا۔ قذافی سٹیڈیم کے ارد گرد پی ایس ایل کے میچوں کے باعث سڑک کی بندش کے باعث اندازہ لگایا کہ کینٹ میں کم از کم پینتالیس منٹ تو لگیں گے۔ لیکن سب اندازے خام نکلے۔ جناح ہسپتال سے لیکر برکت مارکیٹ تک اندازے والا سارا وقت صرف ہو گیا۔ اور ہم اپنی منزل مقصود تک ایک گھنٹہ اور بیس منٹ میں پہنچے۔ انتظامیہ کے مزے ہیں۔ اس کا کام کسی سڑک کو انتظامی اور حفاظتی حوالے سے بند کرنا ہوتا ہے اور وہ یہ کام کر کے اپنی دیگر ذمہ داریوں سے فارغ ہو جاتی ہے۔ باقی سارا کام عوام اپنی جلد بازی‘ بے صبری اور بدنظمی سے مزید خراب کر لیتی ہے۔ پانچ منٹ کا راستہ پچاس منٹ میں طے کر کے منزل مقصود تک پہنچ جائیں تو غنیمت ہے۔ ہم لوگ ٹریفک جام نامی افتاد میں کسی وقت بھی پھنس سکتے ہیں۔ قلعہ دراوڑ جاتے ہوئے جب ٹریفک میں پھنسا تو ملتان یاد آیا کہ وہاں بھی وی آئی پی موومنٹ کے دوران ایسے ہی پھنستے ہیں اور گزشتہ تین دن سے جب ملتان کی سڑکوں پر پھنستا ہوں تو ڈیزرٹ ریلی والے سفر کو یاد کرتا ہوں۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ٹریفک میں پھنس جائوں تو زیادہ ٹینشن نہیں لیتا کہ اب اس ملک میں خوش باش رہنے کے لیے بہت سی چیزوں سے سمجھوتہ کر لیا ہے۔ ٹریفک جام ان میں سے ایک ہے۔ شاذ ہی ایسا ہوتا ہے کہ میں ٹریفک جام میں پھنس جائوں اور گاڑی کا ہارن بجائوں۔ مجھے علم ہے کہ ہم ہمہ وقت افراتفری اور جلد بازی میں مبتلا قوم کا حصہ ہیں۔مجھ سے آگے کھڑی ہوئی گاڑی کے ڈرائیور کو کم از کم مجھ سے تو زیادہ جلدی ہو گی اور اگر وہ نہیں چل رہا تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس کو آگے گزرنے کا راستہ نہیں مل رہا وگرنہ وہ ایک سیکنڈ بھی صبر نہ کرتا اور اپنی گاڑی کہیں الٹے سیدھے طریقے سے گھما پھرا کر آگے نکال لیتا۔ سو‘ میں اپنے سے آگے والے ڈرائیور کی جلد بازی کا منتظر رہتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ وہ اپنا راستہ بھی بنائے گا اور میرے لیے آسانی پیدا کرنے کا باعث بھی بنے گا۔
میں چولستان ڈیزرٹ ریلی میں انتظامیہ کی ”بد انتظامی‘‘ کا تذکرہ کر رہا تھا؛ حالانکہ انتظامیہ کا بنیادی کام ہی انتظام و انصرام ہے لیکن یہی وہ کام ہے جو اب انتظامیہ نے نہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ لگ بھگ چار لاکھ لوگ اب اس ایونٹ میں شرکت کی غرض سے قلعہ دراوڑ کے آس پاس صحرا میں خیمے لگاتے ہیں۔ رہنے کے لیے برا بھلا بندوبست کرتے ہیں۔ اگر دنیا میں کہیں اور ایسا ایونٹ ہوتا تو حکومت اس کا مستقل بنیادوں پر کوئی انتظام کر چکی ہوتی ‘مگر ہمارے ہاں دو عشروں سے یہ شاندار ایونٹ ہو رہا ہے لیکن ہر سال ”ڈنگ ٹپائو‘‘ بنیادوں پر اس کا انتظام ہوتا ہے اور انتظام بھی اتنا ناکافی ‘ ناکارہ اور ناکام کہ رہے نام اللہ کا۔ اگر قلعہ دراوڑ کے آس پاس کسی میدان میں ایک باقاعدہ ”کیمپنگ سائٹ‘‘ بنا دی جائے تو بیشتر مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ کیمپنگ سائٹ بنانے کے لیے کچھ زیادہ درکار نہیں۔ ایک میدان میں چھوٹے چھوٹے پختہ تھڑے بنا دیئے جائیں جن کے مختلف سائز ہوں اور اسی سائز کے ٹینٹ کے لیے روانہ کی بنیاد پر کرائے پر دے دیئے جائیں۔ فاصلے فاصلے پر پختہ ٹائیلٹ بنا دئیے جائیں اور ان کے استعمال پر ٹکٹ وصول کی جائے تو صرف ایک سال میں ہی ان کی لاگت وصول ہو سکتی ہے۔ نہانے کے لیے باتھ روم اور پینے کے لیے صاف پانی کے فلٹریشن پلانٹ کی تنصیب‘ بھلے سے پانی بھرنے کا معاوضہ لیا جائے لیکن یہ سہولت لاکھوں کی تعداد میں منرل واٹر کی بوتلوں کے خرچے اور خالی بوتلوں کے باعث پیدا ہونے والے کوڑا کرکٹ سے نجات کا باعث بن جائے گی۔
دنیا بھر میں ایسے سالانہ ایونٹس کے انعقاد کے لیے ایسے انتظامات اور سہولتیں دی جاتی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے‘ لیکن صحرائے چولستان میں ہونے والے اس شاندار سالانہ ایونٹ کے لیے سرکاری سطح پر آتش بازی اور رنگ بازی کے علاوہ اور کچھ دیکھنے میں نہیں آتا۔ ریس ٹریک میں عوام کی بے محابہ آمد و رفت اور ٹریک میں ڈالی جانے والی مسلسل رکاوٹ کا بھی کوئی حل ہونا چاہیے۔ اس ایونٹ سے بیرونی دنیا میں پاکستان کو جو بہتر اور سافٹ امیج پہنچ رہا ہے۔ اسے مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس بار ہمارے کیمپ میں آنے والے مہمانوں میں راجہ صاحب برطانیہ سے آئے تھے اور ایک اور دوست امریکہ سے آئے تھے۔ ہمارے پاس تو خاکوانی برادران کے کیمپ کی سہولت موجود ہے ‘جن لوگوں کے پاس ایسی سہولت میسر نہیں ان کے لیے ایسے ایونٹ کے لیے درکار بنیادی سہولتوں کی فراہمی سرکار کا فرض ہے۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب حکومت ٹور ازم کی اہمیت سے آگاہ بھی ہے اور توجہ بھی دے رہی ہے۔ اک نظر کرم ادھر بھی ہونی چاہیے۔